بلوچستان: ناقص انٹر نیٹ سگنل ،آن لائن کلاسز میں درپیش مسائل

تحریر: صادقہ خان
آن لائن کلاس میں مسائل کا سامنا بڑے شہروں کے طلباء و طالبات کو بھی ہے مگر بلوچستان کے طلباء کے لیے یہ مسائل کئی گنا ہیں۔
درختوں میں پرندوں کے گھونسلے تو ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں مگر چند روز قبل کوہ سلمان اور کوہ ماران ( بلوچستان) کی اطراف آبادیوں میں درختوں پر انسانوں کے گھونسلے بھی دیکھ لیے۔ شاید آپ سمجھ رہے ہوں کہ ان علاقوں میں افریقی وحشی قبا ئل کی طرح کی کوئی قوم آباد ہے تو آپ کا اندازہ بالکل غلط ہے۔ ان درختوں پر ان طلباء کا بسیرا ہے جو کورونا وائرس کی وبا سے پہلے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اور اب یونیورسٹیاں بند ہونے کے بعد اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ آئے ہیں اور انٹر نیٹ سگنلز میں دشواری کے باعث انہیں کھلے میدانوں میں اپنے موبائل یا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ شدید گرمی سے بچنے کے لیے ان طلباء نے آس پاس کے درختوں پر چھپر نما گھر بنا لیے ہیں جہاں یہ دن بھر بیٹھ کر آن لائن کلاس لیتے ہیں ۔ جبکہ بولان کے کچھ علاقوں میں ہمیں ٹیلوں یا پہاڑوں پر دھوپ میں بیٹھے ایسے طلباء بھی ملے جنہیں درخت اور سا ئے کی سہولت بھی میسر نہیں، انہیں جس جگہ 4G کا صحیح سگنل ملتا ہے یہ وہیں بیٹھ کر کلاس لیتے ہیں ۔
20 سالہ رحیم جما لی انٹر نیشنل اسلامک یونیوسٹی ا سلام آباد میں بی ایس تھرڈ ایئر کے طالبعلم ہیں جن کا تعلق اوستہ محمد سے ہے۔ رحیم کے مطابق آن لائن کلاسوں کے لیے ان کی یونیورسٹی گوگل کلاس روم اور گوگل میٹ کا استعمال کر رہی ہے لیکن انٹرنیٹ سگنل کمزور ہونے کی وجہ سے انہیں اساتذہ کی آواز صحیح نہیں آتی نہ ہی اساتذہ خود ان سوفٹ ویئرز کا استعمال جانتے ہیں ۔ اگرچہ آن لائن کلاس میں مسائل کا سامنا بڑے شہروں کے طلباء و طالبات کو بھی ہے مگر بلوچستان کے طلباء کے لیے یہ مسائل کئی گنا ہیں۔ جو طلباء دوسرے شہروں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے ان کی اکثریت کا تعلق ریموٹ ایریاز سے ہے۔ جو انتہائی خراب ہے بلکہ یہاں انٹر نیٹ پیکج حاصل کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور ان بچوں کو مالی مسائل کا سامنا بھی ہے کیونکہ انٹرنیٹ پیکج بہت مہنگے ہیں ۔
بلوچستان میں آن لائن سیمینار میں طالبعلم کس طرح حصہ لے رہے ہیں۔
سہیل احمد کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے جو یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد میں ایم ایس سی ( آنرز) کے طالبعلم ہیں۔ سہیل نے بھی کم و بیش انہی مسائل کا زکر کیا ۔ان کے گھر میں ایسا ماحول میسر نہیں ہے جہاں وہ سکون سے آن لائن کلاس لے سکیں لہذا وہ اپنے گھر کے قریب واقع ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھ کر کلاس لیا کرتے تھے ۔ پھر انہیں انٹر نیٹ سگنل میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تو مجبوراً انہیں درخت کی اونچی شاخوں پر بیٹھ کر کلاس لینی پڑی کیونکہ بلندی پر سنگلز نسبتاً بہتر تھے ۔ بعد ازاں شدید دھوپ اور لو سے بچنے کے لیے انہوں نے درخت پر ایک چھوٹا سا چھپر بنا لیا ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ آن لائن کلاسوں میں د شواری کا سا منا صر ف دور افتادہ مقامات میں رہائشی طلباء طالبات کو ہی نہیں ہے بلکہ کوئٹہ شہر میں یہیں کی یونیوسٹیوں میں زیر تعلیم نوجوان بھی مسائل کا شکار ہیں ۔ انیس سالہ مہر النساء سردار بہادر خان وومن یونیو رسٹی کوئٹہ میں بی ایس کی طالبہ ہیں ۔ مہرالنساء کے مطابق ان کی یونیورسٹی کے بہت سے ڈیپارٹمنٹس نے ابھی تک آن لائن کلاسوں کا آغاز ہی نہیں کیا اور انھیں بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔ آن لائن کلاسوں کے لئے کچھ ڈیپارٹمنٹس زوم اور کچھ مائیکروسوفٹ ٹیم استعمال کر رہے ہیں مگر غیر اعلا نیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث اکثر ہماری کلاسیں مس ہو جاتی ہیں یا سگنل میں مسئلہ ہونے سے اساتذہ کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ اس کے علاوہ بہت سی طالبات کے گھر کا ماحول بھی ایسا نہیں جہاں وہ کسی کونے میں بیٹھ کر آرام سے کلاس لے سکیں ۔
بلوچستان یونیورسٹی آف آئی ٹی اینڈ مینیجمنٹ سائنسز میں زیر تعلیم بی ایس انجینئرنگ کی طا لبہ رحما فضل نے بھی کم و بیش انہی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ چونکہ ہمارا سبجیکٹ انجینئرنگ ہے تو ہمارا سمسٹر پریکٹیکل تعلیم کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا لہذا آن لائن کلاسز میں ہمیں صرف کنسیپٹ پڑھایا جا رہا ہے مگر اساتذہ کی آواز اکثر پھٹی پھٹی سنائی دیتی ہے ۔ آن لائن کوئز یا اورل امتحان میں ہمیں شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ کبھی لائٹ چلی جاتی ہے ،کبھی سگنل بند ہو جاتا ہے یا ہمیں اساتذہ کی آواز ہی سنائی نہیں دیتی کہ وہ کیا پوچھ کیا رہے ہیں ۔
دور افتادہ مقامات میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی بہت کم ہی میسر ہے۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے طلباء طالبات کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے ۔ اس سلسلے میں ہم نے پروفیسر عارف مسیح سے رابطہ کیا جو بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات عامہ سے پچھلے 28 سال کے وابسطہ ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ میرے پوری کیریئر میں پہلی دفعہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہوا ہے اور میں تسلیم کر تا ہوں کہ اساتذہ آن لائن ایجوکیشن کے حوالے سے زیادہ تربیت یافتہ نہیں تھے۔ یونیورسٹی آف بلوچستان نے مارچ میں ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن سے زوم سوفٹ ویئر خرید کر فوری طور پر اساتذہ کی تربیت کا پروگرام شروع کیا تھا اور ساتھ ہی یونیورسٹی کے ڈائیریکٹریٹ آف آئی ٹی نے طلباء کی حاضری کا ایک مکمل سسٹم بنا یا۔ اگرچہ ریموٹ ایریاز ہی نہیں کوئٹہ میں بھی طلباء طالبات کو انٹر نیٹ کی وجہ سے شدید مسائل کا سامنا ہے اس کے باوجود آن لائن کلاسوں میں حاضری کافی زیادہ ہے اور ان نوجوانوں کی تعلیم سے رغبت لائق ِستائش ہے۔
ہمیں اندازہ ہے کہ فزیکلی آن کیمپس کلاس لینے سے نوجوانوں کی جو پروفیشنل اور اخلاقی تربیت ہو تی ہے وہ تو ظاہر ہے نہیں ہو سکتی مگر انہیں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے اور یونیورسٹی کے شعبۂ نفسیات نے ایک ٹیلی فون لائن ڈائریکٹ کی ہے جس پر یہ نوجوان صبح سے شام تک رابطہ کر کے مدد لے سکتے ہیں ۔ صرف ہماری یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ کوئٹہ کی دیگر یونیورسٹیاں بھی طلبا ء طالبات کے مسائل حل کر نے میں بھرپور دلچسپی لے رہی ہیں مگر لوڈ شیدنگ یا انٹر نیٹ کے جو مسائل ہیں وہ ہماری دسترس سے باہر ہیں ۔ میرے خیال میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ مجھے اندازہ ہے کہ جب کوئٹہ میں صورتحال یہ ہے تو دور دراز علاقوں میں نوجوانوں کی کیا حالت ہوگی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی مسئلے کے لیے پہلے سے کوئی بھی تیاری کیوں نہیں کی جاتی۔ مون سون ہو تو ڈیزاسٹر مینجمنٹ شدید سیلاب کے بعد جاگتا ہے۔ تعلیم ہو تو ہائیر ایجوکیشن کمیشن اتنے ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک کوئی مکمل سسٹم نہیں بنا سکی اور طلباء امتحانات اور اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہیں ۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر ایک منظم اور بھرپور سسٹم کے ساتھ ایک نیا آغاز کریں ۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

اپنا تبصرہ بھیجیں