کورونا ‘لاک ڈاون،معاشرے پرمنفی اثرات
رحمان حمید
دنیا کے تقریباً تمام ہی ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی قدرتی آفت ہو یا وبائی مرض کا حملہ، ذہنی صحت کے لیے یہ صورتحال ایک دھچکے سے کم نہیں ہوتی۔ خصوصاً ایسی صورتحال صرف سیلف آئسولیشن یا خود ساختہ تنہائی ہو، یہ صورتحال کسی بھی سماج میں کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اس وقت اس طرح کی صورتحال سے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ہماری سماج بھی دوچار ہیں۔ اسی تناظر میں عالمی ادارہ صحت نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ اس عالمی وبا کے دوران ذہنی حالت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس لیے چند ایسی سفارشات بھی پیش کی ہیں جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کسی حد تک ذہنی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے:
ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید ذہنی تناو جہاں شدید ڈپریشن کا باعث بنتا ہے وہیں اس سے کئی دیگر طرح کی ذہنی و جسمانی پریشانیاں اجاگر ہو جاتی ہیں، خاص طور سے ایسی صورت میں جب کوئی وبا عام ہو، ”خود کو یا اپنے عزیزوں کو بیماری لاحق ہونے کا شدید خوف، نیند اور کھانے کے انداز وطریقے میں تبدیلی، یکسوئی اور سماجی تعلقات اور معاشی معاملات میں مشکلات، کسی دائمی مرض میں شدت آنا ایسے چند مسائل ہیں جس کا سامنا اس وقت لازمی طور پر کئی افراد کر رہے ہیں:
دوسری جانب ہمارے یہاں الیکٹرانک میڈیا /نیوزچینلز بشمول سوشل میڈیا میں کرونا کو لیکر جس قدر اس کے بارے میں سنسنی خیزی اور خوف پیداکی گئی اس سے لوگوں کے اندر اس وائرس کے حوالے سے انتہائی خوف پھیل گئی ہیں۔ کیونکہ لوگ لاک ڈاون ، کاروبار اور تعلیمی اداروں کی بندش یا کام کاج میں کمی کی وجہ سے فارغ بیٹھے ہوئے ہیں تو اس وجہ سے انکی دھیان مکمل طورپر کرونا کی جانب ہے ہرگھر میں کرونا وائرس زیربحث رہتی ہے اور سوشل میڈیا نیوزچینل پر جوکچھ دیکھتے ہے بغیرتصدیق کے اسے آگے بیجتے ہے کہ اس حوالے سے بہت سی جعلی فوٹیچ ، لوگوں کی سڑکوں پر تڑپنے والی ویڈیوزیا سینکڑوں کی تعداد میں لاشوں کو دکھانا اور ان سب کو کرونا سے منسلک کرنا اور اس حوالے سے مختلف قسم کے میھتس کو جوڑنا جیسے ان کے خیال میں بس یہ قیامت کی نشانیاں ہیں۔دنیا نیست ونابودہونے والی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس صورتحال میں میڈیا کی طرف سے مسلسل منفی پروپگنڈوں سے لوگوں اورخاص کر خواتین اور بچوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی ہیں۔اس وقت خواتین ذمہ داریوں کا بوجھ تو اٹھائے ہوئے ہیں تاہم ہر طرح کی سچی جھوٹی خبریں، گھریلو ماحول میں تناو، بچوں کے مستقبل کی طرف سے پریشانیوں اور ممکنہ مالی مسائل جسے بوجھ کا سامنا کرنے جیسے کئی مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ خواتین کو اس ذہنی اذیت سے نکلنے اور انہیں نکالنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے:
دوسری جانب گورنمنٹ کی طرف سے عائد کردہ کاروباری لاک ڈاون کی وجہ سے مردحضرات جو کہ گھروں میں مقید رہے اس دوران کاروبار/ روزگارکی بندش ، خاندان اور بچوں کی کفالت کو لیکر انتہائی ذہنی ڈپریشن کے شکار ہوگئے جبکہ بچوں کے اسکولوں کی بندش اور وطویل تعطیلات گھریلومعاملات پرکافی حدمنفی شکل میں اثرانداز ہوئے ۔
لاک ڈاوں اور کروناوائرس کی خوف ، روزمرہ کام کاج/ڈیلی روٹین میں تبدیلی نے رویوں میں چڑچڑاپن ذہنی تناواور سماجی معاملات کو یکسر بدل کررکھ دی ۔ اس صورتحال میں خواتین ہرطرح سے تشددکی شکاررہی کہ سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاون میں اس سال کی پہلی سہ ماہی میں خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد میں 200 فی صد اضافہ دیکھنے کوملا۔ خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے 90 فی صد واقعات مختلف شہروں اور دیہاتوں میں پیش آئے۔
