آن لائن کلاسز: ایچ ای سی کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟
پروین ناز
کرونا وائرس کی وبا نومبر کے شروع میں چائنا سے ہوتے ہوئے فروری کے وسط میں پاکستان کے دروازے پر آکر دستک دے گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگوں کو اس وبا نے اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ بہت سارے لوگ اس وبا کی زد میں آکر اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنے زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر بہت سے قیمتی جانوں کو بچایا اور اب تک اس پر کام جاری و ساری ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرونا وائرس سے بچاؤ کے خلاف جنگ جاری ہے تو پھر عید الفطر کے بعد کیوں اس وبا میں پھیلاؤ اور بھی بڑھ گیا ہے؟ وبا بڑھنے کے باوجود بھی کیوں حکومت اپنے اسمارٹ لاک ڈاؤن کے لیے لیےگئے فیصلے پر مکمل عمل درآمد نہیں کر پایا؟ کیوں معیشت کو انسانی جانوں سے زیادہ اہم گردانا گیا اور تمام کے تمام شعبہ جات میں لوگوں کو اسی طرح کام کرنے کا سرکولیشن جاری کیا گیا جیسے کہ عام دنوں میں کیا جاتا ہے (وہ الگ بات ہے کہ انہیں اسٹینڈرڈ آف پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کی گئی۔) سوائے تعلیمی شعبہ جات کے، جو کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا سب سے اہم ترین ستون ہے۔
کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے فزیکل اور سوشل ڈسٹینسنگ کے آڈیولوجی پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر کے تمام ممالک میں لاک ڈاؤن کے اعلانات کئے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ شعبہ تعلیم کے ہر ادارے (اسکول تا جامعات) کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا۔ لیکن تعلیمی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ترقی یافتہ ممالک نے یہ حل بھی نکالا کہ انٹرنیٹ کے استعمال کو بروئے کار لاتے ہوئے آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جائے۔ جس کے لیے اُن ممالک میں سب سے پہلے ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی مفت فراہمی کے ساتھ ساتھ بجلی جیسے بنیادی سہولت کی سستی رسائی کو بھی تمام شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ہمہ وقت یقینی بنانے کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی۔ اس کے بعد تعلیمی اداروں کے عملے کو آن لائن پورٹل پر مشتمل تربیت دیئے گئے تاکہ آن لائن کلاسز یا نظامِ تعلیم کو کامیابی کے ساتھ عمل میں لایا جا سکے۔ اُن میں پاکستان بھی ایک ملک ہے جہاں شروع دن سے تعلیمی اداروں کو بند رکھا گیا، اور تمام پرائیویٹ اسکولوں، کالجوں اور اب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بھی آن لائن کلاسز کے لیے جامعات اور کالجوں کو نوٹیفیکیشن جاری کر دیئے گئے جس پر باقاعدہ طور پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
کیا پاکستان میں آن لائن کلاسز کا اجراء ممکن ہے؟
پاکستان جہاں آج تک صوبہ بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں کو ایران سے بجلی سپلائی کیا جاتا ہے وہاں مستقل بجلی کی دستیابی ہر پاکستانی کے لیے صرف ایک خواب ہے۔ پہلی بار کرونا جیسی وبا کے باعث کراچی شہر (ویسے تو کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ پورے پاکستان کے لیے لیا گیا تھا) جو کہ پاکستان کی معیشت کا گڑ مانا جاتا ہے، وہاں پر با مشکل تین ماہ تک بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، لیکن یہ عمل مستقل رکھنا حکومت کے لیے مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا گیا اور اس نے اپنے فیصلے سے انحراف کیا۔ پھر کیسے اُس ملک میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ عام علاقوں میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنا کر آن لائن کلاسز کے سلسلے کو برقرار رکھا جا سکے گا اور ملک کے تمام طلبہ طالبات یکساں تعلیم حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ جیسے سہولت تک رسائی حاصل کر پائیں گے۔ پرائیویٹ ادارے اس عمل کو یہ جانتے ہوئے بھی عمل کریں گے کہ یہاں بچوں، والدین اور اساتذہ کے لیے آن لائن کلاسز کا اجراء بے حد مشکل عمل ہے، کیوں کہ وہ اپنا کاروباری سسٹم چلانا چاہتے۔ اور ان اداروں کے زیادہ تر اساتذہ ایسا کرنے پر اس لیے بھی مجبور ہیں کہ وہ بہت ہی معمولی تنخواہیں وصول کر کے اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں، پرائیویٹ اداروں نے والدین کے سامنے اس بات کی یقین دھیانی کروانی ہوتی ہے کہ ہم اچھا ڈیلیور کرواتے ہیں اس لیے بر وقت فیس کی ادائیگی والدین کا فرض بنتا ہے۔ اور والدین اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے پریشان ہیں اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ اداروں کے بتائے ہوئے طریقے ہی مستقبل کے ضامن ہیں۔
لیکن پاکستان میں شروع دن سے ہی عام طبقے کے لوگوں کو کھبی کوالٹی کی نظامِ تعلیم مہیا نہیں کی گئی، جس کی مثال اُس کا نصاب تعلیم ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی کمپیوٹر ٹیکنالوجی یہاں اُس طرح عام نہیں ہے جیسے باقی ترقی پسند ممالک میں ہے۔ پاکستان میں اب تک اداروں کے پاس تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں ہے ۔ اگر اس بات کا ذرا مزید جائزہ لیا جائے تو کتنے فیصد ٹیچرز یا انتظامیہ ہوں گے جو خود نوجوان ہوں اور انہیں ٹیکنالوجی کے استعمال کا مکمل علم ہو؟ یقیناً بہت ہی کم۔
"ہم اس بات سے انکاری نہیں ہیں کہ یہ ایک اچھا عمل ہے جو تمام ٹیچرز اور طلبہ ایک جیسے سافٹ ویئر سے منسلک ہو کر پڑھنے کا عمل جاری رکھیں گے، لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اپنے ٹیچرز اور اس کے علاؤہ شاید ہی کچھ اور اساتذہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال باآسانی کر پائیں، وگرنہ یہ سب کے لیے سمجھنا اور استعمال میں لانا آسان نہیں۔”
"جس سماج میں انسان اور جانور اب تک ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں وہاں انٹرنیٹ یا ٹیکنالوجی جیسی سہولیات کا ہونا مضحکہ خیز بات ہے۔دنیا میں ہر چیز یا سسٹم کولانچ کرنے سے پہلے اس کی تیاری کی جاتی ہے پھر لانچ کیا جاتا ہے۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ سہولت کچھ نہیں مگر آرڈر اور نصیحت پہلے دیئے جاتے ہیں۔”
بلوچستان کےطلبہ سراپا احتجاج کیوں؟
آن لائن کلاسز کے بارے میں معلومات ملتے ہی بلوچستان کےطلبہ طالبات کا غصہ اس حوالے سے بہت زیادہ زور پکڑ گیا، جس کی سب سے بڑی وجہ انٹرنیٹ جیسے سہولت کی عدم دستیابی کے باعث ان کو اپنے سال کے ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر ہوتا ہوا نظر آیا۔ اس لیے 7 جون 2020 کو بلوچستان سے کراچی شہر میں آکر بلوچستان اور سندھ کے طلبہ طالبات نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سامنے اپنی بات رکھنے کے لیے ٹویٹر مہم SayNoToOnlineClasses# ٹرینڈ چلایا، جس کے مثبت اثرات نظر نہ آنے پر انہوں نے اسی شہر سے تین روزہ ٹوکن بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا۔ کراچی شہر سے اپنے احتجاجی ریکارڈ کو شروع کرنے کے پیچھے اُن کا سب سے بڑا مقصد اسٹریم لائن میڈیا تک اپنی بات کو رکھنا تھا۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے طلبہ طالبات تربت، پسنی، خضدار، کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں پر نکل آئے۔ ان کا موقف ہے کہ آن لائن کلاسز کا یہ سلسلہ فوری بند کر دیا جائے کیونکہ یہ طریقہ کار ان کے لیے کسی طور بھی کار آمد نہیں ہے۔
