آن لائن کلاسز اور بلوچ روایات کا قتل

انور رخشانی
بلوچستان میں پسماندگی ، غربت ، شرع ناخوندگی عروج پر ہے ۔ان مشکلات کے باوجود یہاں کے نوجوان تعلیم کے حصول کے لئے میدان عمل میں جدوجہد کرنا ان کی تعلیم دوستی کا ثبوت ہے، بلوچستان کے زمینی حقائق پر اگر نظر ڈالیں تو پہاڑوں ، میدانوں ، دریاوں اور دوردراز آبادیوں پر مشتمل بلوچستان میں اب بھی اکثر اضلاع کے ہیڈ کواٹرز میں بنیادی سہولیات جن میں اسکول کالج، ہسپتال ، سڑک ، پانی بجلی ، اس دور حاضر میں بھی میسر نہیں تو دوردراز کے علاقوں اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ بلوچستان میں لوگ سینکڑوں کلو میڑ کا سفر طے کرکے ہسپتال سمت بنیادی سہولت ڈھونڈتے نظر آتے ہیں افسوس ناک امر یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال صوبے میں بمشکل چار سے پانج اضلاع کے لئے ایک ہسپتال موجود تو ہے لیکن اس میں بھی کسی قسم کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہیں بلوچستان کے اکثر اضلاع میں ڈگری کالج سرے سے ہی موجود نہیں ہے اگر چند ایک ضلاع میں کالج موجود ہے تو اس میں بھی اساتذہ کی کمی اور طلباء کے لئے رہائش سہولت میسر نہیں۔ ان مشکل حالات میں جہاں لڑکوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا کٹھن ہو وہاں لڑکیوں کے لئے تو تعلیم کے دروازے شروع ہونے سے پہلے ہی بند ہوجاتی ہیں کیونکہ مقامی سطح پر لڑکیوں کے لئے تعلیم ادراے موجود نہیں اور بلوچ روایات میں لڑکیوں کا گھر سے دور حصول تعلیم کے لئے نکلنا ممکن نہیں چند ایک باہمت گھرانے اپنے پچیوں کو اعلی تعلیم کے حصول کے لئے گھروں سے اجازت دیتے ہیں جو ان کا حق بھی ہے اور تعلیم سے بے پناہ لگاو بھی۔ اسی طرح اس جدید دور میں بلوچستان کے اکثر علاقوں میں نیٹ ورک موجود نہیں مقامی لوگوں کو مجبوری کی حالات میں ایک فون کرنے کے لئے کئی کلومیڑ کا سفر کرنے کے بعد مستفید ہوتے ہیں اور جن علاقوں میں نیٹ ورک موجود ہے وہاں انٹرنیٹ پر صوبے میں نامناسب حالات کی وجہ پابندی ہے۔حال ہی میں کرونا وائرس جسے وباء کی وجہ سے جہاں پوری دنیا میں معاشی، سیاسی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی یہ سرگرمیاں معطل ہیں۔ اسی تناظر میں ہائیرایجوکشن کمیشن HEC نے فیصلہ کیا کہ پورے پاکستان میں آن لائن کلاسز کا اجرا کیا جائے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بلوچستان کے طلباء میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کیونکہ مقامی سطح پر بلوچستان کے پچاس فیصد سے ذائد علاقوں میں نیٹ ورک سرے سے ہی موجود نہیں اور کہیں پر نیٹ ورک موجود ہے بھی تو چند ایک علاقوں کے علاوہ ہر جگہ انٹرنیٹ پر پابندی عائد ہے یا نیٹ ورک بھی میسر نہیں۔ اکثر علاقوں کے طلباء تعلیم کا مشعل ہاتھ میں لئے اپنے آواز بلند کررہے ہیں۔مختلف طلباء تنظیموں اور تعلیم دوستوں سماجی کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا سمت مخلتف فورمز پر مختلف شہروں میں احتجاج بھی کیا تاکہ ہائیرایجوکشن کمیشن تک آپنی آواز پہنچائی جائے اس تمام صورتحال میں صوبائی حکومت کا کام تھا کہ وہ بلوچستان کے طلباء کی آواز بنتا اور حکومتی سطح پر طلباء کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے HEC کو بلوچستان کے زمینی حقائق سے آگاہ کرکے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لئے قائل کرتا۔ لیکن اس کے برعکس موجودہ صوبائی حکومت بلوچستان کے روایات کو پامال کرنے میں کوئی آر محوس نہ کی بلکہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کچھ عرصہ پہلے اسی حکومت میں بولان میڈکل یونیورسٹی کے طلباء جب یونیورسٹی میں فیسوں سمت مختلف مسائل کے خلاف آواز بلند کررہے تھے تو اسی صوبائی حکومت کی احکامات کی روشنی میں بلوچ اور بلوچستانی روایات کو روند کر ایک ایسی روایت ڈالی گئی جو شاید تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بلوچستان میں دو بڑی قومیں بلوچ اور پشتون آباد ہیں اس کے علاوہ بھی بلوچستان میں مخلتف قومیں رہتی ہیں۔ چند ایک کے علاوہ یہاں رہنے والے اکثر اقوام کی رہیں سہن اور روایات تقریبا یکساں ہیں خاص کر بلوچ اور پشتون اس خطے میں صدیوں سے آباد ہیں ان کی روایات بھی یکساں ہیں بلوچ اور پشتون روایات کے مطابق خواتین کو معاشرے میں ایک اعلی مقام حاصل ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ بلوچ پشتون روایات کے امین پانچ ردجن سے ذائد رکن بلوچستان اسمبلی جن میں اکثر بلوچ اور پشتون کی موجودگی میں بلوچستان کے روایات اور خواتین کی چادر کو پاوں تلے روندنے میں کوئی آر محسوس نہیں کررہے۔بلوچستان اسمبلی میں موجود نااہل اور بظاہر قبائلی لیکن قبائلی روایات سے ناآشنا اپنے آباواجداد کے روایات کے برعکس تاریخ میں پہلی بار احتجاج کے دوران خواتین کے سروں کے چادر اچال کر انہیں تھانوں میں بند کرکے یہ ثابت کردیا کہ بلوچستان اسمبلی میں موجود چند بھٹیرے نما انسان نہ تو بلوچ پشتون سمت بلوچستان میں بسنے والے لوگوں کےنمائندے ہیں نہ ہی بلوچستان کے روایات کے امین ہیں۔ جس بلوچستان کی روایات میں بڑی قبائلی جنگوں میں بھی خواتین کو جنگ سے استشنا حاصل ہو جہاں بڑی جنگوں اور قتل غارت کے بعد خواتین کی بحثیت بلوچی میڑ کی صورت میں پچاس، پچاس خوں معاف ہوتے ہوں ۔ اس بلوچستان اسمبلی میں موجود بظاہر بلوچ، بلوچستان اور بلوچ قوم کے خواتین کے سر سے چادر کھینچ کر سرے بازار روڈوں پر گھسیٹے ہوئے تھانے میں بند کرنے کا حکم دینے والے بلا کسے بلوچستان اور بلوچ قوم کے نمائدے ہوسکتے ہیں۔ یقینا میر چاکر رند اور عبدالخالق لانگو کی روحیں یہ منظر دیکھ کر تڑپ رہے ہوں گے کہ کسے ان کی نسلوں نے بلوچ روایات کا قتل کرنے میں پیش پیش رہے

اپنا تبصرہ بھیجیں