اسی طرح اس دوران پاکستان میں رواں سال کے پہلے تین ماہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 74 کیسز سامنے آئے۔ ان میں 61 کیسز صرف مارچ کے مہینے میں رپورٹ ہوئے جب ملک میں کرونا تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تھا اور جزوی لاک ڈاون جاری تھا:
جبکہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں قتل کے مقدمات میں 142.1 فی صد اضافہ ہوا جب کہ اغوا کے 164 واقعات رپورٹ ہوئے اوراس دوران جنسی تشدد کے واقعات کے ساتھ ،خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوا کہ اجتماعی خودکشی کے واقعات بھی سامنے آئے جیسے کہ گذشتہ دنوں پنجاب میں ایک ہی خاندان کے تین افرادنے زیریلی گولیاں کھاکر خودکشی کی ۔اس حوالے سے تحقیقی رپورٹس بتاتی ہے کہ خودکشی کا سب سے ذیادہ رجحان بے روزگار افراد میں پایا جاتا ہے۔اب اگر یہ وبائی صورتحال مزید برقرار رہتی ہے، تو ملک میں بے روزگاری اورذہنی دباو مزیدبڑھے گی۔ اسکے نتیجے میں خودکشی کے واقعات کے ساتھ کرائمز اور تشدد کے واقعات میں اورتیزی آئے گی:
ماہرین کیمطابق لاک ڈاون اور کرونا کی حالیہ صورتحال میں دنیابھرمیں طلاق کی شرح میں اضافہ ہوئی۔ جبکہ ہمارے یہاں بلخصوص بلوچستان میں قبائلی جھگڑوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا اوران لڑائی جھگڑوںاورغیرت کے نام پر قتل میں مردحضرات کے ساتھ خواتین اور بچوں کوبھی قتل کیا گیا:
جس میں ایک خاتون ملک ناز جوکہ کیچ ڈھنک کی رہنے والی تھی اس کی بہمانہ قتل اور اس دوران اسکی معصوم بچی برمش کی زخمی ہونے کی واقعہ کو لیکر نہ صرف بلوچستان بلکہ سندھ ، پنجاب اوربیرون ممالک بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے :
اس کے بعد مکران کے علاقے میں اسی طرح کی ایک اورواقعہ میں ڈاکووں کی فائرنگ سے خاتون شہید ہوئی تھی۔ جبکہ پشین میں شوہر نے بیٹی کی پیدائش پربیوی کی جسم کو کیلوں اور آئنی سلاخوں سے چھلنی کرکے بدترین تشدد کے دوران قتل کیا تھا۔ جبکہ ایک اور واقعے میں شوہر نے لڈوگیم میں ہارنے کی وجہ سے اپنی بیوی کی بازو توڑدیاتھا۔:
ہمارے یہاں اس لاک ڈاون اور کرونا صورتحال میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے بے شمار واقعات سامنے آئے جن کی تفصیل مضمون کی طوالت کی وجہ سے بیان نہیں ہوسکتی ۔
اس ضمن میں مُلک میں کرونا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے سماجی ، نفسیاتی اور معاشی پہلو وں پر نظر ڈالنا بے حد ضروری ہے۔ پاکستان ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں خاندانی نظام آج بھی بہت مضبوط ہے۔ والدین، انکے شادی شدہ بچے، پوتے پوتیاں، بھائی بہنیں، بیشتر ایک ہی گھر کے اندر مقیم ہوتے ہیں۔ ایسا سال ہا سال بعد، یا غالبا صدیوں بعد ہو رہا ہے کہ تمام لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں محدود رہنے اور معاشرتی رابطوں سے مکمل گریز کا کہا جا رہا ہے۔ اس وقت دفتروں یا کام کاج کو جانے والے مرد بھی گھروں میں ہیں اور ملازمت پیشہ خواتین بھی۔ یونیورسٹیوں کو جانے والے نوجوان بھی گھروں میں مقید ہیں اورسکولوں کو جانے والے ننھے منے بچے بھی۔ گویا یوں کہہ لیجیے کہ ہر گھر اپنے مکینوں سے اٹا پڑا ہے اور ایسا پہلی بار ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نئے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ گھر کے اند ر کی تقسیم کار پر جھگڑے ہونے لگے ہیں۔ چونکہ سارا وقت گھر پر گزرتا ہے اس لئے ہنسی مذاق اور خوش مزاجی کے دورانئے تھوڑی دیر بعد ختم ہو جاتے ہیں۔ یکسانیت اور گھٹن اعصاب پر اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ حساسیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بات بات پر خون کا دباو بڑھنے لگتا ہے۔ توتکار اور لڑائی جھگڑا اس طرح کی گھٹن کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ جوں جوں گھروں کی قید کا یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے توں توں جذبات کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر خواتین پر گھریلو تشدد بڑھنے لگا ہے اور نا چاقیاں پیدا ہونے لگی ہیں۔ مجھے اپنے حلقہ تعارف کے کچھ لوگوں کا علم ہے جہاں اس طرح کی صورتحال پیدا ہوئی اور بال بچوں والی خواتین اپنے میکے آ بیٹھیں۔ اب تو نوبت طلاق تک بھی جا پہنچی ہے۔
ہمارے ہاں ایک چوتھائی سے ذیادہ افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی تعداد کم وبیش ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔ ان میں سے بیشتر دیہاڑی دار لوگ ہیں۔ کچھ تو فیکٹریوں، ملوں، دکانوں، سٹوروں اور دفتروں میں چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ اب گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ ان میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جو سارا سارا دن مختلف گھروں میں صفائیاں کرتی، برتن مانجتی،یا کپڑے دھوتی ہیں۔ لوگوں نے کرونا کے خوف سے انہیں بھی فارغ کر دیا ہے۔ ایسے گھروں میں سب سے بڑ ا مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ گھر کا چولہا کیسے جلے؟کھانے کو کہاں سے آئے؟ نہ مرد اس قابل رہا ، نہ عورت۔ سو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایسے ان پڑھ یا نیم خواندہ گھروں میں لڑائی جھگڑے نہیں ہونگے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ بھوک، تہذیب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔ تو یہی کیفیت اب لاکھوں گھرانوں کے اندر پیدا ہو چکی ہے۔ حکومت کی طرف سے دی جانے والی ، تین چار ہزار روپے ماہانہ یا یک مشت بارہ ہزار روپے کی امداد ، اس مسئلہ کا حل نہیں ممکن ہے کہ ہفتہ دس دن، ایک آدھ مہینہ سہولت سے کٹ جائے۔
یہ معاملہ صرف دیہاڑی داروں تک محدود نہیں رہا، بڑی فیکٹریوں، کارخانوں اور کاروباری طبقے نے بھی ہزاروں ملازمین کو فارغ کر دیا ہے اور وہ گھروں میں آ بیٹھے ہیں۔ اسی طرح کے حالات سمندر پار کے ممالک میں بھی پیدا ہورہے ہیں۔ صرف متحدہ عرب امارات میں دس ہزار پاکستانی اپنی ملازمتیں گنوا بیٹھے ہیں۔ یہی حال سعودی عرب کا ہے جہاں سے پاکستانیوں کا نہایت تیزی سے انخلا ہو رہا ہے۔ اس سے پاکستانی گھرانوں پر مزید بوجھ پڑ رہا ہے۔ نہ صرف انکی آمدنی کا ایک معقول ذریعہ ختم ہو گیا ہے ،بلکہ گھر بیٹھے بے روزگاروں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اسکی بھاری قیمت ملک کو بھی ادا کرنا پڑے گی جو آنے والے مہینوں اور سالوں میں زر مبادلہ کی کمی کا شکار ہو گا۔
کورونا کی وبا ایک ناگہانی آفت تھی جس کے مقابلے کیلئے دنیا بھر کی حکومتوں نے ہنگامی اقدام کے طور پر اپنے اپنے ملک میں لاک ڈاﺅن کی پابندیاں نافذ کرکے لوگوں کی
نقل و حرکت گھروں تک محدود کی اور انہیں سماجی دوری سمیت مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا پابند بنایا۔ خوش قسمتی سے پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس میں کورونا وائرس کی وجہ سے امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں کم لوگ متاثر ہوئے اور اموات بھی کم ہوئیں لیکن خطے کے ہر ملک میں معیشت بہرحال بری طرح متاثر ہوئی اور غریب طبقہ بھوک اور بےروزگاری کا شکار ہو گیا۔جسکی وجہ سے لوگ ذہنی تناواورڈپریشن کا شکارہوکر خواتین اوربچوں پر تشدد کررہے ہے ۔
اس دوران ذہنی تناو اورخواتین ،بچوں، معذورافراد، خواجہ سراﺅں پرتشدداورصنفی بنیاد پر رواں رکھنے والی برتاو کی روک تھام کے لئے ملکی سطح پر کام کرنے والی ایک معروف سماجی تنظیم ”آواز فاونڈیشن ‘ ‘ نے ملک بھر میں دیگر تنظیموں کے ساتھ ملکر لوگوں میں شعوروآگہی کی مقصد
سے "اُجالا” کے نام سے ایک مہم کا آغازکیا ہے ۔ ملک بھرمیں 40سماجی تنظیموں کی اشتراک سے
اس مہم کو چلائی جارہی ہے اس مہم کے تحت ریڈیو، ٹی وی ، سوشل میڈیا پرٹاک شوزکے علاوہ عوامی مقامات پر بینرز آویزاں کرکے کورونا وائرس سے متعلق احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس صورتحال میں صنفی بنیادوں پر رواں رکنے والی تشدد کی روک تھام کے لئے لوگوں کو پیغامات دی جاری ہے :
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا وائرس ایک قدرتی وباہے اور اس سے نمٹنے کے لئے احتیاط ہی بہترین ذریعہ ہے جبکہ گھریلوتشدد معاشرے کے لئے کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے تشدد سے پاک معاشرے کے قیام کے لئے اپنا انفرادی اور اجتماعی کرداراداکرنا انتہائی ضروری ہیں