آن لائن کلاسز اور پسماندہ بلوچستان

تحریر: محمد حنیف بلوچ
ملکی بین الاقوامی سیاسی صورتحال اپنے نقطے عروج پر ہے کب کیا کچھ ہوگا کسی کو اندازہ نہیں ہے کیونکہ سیاست کے بارے میں پیشن گوئیاں درست ثابت نہیں ہوتی ہیں بس اندازے لگائے جاتے قیاس کیا جاتا ہے ممکنات پر بحث کرکے اپنی تشفی کی جاتی ہے اس طرح سلسلہ رواں دواں رہتا ہے نومبر میں امریکہ جو اس وقت تمام دنیا کی توجہ کا مرکز ہے کے انتخابات ہونے جارہے ہیں کورنا کہاں پہنچتا ہے کہاں دم لیتا ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے مگر انتخابات ہونے ہیں ہو جائینگے امریکہ پاکستان تھوڑی ہے کسی معاملے کو جواز فراہم کرکے انتخابات ملتوی کیے جائیں وہاں حالات پر انحصار نہیں کیا جاتا آئین و قانون کو اولیت دی جاتی ہے انتخابی گہما گہمی تقریبا شروع ہوچکا ہے اپنے اپنے انتخابی منشور عہد پیماں کے ڈونگرے ڈالے جارہے ہیں امریکی انتخابات میں نالی نلکے سڑک پیٹرول گیس بجلی بحران کو موضوع بحث نہیں بنایا جاتا البتہ روزگار کی فراہمی اپنے ملک کے دفاع و تحفظ خارجی داخلی پالیسی خصوصا دوسرے ممالک کے ساتھ خارجی تعلقات کیسے ہونگے بہت اہمیت کے عامل ہیں صدر ٹرمپ اور جو بائڈن مد مقابل ہیں بین الاقوامی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ فارغ العقل فہم و ادراک دور اندیشی سے خالی ہیں اگر دوسری مرتبہ انتخابات میں کامیاب ہوگئے تو امریکہ کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا چائینہ کی ابھرتی ہوئی معشیت وتجارت بھی امریکہ کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے مگر چائینہ اور انڈیا کی لداخ میں سرحدی تنازع بہت شدت اختیار کرتا جارہا ہے نوبت خون خرابے تک جا پہنچی ہے سینکڑوں انڈین فوجی دست بہ دست لڑائی میں مارے جا چکے ہیں یہ سرد جنگ کیا رخ اختیار کرے گا کچھ کہنا قبل از وقت ہے اگر صورت حال اسی طرح جاری رہی تو بہت بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے ممالک اس جنگ میں کھود سکتے ہیں چائینہ کی معاشی ترقی اس وقت کے سپر پاور امریکہ کو ایک آنکھ بھی بھاتا ہے انھیں خطرہ ہے کہ یہ اعزاز مسقبل قریب میں چائینہ کے پاس ہی جا سکتا ہے کورونا وائرس کو لے کر امریکہ نے چائینہ کے خلاف شدید ناراضگی لفظی جنگ کا آغاز کیا تھا بلکہ اس وائرس کو چائینہ وائرس کا تک نام دیا تھا کیونکہ اس وائرس کی ابتدا چائینہ سے ہوئی تھی امریکہ کا الزام ہے کہ اس وائرس کے پھیلا کو روکنے کے لیے چائینہ نے زمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا تھا اور آنا فانا یہ وائرس امریکہ سمیت پوری دنیا میں پھیل گئی اس وقت اموات اور متاثرین کی تعداد امریکہ میں سب سے زیادہ ہے دوسری طرف روس میں ریفرنڈم کا چرچا ہے ولادیں میر پوتین تا حیات روس کا صدر بننے کے لیے ملک میں ریفرنڈم کروا رہے اسی طرح مملکت خدا داد کی سیاسی صورتحال میں زبردست ڈرامائی تبدیلوں کی زد میں ہے معاشی ابتری اور کورنا وائرس نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں خان صاحب کی قریب دو سال کی بیڈ گورننس کرپش لوٹ مار اور سرگرم مافیا نے انھیں بالکل بیبس کردیا ہے کسی چیز پر کنٹرول نہیں ہے آٹا چینی پیٹرولیم کی بحران پی آئی اے میں جعلی ڈگریوں کی بازگشت اسٹیل ملز پی آئی اے ریلوے جیسے منافع بخش اداروں کے خسارے اور حکومت کی رٹ سب اچھا ہے کا ہانڈی بیچ چوراہے میں پوڑ دیا ہے حقیقتا ملک اس وقت شدید سیاسی و معاشی بحران کے شکنجے