تعلیم کے بدلے مفلوج نظام

تحریر عاطف رودینی بلوچ
دنیا کے سات عجوبوں میں ایک خوبصورت اور شاہکار عجوبہ تاج محل ہے جسکو 1632 میں شروع کیا گیا اور تقریباً 1652 کو تاج محل تیار ہو جاتا ہے۔ تاج محل تیار ہونے کے بعد جب مغل بادشاہ شاہ جہان کی نظر پہلی نظر تاج محل پر پڑھتی ہے اسکی خوبصورت اور بناوٹ کو دیکھ کر حیرانگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور بعد میں شاہ جہان تاج محل کو بنانے والے مزدوروں سمیت تمام انجینئرز کو خوب دولت اور انعامات سے نوازا اور پھر ان کے ہاتھ کاٹ کر انہیں مفلوج بنا دیا تاکہ وہ اپنی باقی زندگی اس کے دئے ہوئے دولت سے خوشی میں گزار لے مگر دوبارہ ایسی خوبصورت چیز کسی اور کیلئے نہ بنا سکے تاج محل بنانے والے مزدوروں نے کئی سال محنت کرکے خوبصورت تاج محل شاہ جہان کے حوالے کردیا مگر شاہ جہان نے ان کے ہاتھ کاٹ کر انہیں مفلوج کر دیا۔
اس وقت دنیا جدید علوم سے آراستہ ہو کر اپنے اپنے ملک و ملت کو ایک عظیم مقام پر پہنچانے میں لگا ہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں آج بھی تعلیم نا ممکن خواب کی طرح ہے بلوچستان اپنے سائل وسائل قدرتی گیس سونا چاندی کرومائیٹ تانبہ کوئلہ ان مزدوروں کے طرح موجودہ شاہ جہان کے حوالے کر چکے ہیں مگر موجودہ حکومت شاہ جہان کی طرح بدلے میں بلوچستان کو مفلوج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شاہ جہان نے بدلے میں مزدوروں کو مفلوج کردیا مگر انہیں اس قدر دولت سے نوازا کہ وہ معتاجی کے بجائے خوشی سے اپنی زندگی گزار سکے مگر موجودہ حکومت تو بلوچستان کے عوام کو مفلوج کرنے کے ساتھ مفلوج کرنے سے بھی زیادہ خطرناک عمل اختیار کر رہی ہیں۔
کرونا نے بھی کافی حد تک دنیا کے نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے کئی ملکوں میں ابھی بھی کرونا کا راج ہے تا کچھ ملکوں نے کرونا پر پوری طرح کنٹرول حاصل کرکے کرونا کے زور کو توڑ دیا ہے۔ جن ملکوں میں کرونا کا زور موجود ہے یا جن سے کرونا ختم ہو چکا ہے دونوں طرح کے ممالک یہی چاہتے ہیں کہ کرونا سے انکا جان چھوٹ جائے مگر حیرانگی کی بات ہے کہ ہماری حکومت کو کرونا سے بہت لگاؤ ہے حکومت خود نہیں چاہتی کہ کرونا کی وبا ختم نہ ہو۔ حکومت کرونا کو جانے سے روکنے کیلئے اسکا پاؤ پکڑ کے بیٹھا ہوا ہے کیونکہ اگر کرونا چلا گیا پھر کرونا کے مد میں کچھ منافع بخش سکیمز ، فنڈز اور دنیا کا ترس ملک سے ختم ہوجائے گا۔ حکومت نے کرونا کو بھی بلوچستان کے طلباء و طالبات کو مفلوج کرنے کیلئے ہتھیار کی طرح استعمال کر رہا ہیں۔ برائے نام لاک ڈاؤن میں دفاتر، پارلیمنٹ، کاروباری مراکز، شاپنگ سینٹرز سب کچھ کھلے ہیں صرف اور صرف تعلیمی ادارے ہی بند ہیں جو بلوچستان کے طلباء و طالبات کے مستقبل اور صوبے کیلئے خوش آئندہ بات نہیں تھی بات یہاں ختم نہیں ہوتی حکومت اور ایچ ای سی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بلوچستان کے 86 فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ نہیں ہے باقی جن 14 فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ بحال ہیں وہاں بھی انٹرنیٹ سروس کافی سست روی کا شکار ہے بلوچستان کے 80 فیصد سے زیادہ حصہ دیہات پر مشتمل ہے، 60 فیصد لوگ غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اکیسویں صدی میں بھی بلوچستان کے لوگ غذائی قلت کے شکار ہیں۔ ان سب باتوں کو جانتے ہوئے ایچ ای سی نے آن لائن کا اعلان کردیا جو بلوچستان اور بلوچستان کے طلباء کے ساتھ مزاق ہیں۔ ابھی تک جامعہ بلوچستان سکینڈل کے حقائق سامنے نہیں آئے، ڈیرہ بگٹی گرلز کالج کا افسوس ناک واقعہ پرانا نہیں ہوا تھا، بی ایم کا مسئلہ ابھی تک حکومت حل نہیں کررہا اور ان سب کے بعد یہاں کے طلباء کو تعلیم سے دور کرنے کیلئے آن لائن کلاسز کے ذریعے ایک اور سازش رچایا گیا۔
