ڈاکٹر کہور…ایک بحث

اللہ بشک بزدار
میں نے ڈاکٹر کہور صاحب کا انٹرویو جو عابد میر صاحب نے لیا تھا، سنا اور سمجھنے کی کوشش کی. میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب نے چند اہم باتیں واضح کی اور غیر ضروری امور سے صرف نظر کیا.
ڈاکٹر صاحب نے بلوچ قوم پرستی کی ان حدود کی طرف توجہ دلائی جنہیں دانستہ طور پر زیرِ بحث نہیں لایا جا تا. ایک امریکی سکالر ڈاکٹر ورسنگ نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا کہ بلوچوں کی قوم پرستی انکی قبائلی حدود تک وجود رکھتی ہے. اور بلوچستان میں بسنے والی دوسری قوموں یا ثقافتی گروہوں سے انکے سیاسی معاملات غیر واضح ہیں. اسی طرح بلوچستان کی موجودہ جغرافیائی حدود سے باہر رہنے والے بلوچوں کے بارے میں بھی انکی قوم پرستی ابہام اور تجاہلِ عارفانہ پر مبنی ہے.
ڈاکٹر صاحب نے یہی سوال اپنے انداز میں سامعین و ناظرین تک پہنچایا مگر سوائے چند ناظرین کے اکثر دوست اپنے موجود ذہنی حصاروں کے قیدی رہے.
ڈاکٹر صاحب نے سیاسی عمل میں موجود چند قابل فہم کمزوریوں کی موجودگی کے بارے میں بات کرنے اور اصلاح احوال کی طرف توجہ مبذول کرائی تو یار لوگوں نے اسے ایک نئ پارٹی بنانے اور دوبارہ لیڈر بننے کی خواہش پر محمول کیا.
کون نہیں جانتا کہ بلوچستان تو کجا پورا ملک ایک سیاسی بے سمتی اور حکمران طبقات کی ایک ناقابل تسکین ہوس کا شکار ہو چلا ہے. ملک کی آبادی کی واضح اکثریت سیاسی عمل سے نکال باہر کر دی گئ. حالانکہ جمہوریت تو کجا کسی ملک کی ھئیت حاکمہ تک اس ملک کی پوری آبادی (مرد و زن) کی مکمل شعوری، بلا جبر اور آزادانہ عمل و انتخاب کی مرہونِ منت ہوتی ہے. ماورائے آئین و قوانین علاقوں کی وسعت بجائے خود ایک ھمہ گیر بحران کی طرف اشارہ کرتا ہے. یہاں کون احمق ایک نئ پارٹی بنانے کا خواب دیکھنے کی جسارت کر سکتا ہے.
ڈاکٹر صاحب نے موجود سیاسی پارٹیوں سے وسیع بنیادوں پر منظم ھونے اور کم از کم سیاسی نکات پر مشترک جدوجہد کرنے کی اپیل کی ہے جو مختلف سماجی اور طبقاتی پرتوں کےلیے امید افزا پیغام رکھتی ہو.
ڈاکٹر صاحب نے اس پروگرام کو سادہ الفاظ میں سو شلزم کا نام دیا اور وضاحت کی کہ میرا مطلب ایک ایسے فلاحی سیاسی اور معاشی نظام سے ہے جو خاک نشینوں کو زندہ رہنے کا موقع فراہم کرتا ہو. ڈاکٹر صاحب نے بلوچستان میں اسی فیصد خط غربت سے نیچے رہنے والی آبادی کو محنت کش کہا ہے. جو دوست قوم پرستی کو محنت کشوں کی آدرشوں سے جدا کرکے سمجھتے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ اس صدی کے تقاضوں سے میری ناقص رائے کے مطابق، لگا نہیں کھاتی.
لوگ تجربہ کار اور عالم انسانوں سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ھم ہیں کہ دل آزاری کے فن میں یکتائی کو ہنر جانتے ہیں.
با نجھ قومیں لیڈر کو دیوتا بناتی ہیں اور زندہ قوموں میں دیوتاؤں کی بجائے
اجتماعی دانش رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے. فرد بشری کمزوریوں کا دوسرا نام ہے.
ڈاکٹر صاحب نے میری دانست میں بنی نوع انسان کو درپیش چیلنجوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جن سے نمٹنا تمام قوموں کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے. اور سب سے اہم بات اپنی فروگذاشتوں پر نظر رکھنا ہے.
آج کا اہم ترین ہتھیار اور طاقت وہ علم ہے جو تعصبات کے پردوں میں مستور نہیں.
فضائی آلودگی، وبائی امراض، مصنوعی ذہانت سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں، عالمی سرمایہ کی ھمہ گیر یت اور شہری حقوق پر تحدید تمام انصاف پسند انسانوں کے لیے مشترک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں. دنیا میں وہی قومیں سرخرو ہوں گی جو ان مسائل سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کر پائیں گی.

اپنا تبصرہ بھیجیں