"ہائر ایجوکیشن کمیشن کا آن لائن کلاسز کے لیے لیا گیا فیصلہ سوائے ایک مذاق کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے طلبہ طالبات اپنے جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اختیار کر رہے ہیں جو کہ بالکل غلط نہیں ہے۔”
"بلوچستان کے لوگ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی اب تک بارہویں صدی جیسے حالات سے دوچار ہیں اس لیے اگر وہ اِن حالات میں احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے سب سے بنیادی حق تعلیم کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، جو کہ ایک مثبت عمل ہے۔ دنیا کو اب پتہ ہونا چاہیے کہ یہاں لوگ کیسی زندگی گزار رہے ہیں، کس طرح کے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، اور وہ اپنے مسائل کا کیا حل چاہتے ہیں۔ ہم طلبہ طالبات کے اس عمل میں اُن کے ساتھ ہیں۔”
"ایچ ای سی کا فیصلہ بہت ساری دیگر چیزوں کو عیاں کرتا ہے جن میں سے ایک اہم ہم طالب علموں کا معاشی استحصال ہے۔”
"ہائر ایجوکیشن کمیشن نے طلبہ طالبات کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے پر خود مجبور کر دیا ہے، کیونکہ ہم کسی بھی صورت اپنے سال، وقت اور محنت کا ضایع نہیں چاہتے۔”
"بطورِ ٹیچر میں اگر بات کروں تو یہاں بچے ریموٹ علاقوں میں انٹرنیٹ کے سہولت نہ ہونے پر آن لائن کلاسز کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جبکہ میں حب چوکی میں پڑھاتا ہوں اور یہاں کالج تک پہنچتے پہنچتے وہاں موبائل نیٹ ورک کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کیسے اتنا بڑا فیصلہ یہاں کے لوگوں (اساتذہ اور طالب علموں) کے سہولیات کو دیکھے بغیر لینے کا اختیار رکھ سکتا ہے۔ اس صورتِ حال میں احتجاجی عمل ہی واحد حل ہے۔”
طلبہ نے نہ صرف ایچ ای سی کو اپنی بات واضح کرنے کے لیے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بات کی، بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے مستقل احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہائی کورٹ میں ایچ ای سی کے اس فیصلے کے خلاف پٹیشن تک درج کروایا ہے، تاکہ قانونی طور پر اس پر بات کی جائے۔
بلوچستان کے علاؤہ اور کہاں احتجاجی عمل جاری ہیں اور کیوں؟
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے 2019 کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد محض 36.18 فیصد ہے، جس میں وہ اعداد بھی شامل ہیں جو کہ 3G یا 4G انٹرنیٹ سے محروم ہیں اور صرف 2.5G یا EDGE پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔
ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی جو کہ بائیس کروڑ ہے اُس میں سے صرف ساتھ سے آٹھ کروڑ لوگوں کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی ممکن ہے۔ جس میں سے پانچ کروڑ صرف موبائل سروس کے ذریعے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں جبکہ دو سے تین کروڑ کے درمیان لوگوں کا واسطہ مختلف قسم کے وائی فائی سے ہوتاہے۔ یہاں ہم بات کر رہے ہیں اُن تمام طلبہ طالبات کی جن کے لیے انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسز تک رسائی ممکن نہیں خواہ وہ پاکستان کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، کشمیر وغیرہ کے کثیر رقبے پر انٹرنیٹ کی سہولت تو اپنی جگہ موبائل فون کو استعمال کرنے کے لیے ہی سگنلز موجود نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے میں آن لائن کلاسز کا اجراء طبقاتی نظامِ تعلیم کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
"پاکستان میں اکثریتی آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان سے لے کر خیبر پختونخوا کے اکثریتی قبائلی علاقے اور جنوبی پنجاب بھر کے طلبہ بھی ایچ ای سی کے اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں ذمہ داران کو مزید غفلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہم طلبہ کے حقیقی مسئلوں پر اب فوری غور کرنا چاہیے۔”
"ہر وہ جگہ جہاں طلبہ اور ہم اساتذہ کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے وہاں احتجاج ہوگا، کیونکہ احتجاج کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔”
"اِن تمام علاقوں میں آن لائن کلاسز کے لیے احتجاج کا مسئلہ صرف انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہی نہیں، بلکہ بجلی اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، اور دیگر ضروریات بھی ہیں جو ہمارے والدین بھی اپنے معاشی بدحالی کے باعث ہمیں مہیا نہیں کر سکتے۔”
جہاں تک بات کی جائے بلوچستان کی تو چونکہ بلوچستان سب سے زیادہ پسماندگی کا شکار ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود وہ آبادی میں سب سے کم ہے، جس کی کل آبادی کا سب سے بڑا حصّہ کوئٹہ شہر میں بستہ ہے، اسکے بعد شاید لسبیلہ اور خضدار ڈسٹرکٹ آتے ہیں۔ اور یہی وہ تین اہم ڈسٹرکٹ ہیں جہاں پر لوگوں کو شاید ہی آرام سے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی سہولت موجود ہو۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اِن تین ڈسٹرکٹ میں کتنے فیصد لوگ ہیں جو کہ طلبہ طالبات ہیں اور کتنے فیصد ان میں سے اساتذہ ہیں؟ دوسرا اہم سوال یہ کہ ان طلبہ طالبات میں سے کتنے فیصد لوگ ہیں جو معاشی طور پر مستحکم ہیں اور اپنے انٹرنیٹ کے لیے تمام اخراجات (اسمارٹ فون, لیپ ٹاپ سمیت) برداشت کر سکتے ہیں؟ تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے گھنٹے اُن کو بجلی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، کہ وہ اپنے دیئے گئے اسائنمنٹ کو کروائیں اور کر سکیں؟ اور مزید اُن میں سے کتنے فیصد literate ہو کر انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہیں؟
یقیناً جواب یہی آتا ہے کہ تمام بلوچستان کے طلبہ طالبات یا اساتذہ تو ان تین ڈسٹرکٹ میں موجود نہیں ہیں۔ معیشت کی اگر بات کی جائے تو یہ یونائیٹڈ نیشنز کی اپنی رپورٹ ہے کہ پاکستان میں بلوچستان وہ صوبہ ہے جو غربت میں سب سے پہلے نمبر پر آتا ہے۔ بجلی پاکستان میں جہاں کراچی شہر میں عام طور پر روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے کے لیے نہیں ہوتی تو بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں شہروں میں بھی پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اور کھبی کھبی یہ سلسلہ پندرہ دن تک پہنچ جاتا ہے اوربجلی کی فراہمی معطل ہو جاتی ہے۔ اور تعلیمی پسماندگی میں بھی بلوچستان ہی سب سے آگے ہے۔
"ایک بڑی تعداد میں بچے دور دراز کے علاقوں سے کوئٹہ علم کے حصول کے لیے آتے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی، سردار بہادر خان یونیورسٹی یا آئی ٹی یونیورسٹی میں نصف تعداد ان بچوں کی ہے جو اندرونِ بلوچستان سے آتے ہیں اور ان سب کے لیے آن لائن کلاسز لینا ناممکن بات ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تربت، گوادر، نوشکی، خضدار، پشین، لورالائی اور سبی کی یونیورسٹیز سے تو پھر کلاسس کا اجراء نا ممکن بات ہے۔ ان تمام علاقوں میں انٹرنیٹ پی ٹی سی ایل اور موبائل نیٹ ورک سروسز نہایت خستہ حالت میں ہیں۔”
” یہ سراسر زیادتی ہے، کیونکہ ہمارے بچے اِن سہولیات سے محروم ہیں۔”
بلوچستان میں شدید غصے کی سب سے بڑی وجہ بنیادی سہولیات سے محرومی ہے۔ جدید دور میں بھی بلوچستان کے لوگ تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ یہاں پالیسی میکرز اب تک اچھے پالیسی بنا کر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں، اپنے مسائل کے لیے آواز اٹھانے پر لوگ ہمہ وقت سرکار یا سردار کے نظر کئے گئے ہیں۔ لیکن حقوق کے لیے آواز اٹھانا، پرامن احتجاج کرنا چونکہ انسانی حقوق میں شامل ہے اس لیے بلوچستان کے طلبہ طالبات ایک بار پھر تمام شہروں اور دیہاتوں سے سراپا احتجاج ہیں کہ آن لائن کلاسز کا فیصلہ واپس لے لیا جائے یا ان کے مطالبات منظور کئے جائیں۔
کیا ایچ ای سی نے جامعات اور فیکلٹی سے رابطے کئے؟
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے آن لائن کلاسز اور امتحانات کا اعلان کرنا نہ صرف طلبہ و طالبات بلکہ اساتذہ کرام کے لیے بھی ایک حیران کن بات مانا جاتا ہے۔ پچھلے تین سے چار ماہ کے دوران یا اس سے پہلے بھی کھبی ایچ ای سی نے اپنے strategy یا پالیسیوں کے متعلق جامعات سے کھل کر بات نہیں کی۔ بلکہ ایچ ای سی نے پچھلے بجٹ کی کٹوتی پر ہی تمام جامعات کو اپنے اخراجات خود برداشت کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اب بھی ایچ ای سی کے حکم سے آن لائن ٹریننگ کے نام پر تمام اساتذہ حضرات کو ایک دن کے ٹریننگ کے نام پر دراصل کچھ گھنٹوں کے لیے orientation دیا گیا۔ اس orientation میں انہیں بتایا گیا کہ کیسے انہوں نے ایک ہی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے مائیکروسافٹ آفس – 360 ٹیم کلاس روم کے سافٹ ویئر کے ذریعے اپنے لیکچرز پورے پاکستان بھر کے طلبہ کے لیے conduct کروانے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن اس بات سے مطمئن ہے کہ تمام کے تمام اساتذہ جو مستقل ایک عرصے سے حقیقی کلاسز میں جا کر اپنے لیکچرز ڈیلیور کرواتے آرہے ہیں، وہ کچھ گھنٹوں کے online orientation سے وہی کوالٹی ڈیلیور کر پائیں گے؟ اگر ہاں بھی تو اساتذہ اپنے تمام طلبہ طالبات کو وہی ٹریننگ کیسے دیں گے تاکہ وہ بھی آن لائن کلاسز کے لیے نہ صرف تیار ہوں بلکہ وہ اس سافٹ ویئر کے استعمال کے طریقہ کار کو سمجھ سکیں؟
"بلوچستان کے جتنے بھی یونیورسٹیوں سے ایچ ای سی کے روابط ہوئے ہیں انہیں بلوچستان کے جامعات کی طرف سے بہت اچھے سے یہ معلومات فراہم کئے گئے کہ یہاں ژوب سے گوادر، نصیر آباد سے مچ، بسیمہ، واشک، چاغی، دالبندین، اور پورے مکران ریجن میں زوم، گوگل کلاس روم یا کسی بھی دیگر ایپس یا سافٹ ویئر سے کلاسز کا اجراء ناممکن ہے۔ کیونکہ یہاں سب سے پہلے تو موبائل نیٹ ورک ہی دستیاب نہیں ہیں تو انٹرنیٹ کا تصور کیسے کیا جائے۔ اور بجلی کی فراہمی پر تو بات نہ ہی کریں۔”
"ہم اسٹاف کا مسئلہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا ہے، ایچ ای سی نے ہمارے انتظامیہ کو بول دیا تو اب ہم نے ہر صورت اس پر عمل کرنا ہے۔”
"بلوچستان میں فیکلٹی کے لوگ ڈرے ہوئے لگتے ہیں، وہ بات تو کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں لگتا ہے کہ بات کرنے سے ان کے نام سامنے آجائیں گے۔ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے ٹیچرز کو بتایا تک نہیں کہ ایچ ای سی کی طرف سے کیا پیش رفت ہو رہے ہیں، صرف نوٹیفیکیشن جاری کئے جاتے ہیں اور خواتین ٹیچرز کو تو خاص کر ignore کیا جاتا ہے۔”
"ہمیں نہیں لگتا کہ کسی یونیورسٹی سے ایچ ای سی کے رابطے ہوئے ہوں گے، ورنہ ہمارے اساتذہ اور انتظامیہ کو بلوچستان کے حالات کا بخوبی اندازہ ہے۔”
طلبہ کے کیا مطالبات ہیں؟
طلبہ طالبات سب سے پہلے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے آن لائن کلاسز کے لیے لئے گئے فیصلے کو واپس لینے کی بات کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے alternative solutions بھی پیش کر رہے ہیں، جن پر عمل درآمد کر کے شاید ایچ ای سی اپنے لئے گئے اس فیصلے کو کارآمد ثابت کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو پائے گا۔ مگر یہاں بات آتی ہے انفرا اسٹرکچر، یوٹیلیٹیز، اندرونی اور بیرونی سیاست، معیشت، دفاع ہر ایک ادرادے کی، تو کیا ایچ ای سی کے لیے یہ سب کرنا آسان ہو پائے گا؟
"ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لیکچرز ہمیں ڈی وی ڈی کی صورت میں دیئے جائیں۔”