جب بلوچستان کے 86٪ فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ موجود ہی نہیں تو وہاں کے طلباء آن لائن کلاسز کیسے لینگے؟ جب بلوچستان کے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہورہی تو وہ مہنگے ہیند رائڈ موبائلز اور لیپ ٹاپ اور مہنگے انٹرنیٹ پیکجز کیسے لگوا سکے گے؟ پہلے ایک ایک اداروں کو سازش کا نشانہ بنا کر انہیں تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی مگر اب پورے بلوچستان کے طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کرکے بلوچستان کو مزید پسماندہ اور تباہی کے طرف لے جایا جا رہا ہے کرونا سے چند لوگ مر رہے ہیں مگر تعلیم چین لینے سے ایک نسل تباہ ہو جاتی ہیں بلوچستان کے طلباء جو مستقبل کے معمار ہیں اب خود ہی انکا مستقبل خطرے میں ہیں جب اک نسل کو تعلیم سے دور رکھ کر ذہنی مفلوج بنایا جاتا ہے تو وہ اس ملک کے ساتھ پورے خطے کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے پھر آنے والے وقتوں میں جب ذہنی طرح مفلوج لوگ یا تعلیم حاصل نہ کرنے والے لوگ ملک کے حکمران بنے گے بیوروکریسی میں جائینگے، سیکورٹی اداروں کے چارج سنبھالیں گے تو پھر وہ نہ اپنے ملک کو سنبھال سکے گے اور نہ ہی خطے کیلئے بہتر ثابت ہو سکے گا۔ اتنے بڑے خطرے کے باوجود صوبائی و وفاقی حکومت کو جوں سے توں تک نہیں ہوا جب اس بار بھی طلباء تعلیم دشمن پالیسی کے خلاف طلباء اپنے حق کیلئے ائینی اور جمہوری طریقے سے عدالت کا دروازہ بھی کٹ کٹایا اور پر امن احتجاج کرنے لگے تو ہر بار کی طرح اس بار بھی حکومت اپنی بے شرمانہ روایات جاری رکھ کر یہاں کی روایات کو ایک بار پھر پاؤں نیچے روند تھے ہوئے طلباء کے ساتھ طالبات پر بھی لاٹھی برسایا فیمیل اسٹوڈنٹس کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا تشدد کرنے کے بعد تمام طلبہ وطالبات کو زندان میں ڈال دیا گیا جس پر پورے ملک کے تمام سیاسی لیڈران، دانشوروں، جج وکلاء سمیت ہر مکتبہ فکر نے اس کی پرزور الفاظ میں مذمت کی اور اپیل کی کہ طلباء کو جلد از جلد رہا کیا جائے اس کے باوجود بھی حکومت کو کچھ فرق نہیں پڑا جو حکومت کی نااہلی اور کم ظرفی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کئی دہائیوں سے بلوچستان پر ظلم و نا انصافی جاری ہے مگر یہاں کے عوام کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کرنا سب سے بڑا ظلم ہے ہاتھ پاؤں سے مفلوج شخص اپنے ذات تک محدود ہوتا ہے مگر اک طبقے کو تعلیم نہ دے کر ذہنی طور پر مفلوج کرنا پورے معاشرے اور خطے کو مفلوج بنانے کے مترادف ہے اگر حکومت معاشرے کو مفلوج ہونے سے بچانا چاہتی ہے تو اسے تعلیم کے دروازے بند کرنے کے بجائے تعلیم کو فروغ دینا چاہیے نہیں تو پھر ایک بھیانک مستقبل کیلئے تیار رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں