مزاحمت ہی زندگی ہے
صابر بلوچ
انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کرتا ہے اپنے اوپر ہونے والی ظالم کے خلاف مزاحمت پر اُترتا ہے اور ظالم کو یہ باور کراتا ہے کہ تم چائیں جتنا ظلم و بربریت کرو لیکن میں تمہارے خلاف اپنی آخری سانس تک مزاحمت جاری رکھوں گا۔
کچھ ایسے ہی مناظر ہمیں کوئٹہ شہر میں نظر آتا ہے کہ وہاں روڈوں پر بلوچ طلباء اپنی حق کے لئے ظلم و ناانصافی کے باوجود اپنے تعلیمی حقوق کیلئے آواز بلند کررہے ہیں اس مزاحمت کے خوف سے مبتلا کوئٹہ پولیس ان بلوچ طلبہ پر اپنی ظلم و جبر کا بازار گرم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
بلوچستان ایک ایسی سرزمین ہے کہ وہ قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے لیکن بدقسمتی سے وہاں کا رہنے والا مظلوم اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں کوئی ایسا ہیلتھ سسٹم موجود نہیں ہے کہ وہاں کا عوام کسی چھوٹے بیماری کا اعلاج کریں۔ ایک ایسا ہی واقعہ کیچ میں پیش آیا جہاں ایک چھوٹا سا معصوم بچہ شھداد بلوچ جو ایک چھوٹی سے بیماری کا شکار ہو کر اپنی جان کی بازی ہار گیا اگر ہم کہیں زندگی اور موت رب کے ہاتھ میں ہے تو یہ سچ بات ہے لیکن دوسری طرف ہم دیکھے ہیں کہ بلوچستان کے ہر علاقے میں ہیلتھ سسٹم بدحال ہے تو اس طرح کے واقعات کا رجحان ختم نہیں ہو سکتا۔ ہیلتھ کے بعد بلوچ نوجوانوں کا ایک اہم مسئلہ تعلیم جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے بلوچ نوجوانوں سے چھینا جارہا ہے تعلیم حاصل کرنا ہر انسان ہر قوم کا بنیادی حق ہے کسی بھی ریاست میں تعلیم حاصل کرنا شہری کا بنیادی حق ہوتا ہے لیکن بلوچستان کے نوجوانوں سے ریاست وہ حق بھی چھین رہا ہے۔
اگر بات کریں تو اس وقت پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ کا سنگین مسئلہ موجود ہے بلکہ بلوچستان میں انٹرنیٹ نہ ہونے کے برابر ہے ایسے حالات میں بلوچ طلباء کیلئے آن لائن کلاسز کا لینا ناممکن ہے۔
یہی طلبہ گزشتہ کئی مہینوں سے اپنے مطالبات کے لئے روڈوں پر احتجاج کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں کبھی بولان میڈیکل کالج کی نجکاری اور فیسوں کی بے تحاشہ اضافے کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں تو کبھی بلوچستان یونیورسٹی ویڈیوز اسکینڈل کے خلاف سڑکوں پر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ بلوچ نوجوان تعلیم سے دور ہوں اور تعلیم صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بچے حاصل کرسکیں۔
حالیہ کورونا وائرس جس سے پاکستان سمیت پوری دنیا اس کا شکار ہے جس سے ملکی تجارت تعلیم تک سب متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا کی طرح پاکستان نے بھی تعلیمی اداروں میں آن لائن کلاسز کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن اس اعلان سے وہ طلبہ سخت زہنی دباؤ کا شکار ہیں،جن کے پاس آن لائن کلاسز لینے کے سہولیات موجود نہیں ہیں وہ کیسے اپنی تعلیم جاری رکھ پائیں گے، کس طرح آن لائن کلاسز لے سکیں گے جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہ ہوں ۔ایچ ای سی کے اس فرسودہ فیصلے کے خلاف مختلف بلوچ طلباء تنظیموں نے ایک جمہوری و آئین کے ماتحت پرامن ریلی و احتجاج ریکارڈ کرائے، خضدار کراچی کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں اپنی احتجاجیں ریکارڈ کرائیں ۔ بلوچ طلباء کے ان احتجاج کے باوجود ایچ ای سی اپنے فیصلے سے ٹس سے مس نظر نہیں ہوتی اور جبکہ طلباء کے پرامن احتجاج پر پولیس نے دھاوا بول کر طلباء کو زد و کوب کرتے ہوئے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بناکر انہیں جیل منتقل کر دیا، جیل منتقل کرنے والے طلباء میں خواتین طلباء بھی موجود تھیں، جن کے ساتھ بدسلوکی کی مناظر سب نے دیکھ لیے تھے۔
کیا اس ملک میں بلوچ کو پڑھنے کا کوئی حق حاصل نہیں، کیا بلوچ کو اس ریاست میں رہتے ہوئے اپنی بنیادی حقوق مانگنے کا کوئی حق حاصل نہیں ،کیا پاکستان میں بلوچوں کی قسمت زندان اور جیل کی سلاخیں ہیں۔ اگر ہم اس پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کچھ قوتیں بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور کرنے کے لئے مختلف منصوبے بنا چکی ہے، جن میں سرفہرست یہ ہے کہ بلوچ تعلیم حاصل نہ کریں۔
شاید دنیا کے کسی بھی تاریخ میں طالب علموں پر ایسا ظلم نہیں ہوا ہوگا جس طرح کوئٹہ میں بلوچ طالب علموں کے ساتھ ہوا تھا۔ اسی بلوچ طلبہ کے حقوق کی آواز کو بلند کرنی والی نڈر لیڈر ماہ رنگ بلوچ اور ان کی ساتھیوں کو سلام جو ہر وقت کوئٹہ کے سڑکوں پر پولیس کی لاٹھی اور تھپڑوں کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے لیکن اپنے مقصد سے ایک اینچ پہچے نہیں ہٹتی۔
اب تمام بلوچ طالب علموں کو اپنے حقوق کی خاطر اپنی آواز کو بلند کرنا ہوگا اور ماہ رنگ بلوچ اور اس کی ساتھیوں صبیحہ بلوچ اور دیگر کی اس کارواں کے ساتھ چلنا ہوگا کیونکہ مزاحمت ہی زندگی ہے