میں پھنس چکا ہے کسی بھی شعبے میں اچھی کارکردگی دکھانے میں مکمل ناکام دکھائی دے رہی ہے حال ہی میں وفاق و صوبائی بجٹوں میں آئی ایم ایف کے شرائط کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں عدم اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کی معاشی پالیسی بھی داخلی و خارجی پالیسیوں کی طرح آزاد نہیں ہے چوں کہ سال میں ایک دفعہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کا رواج مملکت خدا داد کے قیام سے آج تک رائج ہے شاہد کی تاریخ میں کھبی ایسی نوبت آئی ہو کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھائی گئی ہوں مگر اس دفعہ برائے راست ائی ایم ایف کی فرمودات پر عمل درآمد کیا گیا اس سال ملک میں مہنگائی 24

فیصد اضافہ ریکارڈ کی گئی ہے بلکہ آئے روز ایشیا ضروریات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں گزشتہ مہینے پیٹرولیم کی قیمتیں کم کی گئی تو ذخیرہ اندوزوں اور مافیا نے پیٹرول اور ڈیزل کو پیٹرول پمپوں سے غائب کردیا پیٹرولیم مصنوعات کے لیے عوام کو شدید دقت کا سامنا رہا بے بس حکومت نے مافیا کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے یکم جولائی کا انتظار کئے بغیر 25 روپے فی لیٹر تک کا اضافہ کردیا جس کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکل گئیں عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان کی عمرانی حکومت نے تیل کی قیمتیں کیوں بڑھائی ہیں جب تیل کی قیمتیں کم ہوئی تو تیل کا بحران پیدا کیا گیا 25 فیصد تیل مارکیٹ میں دینے کے بعد 75 فیصد تیل ذخیرہ کرنے سے جو بحران پیدا ہوا اس سے حکومت وقت کی اچھی خاصی رسوائی ہوئی در اصل تیل کی امپورٹ کا ٹھیکہ پی ایس او سے لے کر عمران خان کے دوست ندیم بابر کے کمپنی ہیسکول کو دینے سے مافیا نے انصافی حکومت کو آئینہ دکھا دیا منافع خوروں نے اربوں کھربوں روپے کمائے اور عوام ایک قطرہ کے لئے رولتے رہے جسے حکومت کی نااہلی ناکامی بیڈ گورننس سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے بہرحال وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں ہر جگہ ایک جیسی صورت حال ہے بلوچستان کی صوبائی حکومت بلوچستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومتوں میں سے ایک ہے پی ٹی آئی کی طرح باپ پارٹی بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہے درجنوں ایم پی اے وزیر اعلی جام کمال سے نالاں ہیں مگر طاقتور قوتوں کی خوف کی وجہ سے خاموش ہیں کھبی کھبار ہلکی پھلکی موسیقی سننے کو ملتا ہے دوڑ دھوپ ہوتی ہے حکومتی اتحادی باپ کے ایم پی اے اور اپوزیشن جماعتوں کی خواہش ہے کہ موجودہ سرکار عوام کی امنگوں کا آئینہ دار نہیں ہے اس کی تبدیلی ناگزیر ہے دوسری جانب اپوزیشن بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی ہے کیونکہ بہ یک وقت وزیر اعلی کے کئی امیدوار ہیں اپوزیشن جماعتوں بی این پی مینگل اور جمعیت علمائے اسلام دونوں کی خواہش ہے وزیر اعلی ان کی جماعت سے ہو عددی اعتبار سے اپوزیشن اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہے اگر باپ میں ٹوٹ پھوٹ ہوگئی جس طرح نواب ثنااللہ زہری کے دوران وزرات اعلی میں مسلم لیگ ن کے اراکین کی نواب ثنااللہ پر عدم اعتماد کے وقت ہوا تھا لیکن یہ بات زہن میں رہنی چاہیے کہ مسلم لیگ ن کی ٹوٹ پھوٹ نواب ثنااللہ کی حکومت کے خاتمے کے لئے مقتدر قوتوں نے جان کی بازی لگائی تھی فی