بلوچستان میں جعلی ڈومیسائل کا معاملہ ۔

اکبر بلوچ

پاکستان میں 1950 میں لیاقت نہرو معاہدے کے ذریعے ڈومیسائل متعارف کروائے گئے تھے ، جب لوگوں کی نقل و حرکت کے لئے سرحد بند کردی گئی تھی۔جعلی ڈومیسائل اکثر سرکاری شعبے میں ملازمتیں حاصل کرنے اور اعلی تعلیم کے اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ون یونٹ کے بعد بلوچستان میں دو قسم کے رہائشی سرٹیفیکیٹ جاری کیے گئے جن میں سے ایک کو لوکل دوسرے کو ڈومیسائل کہا جاتا ہے لوکل سرٹیفیکیٹ کے حاصل کرنے والوں کا تعلق بلوچ اور پشتون قبائل سے ہوتا ہے ان اقوام کی باقاعدہ ایک لسٹ انگیز سرکار نے جاری کر رکھی تھی اس کے علاوہ اس کے حصول کے لئے سردار یا قبیلے کے بڑے کی گواہی لازمی ہوتی ہے جنرل موسیٰ کے گورنر بلوچستان بننے کے بعد اس میں ترمیم کرکے بلوچستان میں آباد ہزارہ برداری کو بھی لوکل کا درجہ دیا گیا بلوچستان میں بلوچ و پشتون ہزارہ کے علاوہ پنجابی، کشمیری، اور مہاجرین بھی آباد ہیں جعلی ڈومیسائل پر بلوچستان کے حقوق پر ڈاکہ مارنا کوئی نئی بات نہیں روز اول سے بلوچستان کے باسیوں سے ان کا حق چھینا گیا ہے یہاں کے نوجوان پڑھ لکھ کر محض ڈگریاں ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں بےروزگاری کی وجہ سے احتجاجاً اپنی ڈگریاں جلانے پر مجبور ہو رہے ہیں لیکن ان کے حقوق پر بااثر افراد ڈاکہ ڈالنے سے باز نہیں آتے جہاں ان کا حق ہو وہ اس سے بھی محروم ہوجاتے ہیں بلوچستان کے کوٹے پر مختلف جگہوں پر چاہے وفاقی ملازمین ہوں یا صوبائی جعلی لوکل ڈومیسائل بنوا کر بااثر افراد اپنے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں پچھلے سال چودہ طلبا کو داخلے کے بعد یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ انہوں نے بلوچستان سے جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جمع کروائے ہیں۔ اور ان جعلی طلباء کے داخلے بھی کونسل نے منسوخ کرواے۔ بلوچ ایجوکیشنل کونسل جی سی یونیورسٹی فیصل آباد یہ واضح طور پر کہا ہے کہ جن تعلیمی اداروں میں جعلی ڈومیسائلز پر داخلے ہوچکے ہیں ان کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ سے دوسرے صوبوں میں بہت سارے افراد مستفید ہوئے۔جوبلوچستان کے الاٹ شدہ کوٹے پر ملازمتوں اور اسکالرشپ کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے ناقص معیار کی وجہ سے بلوچستان ہمیشہ دوسرے صوبوں کے مقابلہ کم مقابلہ رہا ہے۔ بلوچستان وہ صوبہ ہے جس کا حقیقی نوجوان جو محنت بھی کرتا ہے، غریبی سے لڑ لڑ کر تعلیمی اداروں کی فیسیں بھی جمع کرتا ہے لیکن جب نوکری کا وقت آتا ہے تو اس پر بااثر افراد قابض ہوتے ہیں جس کی وجہ سے حقیقی لوگ محروم ہوتے ہیں اور میرٹ کی دھوم دھام سے دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں۔لیکن بدقسمتی سے اس پر نہ اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ آواز بلند کرتے ہیں نہ وہ طلبا و طالبات جن کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ آخر کب تک ہم اپنے حق پر کسی اور کو قبضہ کرتے ہوئے چھوڑیں گے؟ آخر کب تک زبانوں پر تالے لگائے رکھیں گے؟ یہ وقت ہے کہ ان با اثر اور ناجائز لوکل، ڈومیسائل بنانے اور بنوانے والوں کو بے نقاب کریں۔ یہ ہمارے ساتھ اور ہماری آنے والی نسلوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے آج بلوچستان میں جعلی لوکل اور ڈومیسائل کا بننا عروج پر ہے۔ کوئی بھی شخص چند پیسے خرچ کر کے یا کسی بااثر فرد سے سفارش کروا کر اپنا جعلی لوکل، ڈومیسائل گھر بیٹھے بنوا سکتا ہے جس کی روک تھام کے لیے بلوچستان کے ہر باشعور باشندے کو آواز بلند کرنا ہوگی اور ایسے جعلی لوکل بنوانے اور بنانے والوں کی نشاندہی کر کے انھیں بے نقاب کرنا ہوگا یہاں بہت ہی بڑی تعدد میں یہ دھندا ایک طویل عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے جس کی پشت پناہی علاقے کے بااثر افراد کررہے ہیں۔ ہم تمام طلباء تنظیموں سے دست بدستہ اپیل کرتے ہیں ہیں کے متحد ہوکے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور جعلی لوکل کی نشاندہی کر کے ان کو منسوخ کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں.

اپنا تبصرہ بھیجیں