"تمام علاقوں میں مفت انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ طلبہ کو بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس کے علاؤہ ہمیں لیپ ٹاپ یا تو اسمارٹ فون مہیا کئے جائیں کہ ہم با وقت اپنے اسائنمنٹ کو مکمل کر سکیں۔ تاکہ ہم بھی وہی سیکھ سکھیں جو کہ بڑے شہروں کے بڑے گھرانوں میں رہنے والے طلبہ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے اپنے لیکچرز لے کر سیکھ رہے ہیں۔”
"اگر انٹرنیٹ اور بجلی کی فوری فراہمی ممکن نہیں تو ہمارے تعلیمی سال کو پروموٹ کیا جائے، اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو ہمارے سال کی فیس wave of کی جائے، کیونکہ یہاں ہمارے تعلیمی سال کے ساتھ ہمارے فیس بھی ضائع ہو رہے ہیں۔”
چند تجاویز اور ایچ ای سی کا لائحہ عمل
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لئے گئے فیصلے پر جہاں طلبہ طالبات نے بہت سارے alternative solutions بتائے وہاں اساتذہ حضرات خاص کر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی چند تجاویز پیش کئے۔ جو یقیناَ scientific solutions ہیں۔
"ایسے سافٹ ویئر کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے جس سے بچے مستفید ہو سکیں، جو بچے آن لائن نہیں پڑھ سکتے ان کے لیے اساتذہ اپنے آڈیو/ویڈیو لیکچرز اور تمام مواد کی فراہمی کو یقینی بنائیں، یا تمام مواد انہیں بذریعہ سی ڈی فراہم کئے جائیں۔”
"تمام اسٹوڈنٹس کے لیے کسی ایسے موبائل ایپ کو بنایا جائے جہاں وہ اپنے لیکچرز باآسانی موبائل فون کے ذریعے لے سکیں۔ چونکہ جہاں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے اسکے پیچھے security concerns بتائے جاتے ہیں، لہذٰا اُن علاقوں میں حکومت پی ٹی اے کی مدد سے تمام ایپس اور نیٹ ورک سروسز بند کروا کے صرف اُس ایک ایپ کو allow کرے جس پر اسٹوڈنٹس اپنے لیکچرز لے سکتے ہوں اور اسائنمنٹ submit کروا سکتے ہوں۔ اس کے لیے سب سے پہلے انہیں اعلیٰ کوالٹی کے اسمارٹ فون فراہم کئے جائیں۔”
اندازے کے مطابق ایچ ای سی اور جامعات کے درمیان آڈیو/ویڈیو لیکچرز اور سی ڈی/ڈی وی ڈی کی فراہمی سے متعلق پیش رفت ہو رہے ہیں، لیکن اب تک ایچ ای سی کوئی واضح پالیسی نہیں دے سکی۔ جہاں تک بات ان تجاویز پر عمل درآمد کرنے کی ہے تو اس سلسلے میں ایچ ای سی کو حکومتِ پاکستان، دفاعی تنظیموں اور پی ٹی اے کے ساتھ مل کر کوئی واضح پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ بہت سارے اداروں کے ملی بھگت سے ہی ممکن ہو پائے گا۔ حکومت کو تمام اسٹوڈنٹس کو نہ صرف اسمارٹ فون بلکہ اسے استعمال میں لانے کے لیے نیٹ ورک سروسز کمپنیوں سے بھی روابط اختیار کر کے ایپس کے استعمال کو مفت یا سستا ترین بنانا پڑے گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی فراہمی کو بھی یقینی بنانے کے لیے حکومت وقت کے ساتھ مل کر جامع پالیسی ترتیب دینی پڑے گی۔ ایچ ای سی کو سی ڈیز یا ڈی وی ڈیز بر وقت اسٹوڈنٹس تک پہنچانے اور انہیں اپنے اسائنمنٹ جمع کرنے کے لیے ایک جامع پلان دینا پڑے گا۔ ایچ ای سی کی ناگزیر پالیسیوں کے خلاف تمام جامعات کے انتظامیہ کو اپنے فیکلٹیز بلخصوص ٹیچرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنا مضبوط ردعمل ظاہر کرنا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ دراصل ایچ ای سی کا یہ فیصلہ تعلیمی سال کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے لیا گیا ہے لیکن اگر ایچ ای سی واقعی اس متعلق سنجیدہ ہے کہ تمام پاکستان کے طلبہ اس pandemic condition کے باوجود بھی اپنے تعلیمی عمل کے ساتھ منسلک رہیں اور ان کا تعلیمی تسلسل نہ صرف برقرار رہے بلکہ وہ سب ایک جیسی تعلیم تک رسائی حاصل کریں تو اُسے حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ باقی اداروں اور بلخصوص جامعات کو اعتماد میں لے کر اپنا موقف تبدیل کر کے ایک مضبوط لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا جس کے لیے طلبہ اور اساتذہ خود اپنے تجاویز پیش کر رہے ہیں۔