الحال مقتدرہ کی جام کمال خان پر نظر کرم ہے اور حقیقتا بھی بلوچستان میں اقتدار مقتدر حلقوں کے ہی پاس ہے جام صاحب برائے نام وزیر اعلی ہیں گزشتہ دنوں میں آئیر ایجوکیشن کمیشن آن لائن کلاسز کے ایشوز پر بلوچ طلبا و طالبات کی پر امن مظاہرے اور گرفتاری نے جام کمال خان کی حکومت کی حقیقت سب پر عیاں کردی ایک طرف وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں پتہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے میں نے کسی کو گرفتاری کا حکم نہیں دیا دوسری طرف ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے کہا کہ صوبے میں کورونا وائرس کی پھیلا روکنے کیلئے دفعہ 144 نافظ ہے دو تین سے زیادہ افراد کی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ان طلبا وطالبات کی گرفتار کر کے جیل میں اس لئے ڈالا تاکہ انھیں کورونا وائرس سے بچایا جا سکے نہ کوئی دلیل نہ کوئی منطق بس بے سروپا باتیں آئیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے خصوصا بلوچستان میں ورچوئل کلاسز کا آغاز کرنے سے پہلے زمینی حقائق کا جائزہ لیتے کہ ورچوئل کلاسز بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کیلئے ممکن ہیں جہاں پینے کیلئے پانی نہیں بجلی گیس تھری جی فور جی ٹیکنالوجی و انٹرنیٹ سروس تو بالکل محال ہے پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ کاوجود ہے اور نہ ہی بجلی، بلا بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے یہ جدید ٹیکنالوجی کیونکر ممکن ہے کیا ہر طالب علم کے پاس لیپ ٹاپ انڈرائیڈ سیل فون ہے کیا غریب طالب علم لیپ ٹاپ اور انڈرائیڈ سیل فون خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے کیسے فارغ العقل لوگ ہیں پاکستان میں رہتے ہوئے امریکہ اور یورپ طور طریقے اپناتے ہیں اس وقت بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں بجلی ہی نہیں ہے اور نہ انٹرنیٹ کی سہولیات موجود ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ بلوچ طلبہ وطالبات کو حق مانگنے اور حقائق تشت ازبام کرنے کی پاداش میں سڑکوں پر گھسیٹا گیا خصوصا طالبات کو ایک ایس ایچ او کے حکم سے سڑکوں پر گھسیٹنا بلوچ قومی روایات مذہبی اقدار بلکہ بلوچستان کی روایت کو پاں تلے روندنا انتہائی شرمناک ہے انھیں شرپسند کہا گیا ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک رواں رکھا گیا دھکے دئیے گئے سر سے دوپٹے اتارے گئے گھسیٹے گھسٹتے پولیس گاڑیوں میں ڈالتے گئے اس طرح کا سلوک تو مجرموں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا ہے ایک وزیر موصوف اسمبلی کے فلور پر ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بول رہا تھا کہ ان طلبا وطالبات کو اس لئے گرفتار کیا گیا کہ یہ بلوچستان اسمبلی پر حملہ آوار ہونے کیلئے آرہے تھے کتنے کم ظرف لوگ ہیں سفید جھوٹ بول کر بھی شرمندہ نہیں ہوتے ہیں بلوچستان اسمبلی ہو یا قومی اسمبلی جہاں بھی عوامی نمائندے ہوتے ہیں عوام طلبا و طالبات اپنے مسائل عوامی نمائندوں کے پاس نہیں لے جاتے ہیں تاکہ عوامی نمائندے ان کی آواز بنیں ان کے مسائل کے حل کے لیے پالیسی واضح کریں قومی اسمبلی میں اس وقت ان طلبا و طالبات کی آواز لسبیلہ گوادر سے منتخب ممبر قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی آغا حسن بلوچ سینٹ میں میر کبیر محمد شہی نے اٹھایا جب ان طالبات کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا تشدد کا نشانہ بنایا گیا پولیس موبائل میں دھکیل کر تھانہ لے جایا گیا اب حق کے لئے آواز اٹھانا بھی جرم ٹھہر گیا ہے یہ بندوق بردار مسلحہ جتھے نہیں تھے ان کے ھاتوں میں کلاشنکوف نہیں تھا کتابیں تھی قلم تھے اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے جب ایک چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو اس سے کیسے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے بلوچستان میں موبائل نیٹ ورک کی یہ صورت حال ہے بات تک نہیں ہو سکتی ہے لوگ اپنے پیاروں کی حال پرسی کے لئے کسی اونچائی پر چڑتے ہیں کسی ٹیلے یا پہاڑی کی چوٹی پر تاکہ اتنا سنگل ہو کہ بات ہو سکے آج اکیسویں صدی ہے لیکن عام عوام سمیت طالب علم بھی اپنی علم کی پیاس بجھانے کے لئے احتجاج کا راستہ اپناتے ہیں بلوچستان کے وزیر اعلی اور وزرا کا تعلق عوام سے نہیں ہے بلکہ اشرافیہ سے ہے سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والوں کو کیا پتہ جھونپڑی گدانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کے ماں باپ کو اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھانے کیلئے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے بھیڑ بکریاں پال کر چھٹائی بن کر سلائی کڑھائی کرکے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے حال کو بچوں کے مستقبل پر قربان کرنے والوں کرنے والوں کے اولادوں کو کس طرح ذلت آمیز سلوک کا سامنا ہوتا ہے ان کے ماں باپ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی مگر حکمران اپنے اقتدار کے نشے میں مست ہیں تو پھر ان طلبا وطالبات کی آواز کون بنے گا ان بے ضمیر سلیکٹڈ وزیروں کو کون سمجھائے کہ عوامی نمائندے ہی عوامی مسائل کے حل ذمہ دار ہیں انھیں اس لئے منتخب کیا جاتا ہے کہ تعلیم صحت امن امان سمیت ترقی و خوشحالی کے لیے اقدامات اٹھائیں فرعونیت کا مظاہرہ نہ کریں یہ کرسی دائمی نہیں ہے لیکن افسوس شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار وزیر اعلی وزیر ایم پی اے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں انھیں عوام اور عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے اپنے آقاں کو خوش کرنے کے لیے اس تک جا سکتے ہیں یہ کھبی سوچا نہیں تھا طالب علموں پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ ان کی تذلیل و توہین کرکے اپنی بادشاہت تا دیر قائم نہیں رکھ سکتے اس طرح کے حربوں سے حکومت کی نہ صرف سبکی ہوتی ہے بلکہ حکومت کی زوال کا سبب بنتے ہیں صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت اس وقت کارکردگی کے لحاظ سے زوال کی طرف جارہے ہیں تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے اب محفوظ راستے کی تلاش میں ہیں کسی بھی وقت پتلی گلی سے بھاگ جائیں گے عاقل و دانہ مشیروں نے حکومت کو بند گلی میں دھکیلا دیا ہے اور یہ مشیر سب سے پہلے رخت سفر باندھنے تیاری میں لگے ہوئے ہیں کیوں اب سلیکٹرز بھی بہت تنگ آگئے ہیں ہم نے کس مصیبت کو اپنے سر لیا ہے ان لائن کلاسز اور پسماندہ بلوچستان اشرافیہ کی حکمرانی کیا رنگ لائے گی اس کے تھوڑا سا انتظار کریں کچھ دنوں یا مہینوں میں بہت بڑی تبدیلی بلکہ حقیقی تبدیلی آنے والی ہے کیونکہ کایا پلٹنے میں دیر نہیں لگتی ہے آنے والے دنوں میں مقتدرہ اپنا کارڈ شو کریں گے زہن سازی مکمل ہو چکی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں