مسائل کا انبار اور جعلی ڈومیسائل

تحریر عاطف رودینی بلوچ

    کسی ترقی یافتہ ملک، بہترین معاشرے اور مظبوط ریاست کا اصول ہمیشہ برابری اور عدل و انصاف پر منحصر کرتا ہے جس بھی معاشرے میں اعلیٰ و ادنی گورے کالے امیر غریب اور اونچ نیچ کے درمیان فرق نہیں رہا جہاں سب قانون و ریاست کی نظر میں برابر ہوں اس معاشرے کی بہتری دن بدن بڑھتی جاتی ہے وہ ملک ترقی کے طرف سفر کرتا رہتا ہے اور اس ریاست کی مظبوطی اس کے وجود کو دنیا میں زندہ رکھتی ہے۔ 22 لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضہ کی حکمرانی کے چرچے آج بھی ہے حضرت عمر فاروق نے اپنے وقت میں بہت سی کامیابی حاصل کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر نے عدل و انصاف اور برابری کو ترجیح دی کسی عربی کو عجمی پر گورے کو کالے پر اور امیر کو غریب پر کبھی تقویت نہیں دی۔

بدقسمتی سے بلوچستان انصاف اور برابری کیلئے ہمیشہ سے ترس رہا ہے مگر کبھی بھی بلوچستان کو نہ انصاف ملا نہ ہی برابری۔ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت قدرتی ذخائر سے مالامال، جغرافیائی اہمیّت کے عامل اور کم آبادی ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ احساس کم تری کا شکار رہا ہے۔ شاہد ہی کوئی سہولت ہو جسے بغیر مانگے دیا گیا ہوں ورنہ اس صوبے میں روزگار و تعلیم سے لیکر پانی و بجلی تک کیلئے احتجاج کیا جاتا ہے ہفتوں احتجاج کرنے کے بعد ہی یہاں کے نمائندوں کو خیال آتا ہے کہ عوام آئینی حقوق کیلئے احتجاج کر رہے ہیں بڑی مشکل سے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر زبردستی احتجاج کرنے والوں کو مذاکرات کے نام پر انہیں سبز باغ دکھا کر احتجاج کرنے والوں کو بے وقوف بنا دیا جاتا ہے پھر وہ ان کی اپنی قسمت ہے کہ ان کے مسائل کب حل ہوں۔ یہاں کی عوام اپنی آئینی حق کو استعمال کرکے احتجاج کرتے ہیں اور حکومت کے غفلت کے وجہ سے احتجاجوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے کبھی کبھار تو ایک ساتھ بہت سے مسائل کی خاطر بیک وقت مختلف احتجاج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چند روز قبل ایک ہی دن میں بلوچستان اسمبلی، پریس کلب سیول ہسپتال اور دیگر مختلف جگہوں پر مختلف لوگ احتجاج کر رہے تھے یہاں تک کے بلوچستان اسمبلی کے سامنے ایک وقت میں تین الگ الگ احتجاجی مظاہرہ جن میں آن لائن کلاسز کے خلاف طلباء وطالبات، بی ایم سی کے بحالی کیلئے بی ایس سی کے طلباء اور ملازمین اور مزدوروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے خلاف مزدور اتحاد نے اپنا احتجاجی مظاہرہ ریکارڈ کیا افسوس کی بات یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں میں کسی کے بھی تحفظات دور نہیں ہوئے شرم کی بات یہاں ہے کہ حکومتی نمائندے مذاکرات کے نام پر سب کے ساتھ بیٹھ کر انہیں سبز باغ دکھا کر بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی مگر آج تک ان میں کسی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ اور نہ ہی حکومت ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر آرہی ہیں۔
بلوچستان میں پہلے سے مسائل کو انبار لگا ہوا ہے بجلی کی قلت بلوچستان سے نکلنے والی گیس ہی بلوچستان کو نہیں ملتی پی ایس ڈی پی سے ڈویلپمنٹ سیکٹرز نکالے جارہے ہیں این ایف سی فنڈز میں بھی کٹوتی کی جارہی ہیں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان مسخ شدہ لاشیں، دہشت گردی جیسے واقعات کے ساتھ ہزاروں افراد روڈ حادثات میں مر رہے ہیں۔ گھوسٹ سکولز اور تعلیم کے دروازے بند کرکے آنے والے نسلوں کو جہالت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ان سب سے بڑھ کر بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہاں 60٪ فیصد سے زائد لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں دو وقت کی روٹی بمشکل کھاتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی غریب ماں باپ اپنا پیٹ کھاٹ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دیتے ہیں مگر بلوچستان کے تعلیم یافتہ عوام در در کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود بدنیتی اور سفارش کلچر کے وجہ سے روزگار حاصل نہیں کر پاتے اور اکثر جوان بے روزگاری سے تنگ آکر اپنے ڈگریاں جلا کر خود خوشی کرلیتے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں تک جوں سے توں تک نہیں رینگتی۔ حالیہ دنوں میں میں یہ بات سامنے آئی کہ بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر 22 ہزار سے زائد افراد وفاقی اداروں میں نوکری کر رہے بلوچستان میں پہلے سے ہی بے روزگاروں کی تعداد زیادہ ہیں اور ہر سال گریجویٹ طلباٗ کے تعدادِ زیادہ ہو رہا ہے جس سے بےروزگاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے بلوچستان میں باہر سے بیوروکریٹس تعینات کیے جاتے ہیں جو باآسانی اپنے عزیزوں اور رشتے داروں اور چند پیسوں کے عوض باہر کے لوگوں کو ڈومیسائل فراہم کرتے ہیں یہاں کے غریب باسی سفارش نہ ہونے کی وجہ سے بےروزگار رہ جاتے ہیں اور جعلی ڈومیسائل والے نوکری حاصل کرلیتے ہیں بلوچستان کے ساتھ پہلے سے ایک ظلم یہ ہے کہ وفاق میں بلوچستان کا کوٹہ 3 سے 4 فیصد اور وفاق ان چند نوکریوں کو بھی پورا نہیں دیتا۔ وفاق پہلے سے بلوچستان کے پانچ ہزار سے زاہد نوکری قرضدار ہے اس خیرات میں چند نوکریاں مل جاتے ہیں تو وہ انہیں بھی جعلی ڈومیسائل والے حاصل کرلیتے ہیں بلوچستان کے اوپر ظلم کی انتہا ہے بلوچستان میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور خودکشی کرنے پر مجبور ہیں اور بلوچستان کے ڈومیسائل پر دیگر صوبے کے افراد مراعات حاصل کر رہے ہیں ان میں صرف ڈپٹی کمشنر مستونگ نے چار سو افراد کے جعلی ڈومیسائل منسوخ کردیے ہیں اس کے علاوہ اور اس کے باوجود بھی حکومت نے ابھی تک کوئی سخت ردعمل ظاہر نہیں کی۔ کیا یہ سب کچھ صوبائی و وفاقی حکومت کی کمزوری نہیں؟ کیا حکومت کی ذمہ نہیں کہ وہ اپنے عوام کی جان و مال کے ساتھ ان کی شناخت اور آئینی حقوق کی حفاظت کریں؟ جعلی ڈومیسائل کے وجہ سے پورے صوبہ کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے جو ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر بچے کو پڑھاتے ہیں ان کے بچوں کے بنیادی حقوق سکالرشپ اور روزگار جنہیں جعلی ڈومیسائل والے چین لیتے ہیں ان کا جوابدہ کون ہیں؟ روزگار جعلی ڈومیسائل والے لے کر بلوچستان کے باشندے بے روزگاری کے وجہ سے خود خوشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ان کا قاتل کون جعلی ڈومیسائل والے یا پھر ریاست؟ حکومت صاف شفاف تحقیقات کرکے جعلی ڈومیسائل رکھنے والوں کے ساتھ جعلی ڈومیسائل بنانے والے ظالموں اور قاتلوں جو بلوچستان کے کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرکے ان سے وہ سلوک کریں جو ایک قاتل سے کیا جاتاہے کیونکہ یہ وہ قاتل ہیں جن کے وجہ سے بےروزگاری نے ہزاروں لوگوں کی جان لی ہزاروں بوڑھے ماں باپ کی امیدوں خواہشوں اور تمناؤں کو قتل کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کا اچوت نظروں سے دیکھنے کے بجائے حکومت اپنی ماضی کے غلطیوں سے سیکھ حاصل کرکے اپنی روایات کو بدلتے ہوئے بلوچستان کو برابری دے اور طبقاتی نظام کو ختم کردے ورنہ اس بات سے سب واقف ہیں کہ معاشرے میں ہر نظام چل سکتا ہے مگر ظلم و نا انصافی کا نظام کبھی نہیں چل سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں