برصغیر میں ترقی پسند ادبی تحریک کا انقلابی کردار (قسط نمبر 1)

تحریر گہرام گچکی ایڈووکیٹ

برصغیر کی تحریک آزادی نے بہت سے انقلابی اور ادبی کردار جنم دیئے جن میں بھگت سنگھ اور انکے ساتھیوں کی جدوجھد نمایاں ہے اور یہ کردار کبھی بھی فراموش نہیں کئے جاسکتے۔ جنہوں نے اس تحریک کی آبیاری کے لیے انتھک جدوجھد کی اور انگریزی سامراج کو شکست سے دو چار کیا وہیں ایک ادبی تحریک نے بھی سرکشی کے لیے جنم لیا اور اس تحریک کا باقاعدگی سے احیاء ہوا۔ اس تحریک کا آغاز افسانوی مجموعہ انگارے سے ہوا جس نے نوجوانوں، کسانوں میں برصغیر کی تحریک آزادی کی ایک لہر پیدا کردی۔ یہ 1932 میں باقاعدہ شائع ہوا اور افسانوی مجموعہ تھا جس میں لکھاریوں کے نام سید سجاد ظہیر، محمد الظفر، ڈاکٹر رشید جہاں اور احمد علی کے افسانے شامل تھے۔ جس کی اشاعت کے بعد انگریزی سامراج نے خوفزدہ ہو کر اس پر پابندی عائد کردی لیکن اس جدوجھد کو نہ روک سکے نا دباسکے اور یہ سفر جاری رہا۔ سید سجاد ظہیر اور ملک راج آنند اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن گئے۔ اور جولائی 1935 میں دنیا کے روشن خیال ادیبوں نے پیرس میں ایک عالمی کانفرنس بلائی جس میں ساری دنیا کے ادیب ایک تحریک کی شکل میں متحد ہوگئے تھے۔ جس میں انہوں نے باقاعدہ فیصلہ کیا کہ ہمیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ آزادی خیال وفکر کے تحفظ کی کوشش کرنی چاہیے اور یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے ادیب اپنے حقوق کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ یوں دنیا بھر کے ترقی پسند ادیبوں کا ایک بین الاقوامی مرکز پیرس میں قائم ہوا ۔ اس موقع پر سارے ادیبوں کے نام ایک اپیل شائع کی گئی۔

"اے رفیقان قلم! موت کے خلاف زندگی کی ہمنوائی کیجیے ہمارا قلم ہمارا فن,ہمارا علم ان طاقتوں کے خلاف رکنے نہ پائے جو موت کو دعوت دیتی ہے ۔ جو انسانیت کا گلہ گھونٹتی ہیں ، جو روپے کے بل پر حکومت کرتی ہےجو کارخانہ داروں اور زبردستی آمریت قائم کرتی ہیں بالاآخر فاشزم کے مختلف روپ دھار کر سامنے آتی ہیں اور یہی وہ طاقتیں ہیں جو معصوم انسانوں کا خون چوستی ہیں”
اس کانفرنس میں برصغیر سے سید سجاد ظہیر اور ملک راج آنند شریک ہوئے اور لندن سے واپس آکر 1935 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی گی جس کے بانیوں میں سید سجاد ظہیر، ملک راج آنند، ڈاکٹر جیوتی گھوش، ڈاکٹر کے ایس بھٹ , بینر مکھرجی، ڈاکٹر ایس سینس اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کے نام شامل ہیں۔
1935 کے آخر میں سید سجاد ظہیر اور ملک راج آنند ہندوستان (آلہ آباد) واپس آگئے اور لندن میں تیار کے گئے منشور پر دسمبر 1935 میں مولوی عبد الحق، جوش ملیح آبادی، پریم چند، دیا نرائن نگم ، فراق گورکھپوری، اعجاز حسین، وقار عظیم اور احتشام حسین سے دستخط کروانے کے بعد سب سے پہلے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی۔ سید سجاد ظہیر نے پنجاب اور دیگر علاقوں کے دورے کئے اور فیض، میاں افتخار الدین، صوفی تبسم ، فیروز الدین منصور، محمد الظفر، رشید جہاں اور رابندرناتھ ٹیگور سے ملاقاتیں کیں اور منشور پر دستخط لیے۔ اور اس منشور کے چند نقاط قارئین کے پیشِ نظر ہیں۔
