ٹیکنیکل ناک آﺅٹ

تحریر: انور ساجدی
اسے کہتے ہیں ”ٹیکنیکل ناک آﺅٹ“۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان الیکشن کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔پارٹی والے شکر کریں کہ ان کے لیڈر کا ڈومیسائل مضبوط تھا ورنہ ان کا حشر بھی بھٹو جیسا ہوتا۔بھٹو کا کیس ٹرائل کورٹ یا سیشن عدالت کے بجائے براہ راست لاہور ہائیکورٹ نے سنا اور سزائے موت سنائی۔غالباً یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور آخری مقدمہ تھا جو براہ راست ہائی کورٹ میں چلا گیا۔مشرف کے دور میں خصوصی عدالت نے استغاثہ کی جانب سے سزائے موت کا مطالبہ مسترد کر کے نوازشریف کو عمرقید اور جرمانے کی سزا سنائی حالانکہ جنرل پرویز مشرف چاہتے تھے کہ بھٹو کی طرح نوازشریف کو بھی نشان عبرت بنایا جائے۔اسی طرح پانامہ کیس میں بھی ڈومیسائل کام آیا اورنوازشریف کو محض قید اور جرمانے کی قید سنائی گئی۔
اب جبکہ8فروری کو انتخابات ہونا طے ہیں تو ایک نمایاں فریق کو آﺅٹ کر کے جو نتیجہ حاصل کیا جائے گا اسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جھرلو ہی کہا جائے گا۔اگرچہ تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان بلے سے محروم کرنا کوئی اچھی بات نہیں لیکن اسے دوسرے نشان حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔یہی لیول پلینگ اور انصاف کی نفی ہے۔عمران خان کو سزا کے بعد پی ٹی آئی بے والی ،بے وارث اور دوسرے لفظوں میں یتیم ہو گئی ہے۔انتخابات میں حصہ لینے والے اس کے امیدوار کامیابی کے بعد رولز کے مطابق اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ تین دن تک کسی پارٹی میں شامل ہو جائیں یا آزاد بینچوں میں بیٹھنے کی درخواست دیں۔اس طرح پارلیمنٹ کی ابتداءمیں ہی بحیثیت پارٹی تحریک انصاف کو زور دار دھچکا لگے گا۔سیاسی شکاری اور خونخوار گدھ تیار بیٹھے ہیں کہ کسی طرح پی ٹی آئی کے اراکین کو دبوچ لیں۔ دونوں نام نہاد بڑی جماعتیں بانہیں کھولے کھڑی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اراکین کو اپنی صفوں میں شامل کر کے حکومت سازی اپنے حق میں لے آئیں۔ظاہر ہے کہ نئی صورت حال کے بعد عمران خان کے تتر بتر لشکری ادھر ادھر جائیں گے۔ن لیگ کو یقین محکم ہے کہ جب یہ اراکین دیکھیں گے کہ اقتدار کی ہما اس کے سر بیٹھنے والی ہے تو یہ پرندے زیادہ تر اس کا رخ کریں گے جبکہ آصف علی زرداری نے وقت سے پہلے انہیں پیپلزپارٹی میں آنے کی دعوت دی ہے۔کچھ لوگ ضرور اپنے پرانے ساتھی جہانگیر ترین کی جماعت میں جائیں گے۔آثار نظر آ رہے ہیں کہ 8 فروری کے بعد گدھوں اور گھوڑوں کی بڑی منڈی لگے گی اور بڑے پیمانے پر سیاسی جانوروں کی خریداری ہوگی۔زرداری اس لئے زیادہ فکرمند ہیں کہ ان کی جماعت ن لیگ کے مقابلے میں کم نشستیں حاصل کرے گی اس لئے اس کا دارومدار ان جانوروں کی خریداری پر ہوگا اس سلسلے میں زرداری کو زیادہ دلیری سے کام کرنا ہوگا کیونکہ گھوڑوں یا گدھوں کی خریداری کے لئے اربوں روپے کی ضرورت پڑے گی۔انہوں نے خریداری کی بساط ابھی سے بچھا رکھی ہے اور مختلف اہم شخصیات کی ذمہ داری لگا دی گئی ہے کہ وہ گھوڑے ان کے باڑے میں لے آئیں۔اس کے برعکس ن لیگ پیسہ خرچ کرنے میں ہمیشہ کنجوسی سے کام لیتی ہے اگر آزاد اراکین اس کی طرف گئے تو وہ وزارتوں کی خاطر جائیں گے ورنہ پیسے کے حساب سے انہیں ٹکا بھی نہیں ملے گا۔صاف نظر آ رہا ہے کہ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنی وہ چوں چوں کا مربہ ہوگی اور زیادہ عرصہ نہیں چلے گی کیونکہ کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔حکومت بنانے کے لئے دیگر جماعتوں کی منت ترلے کرنا پڑیں گے جس کے نتیجے میں ایک کمزور حکومت قائم ہوگی جو ہمیشہ بلیک میلنگ اور دباﺅ کا شکار رہے گی۔پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زداری نے عاصمہ شیرازی کو دئیے گئے انٹرویو میں بے شمار متضاد باتیں کیں۔ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ ہم ن لیگ کے ساتھ نہیں چلیں گے ساتھ ہی یہ کہا کہ الیکشن کے بعد دیکھیں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ زرداری نے اپنے انٹرویو میں ڈبل گیم کھیلی ہے۔اگر ن لیگ کو اکثریت حاصل نہ ہوئی تو وہ حکومت سازی کے لئے پیپلز پارٹی کا تعاون چاہے گی۔زرداری بھی انکار نہیں کریں گے بلکہ کڑی شرائط رکھ کر حکومت میں زیادہ سے زیادہ حصہ مانگیں گے کیونکہ سندھ میں حکومت کے ساتھ انہیں وفاق میں بھی حصہ داری درکار ہے اور ہ یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔جہاں تک عمران خان کی سزا کا تعلق ہے تو اعلیٰ عدالتوں میں رجوع کرنے کے بعد یہ سزا برقرار نہیں رہ سکے گی۔البتہ فوری سزا کا مقصد انہیں8 فروری کے انتخابات سے آﺅٹ کرنا تھا ۔سیاسی منصوبہ ساز اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔سزا کو پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔بالآخر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا اور وہاں سے ہی حتمی فیصلہ آئے گا۔عین ممکن ہے کہ اعلیٰ عدالتوں سے خان صاحب کو ریلیف مل جائے البتہ مقتدرہ کے ساتھ لڑائی میں عمران خان اپنا سیاسی مستقبل اور پارٹی کھو دیں گے۔کافی سارا وقت گزرجانے کے بعد پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ دوبارہ سیاسی عروج حاصل نہیں کر پائیں گے۔اس سلسلے میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی مثالیں موجود ہیں۔1977 میں پیپلز پارٹی کا تختہ الٹنے اور 1979میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی نے ایک بے مثال جنگ لڑی جس کے نتیجے میں اس کے درجنوں کارکن پھانسی چڑھ گئے۔ہزاروں جیلوں میں گئے۔کارکنوں کو لاکھوں کوڑے لگائے گئے لیکن اس جنگ میں مقتدرہ کامیاب رہی۔جنرل ضیاءالحق نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کروا کر پیپلز پارٹی کو ٹیکنیکل ناک آﺅٹ کر دیا۔ البتہ1988 میں بے نظیر نے انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کرلی لیکن ضیاءالحق نے طویل منصوبہ بندی کر کے پیپلزپارٹی کو پنجاب سے دیس نکالا دیا۔انہوں نے نوازشریف کو اپنا جانشین مقرر کرکے پنجاب ان کے حوالے کر دیا۔وہ دن اور آج کا دن پیپلز پارٹی دوبارہ پنجاب میں اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوسکی۔نوازشریف نے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر الٹرا پنجابی قوم پرست بننے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب رہے۔اگرچہ مشرف نے ان کا تختہ الٹا اور تحریری معافی نامہ کے بعد انہیں جلاوطن کر دیا لیکن مشرف نے بھی2002 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکا اور پنجابیوں پر مشتمل کنگز پارٹی بنائی ۔انتخابات میں شکست کے باوجود ق لیگ کی حکومت تشکیل دی۔2007 میں لیاقت باغ میں بے نظیر کی شہادت نے بھی پنجاب میں پیپلزپارٹی کی واپس آنے کی راہ ہموار نہیں کی۔چنانچہ زرداری بے شمار سیاسی غلطیوں کے بعد دوبارہ پنجاب میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں لیکن مقتدرہ کو ان پر رحم نہیں آ رہا ہے حالانکہ وہ کافی عرصہ سے مقتدرہ کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیںاگر مقتدرہ کو زیادہ رحم آیا تو وہ اپنے دونوں ورثوں کو ملا کر شریک اقتدار کر دیں گے۔جھرلو2024 اگرچہ ایک فراڈ ہوگا لیکن زور آور عناصر اپنی زیر نگرانی ایک نام نہاد حکومت قائم کردیں گے جسے منتخب حکومت کا نام دیا جائے گا لیکن اختیارات سے عاری یہ حکومت شدید ترین ناکامی سے دوچار ہو جائے گی ۔البتہ اس کے نام پر بڑے بڑے فیصلے کئے جائیں گے۔18ویں ترمیم میں تبدیلی اور این ایف سی کے فارمولہ میں ردوبدل اس حکومت کے ذریعے ہوگا جس کے نتیجے میں ریاست مزید سیاسی افراتفری اور معاشی زبوں حالی کا شکار ہو جائے گی جس کا سارا بوجھ نام نہاد منتخب حکومت کو اٹھانا پڑے گا کیونکہ اس کے سامنے دیوہیکل مسائل کھڑے ہیں۔بڑے بڑے ملکی اثاثے اس کے ہاتھوں کوڑیوں کے مول بیچ دئیے جائیں گے۔ چین کو چھوڑ کر دوبارہ امریکہ کی آشیرباد اس حکومت کو حاصل کرنا پڑے گی۔خلیج میں امریکہ سے تعاون اسی دور میں ہوگا۔ریکوڈک کی ڈیل اسی دوران پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔اسٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر اثاثوں کی نیلامی بھی اسی دور میں ہوگی۔پڑوسیوں سے بدترین تعلقات کا خمیازہ بھی اس نام نہاد حکومت کو بھگتنا پڑے گا جبکہ داخلی طور پر جو بدترین حالات ہیں ان کا سامنا بھی اسی حکومت کو کرنا پڑے گا۔