1- ہندوستان کے مختلف لسانی صوبوں میں ادیبوں کی انجمنیں قائم کرنا۔ ان انجمنوں کے درمیان اجتماعوں اور پمفلٹوں وغیرہ کے ذریعے ربط و تعاون پیدا کرنا، صوبوں کی مرکز اور لندن کی انجمنوں کے درمیان قریبی تعلق پیدا کرنا۔
2-ان ادبی جماعتوں سے میل جول پیدا کرنا جو اس انجمن کے خلاف نہ ہوں
3-ترقی پسند ادب کی تخلیق اور ترجمہ کرنا جو صحت مند اور توانا ہو۔ جس سے ہم تہذیبی پسماندگی کو مٹا سکیں اور ہندوستانی آزادی اور سماجی ترقی کی طرف بڑھ سکیں۔
4- ہندوستانی کو قومی زبان اور انڈو رومن رسم الخط کو قومی رسم الخط تسلیم کرنے کا پرچار کرنا۔
5- فکر و نظر اور اظہار خیال کی آزادی کے لیے جدوجھد کرنا۔
6- ادیبوں کے مفاد کی حفاظت کرنا، عوامی ادیبوں کی مدد کرنا جو اپنی کتابیں طبع کرانے کے لیے امداد چاہتے ہوں۔
10 اپریل 1936 میں پہلی آل انڈیا کانفرنس لکھنؤ کے رفاہ عامہ ہال میں منعقد ہوئی جس کی صدارت منشی پریم چند نے کی اور تاریخ ساز خطبہ صدارت پیش کیا۔ اور سجاد ظہیر کو انجمن ترقی پسند مصنفین کا پہلا سکریٹری جنرل منتخب کیا گا۔
اپریل 1936 میں جو پہلا اعلان نامہ منظور ہوا اس کے کچھ نقاط قارئین کے لیے خاطر ہیں۔

"یہاں ہمارے ملک میں بڑی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ پستی اور رجعت پسندی کو اگر موت کا پروانہ مل چکا ہے۔ لیکن وہ ابھی تک بے بس اور معدوم نہیں ہوئی ہے۔ نت نئے روپ بدل کر یہ مہلک زہر ہمارے ہر شعبے میں سرایت کرتا جارہا ہے۔ اس لیے ہندوستانی مصنفین کا فرض ہے کہ جو نئے ترقی پسند رجحانات ابھر رہے ہیں ان کی ترجمانی کریں اور اس کی نشوونما میں پورا حصہ لیں ۔ ہماری انجمن کا مقصد یہ ہے کہ ادبیات اور فنون لطیفہ کو قدامت پرستوں کی مہلک گرفت سے نجات دلائیں۔ اور ان کو عوام کے سک اور جدوجھد کا ترجمان بنا کر اس روشن مستقبل کی راہ دکھائیں جس کے لیے انسانیت اس دور میں کوشاں ہیں ۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے ادبی رجحانات کو نشوونما سے روکیں جو فرقہ پرستی۔ نسلی امتیاز اور انسانی استحصال کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم ان تمام باتوں کو جو ہماری قوت تنقید کو ابھارتی ہیں اور رسموں اور ارادوں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں، تغیر اور ترقی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرتی ہیں۔ انجمن کے مقاصد یہ ہوں گے۔”
1- تمام ہندوستان کے ترقی پسند مصنفین کی امداد سے مشاورتی جلسے منعقد کرکے لٹریچر شائع کرکے اپنے مقاصد کی تبلیغ کرنا
2- ترقی پسند مصنفین لکھنے اور ترجمہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا۔
3- ترقی پسند مصنفین کی مدد کرنا۔
4- آزادی رائے اور آزادی خیال کی حفاظت کرنا۔
دسمبر 1938 میں انجمن کی دوسری آل انڈیا کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی جس کا افتتاح رابندرناتھ ٹیگور نے کرنا تھا ۔ مگر علالت کی وجہ سے آ نہ سکے مگر انکا افتتاحی خطبہ پڑھ کر سنایا گیا اس کانفرنس میں ڈاکٹر علیم خان کو سکریٹری جنرل منتخب کیا گیا۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کی آلہ آباد کانفرنس کے لیے رابندرناتھ ٹیگور کے پیغام کا آخری حصہ جو پیش نظر ہے اور آج بھی برصغیر (ہندوستان، پاکستان) کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے مطابقت رکھتا ہے۔
” آج ہمارا ملک ایک لق و دق صحرا ہے جس میں شادابی اور زندگی کا نام ونشان نہیں ہے ۔ ملک کا ذرہ ذرہ دکھ کی تصویر بنا ہوا ہے ۔ ہمیں اس غم و اندو کو مٹانا ہے اور ازسرنو زندگی کے چمن میں آبیاری کرنا ہے ۔ ادیب کا فرض یہ ہونا چاہیۓ کہ ملک میں نئ زندگی کی روح پھونکے، بیداری اور جوش کے گیت گائے اور ہر انسان کو امید اور مسرت کا پیغام سنائے اور کسی کو نا امید اور ناکارہ نہ ہونے دے ۔ اور ملک و قوم کی بہی خواہی کو ذاتی اغراض پر ترجیح دینے کا جذبہ ہر بڑے چھوٹے میں پیدا کرنا ادیب کا فرض عین ہونا چاہیے۔ قوم ، سماج اور ادب کی بہبود کی سوگند جب تک ہر انسان نہ کھائے گا اس وقت تک دنیا کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔ اگر تم یہ کرنے کے لیے تیار ہو تو تمہیں پہلے اپنی متاعِ کھلے ہاتھوں لٹانی ہوگی اور پھر کہیں تم اس قابل ہوگے کہ دنیا کے کسی معاوضے کی تمنا کرو لیکن اپنے کو مٹانے میں جو لطف ہے اس سے تم محروم نہ رہ جاؤ ۔
یاد رکھو تخلیق ادب بڑے بڑے جوکھوں کا کام ہے حق اور جمال کی تلاش کرنا ہے تو پہلے آنا کی کینچلی اتارو، کلی کی طرح سخت ڈنٹھل سے باہر نکلنے کے منزل طے کرو ۔ پھر دیکھو کہ ہوا کتنی صاف ہے ۔ روشنی کتنی سہانی ہے اور پانی لطیف ہے۔”
اپریل 1942 میں تیسری کل ہند کانفرنس کا انعقاد دہلی میں کیا گیا 1942 کے آخر میں انجمن کی چوتھی کانفرنس بمبی میں منعقد ہوئی جس میں سید سجاد ظہیر کو دوبارہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا سکریٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ اس کانفرنس کی مجلس صدارت میں جوش (اردو) راہل سانکرتین( ہندی), ستین مزمدار ( بنگالی), اے ایس ڈانگے (مرہٹی) ،سچیائیا( ٹیلیگوں) نیز گجراتی اور لنڈی کے دو ادیب بھی شامل تھے۔
1939 میں لکھنؤ ہی سے انجمن ترقی پسند مصنفین کے ترجمان رسالے سہ ماہی نیا ادب کا اجراء ہوا۔ جس کے بانیوں میں سید سبط حسن، علی سردار جعفری اور اسرار الحق مجاز شامل تھے اور یہ رسالہ پورے ہندوستان میں ارسال کیا جاتا تھا۔ اس کے پہلے نو شمارے لکھنؤ سے جاری ہوئے۔ کیونکہ اس وقت لکھنؤ انجمن کا مرکز تھا۔ جب انجمن کا مرکز لکھنؤ سے ممبئی منتقل ہوا تو وہیں پر” نیا ادب” کا دفتر بھی منتقل ہوگیا ۔ اور اس کی اشاعت کا سلسلہ بھی وہیں سے جاری ہوا ۔ مجلس ادارت میں سید علی جعفری کے ساتھ کیفی اعظمی، کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس شامل ہوئے تقسیم تک ممبئی سے 16 شمارے نکالے گئے یو لگ بھگ 25 شمارے نیا ادب شہود پر آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں