اک گرہ نقاب اوڑھے
تحریر: شیرین حسین
"اندر کے حادثوں پہ کسی کی نظر نہیں
ھم اندر سے مر چکے ھیں ہمیں خبر نہیں "
"بلوچستان کے حالات آج جو بھی ہیں کہیں نہ کہیں انکے زمہ دار ہم خود بھی ہیں ۔دوسروں کو سبق دینے میں ہم اتنے ماہر ہوگئے ہیں کہ خود ان پر عمل کرنے سے قاصر ہیں جبکہ دوسرا قصور ان کم ظرف لوگوں کا بھی ہے جو ہمارے اردگرد چھپے ہماری کوششوں و اُمیدوں کو ریزا ریزا کرتے ہیں۔حکمران تو بعد میں آتے ہیں مگر اپنوں میں چھپے غیر کو ڈھونڈنا مشکل ہے جس کا کام ہماری جڑیں کھوکھلی کرنا ہے.گھر کو آگ اکثر اپنے گھر میں موجود چراغ سے لگتی ہے۔
بظاہر یہ عام سے لوگ ہیں جن کے پاس چہروں پر نقاب اوڑھنے کا ہنر ہے۔
سوچو تو عقل دھنگ رہ جائے۔یہ کیا نظام ہے کیسا معاشرہ ہے جہاں لوگ دماغی حوالے سے معذور پائے جاتے ہیں جو آنکھیں تو رکھتی ہیں مگر حقیقت دیکھ نہیں پاتے، جنھیں عام زبان میں منافق کہتے ہیں۔ یہاں کے منافق لوگوں کی وضاحت کرنا ناممکن ہے جیسے ہر دوسرا بندا ایسے جذباتی ہو جیسے ابھی کاٹ کھائے جنسے دانشمندی سے بات بھی نہ کیا جاسکے۔
یہاں دوسروں کی سچاہی بیان کرنے پر تالیاں ,اپنوں کے گن گانے پر شاباشی اور اپنوں کے عیب ظاہر کرنے پر گالیاں ملتی ہیں۔ہماری بھی غلطی ہے کیونکہ ہم حد سے زیادہ مفاد پرست ,خودگرز بن چکے ہیں اور ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جو امن کے بجائے جنگ کے لیے اکساتے ہیں۔ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جن کی اپنی کوہی سوچ راہے نہیں ہوتی انکا تعلق فقط اتنا ہے کہ اپنی عقل کی حیثیت سے متفق اور غیر متفق کا انتخاب کرتے ہیں..
ابھی کل کی ہی بات ہے جب جامعہ بلوچستان میں طالبات کو ہراساں کرنے والوں کے لیے پر امن احتجاج دیکھا گیا جہاں ہمارے عزیز بہن بھائی جنہیں ہمیشہ حق کے لیے آواز اٹھاتے دیکھے جاتے ہیں ( دعا ہے وہ سلامت رہیں ) تو وہاں چند ایسے کم عقل کو انکے درمیاں دیکھا گیا جو نعرے لگا رہے تھے کہ” ہماری بہنوں کو انصاف دو وہ ہماری عزت ہیں”. باخدا باخدا یہ وہی لوگ تھے جن سے یونیورسٹی کی کوہی لڑکی محفوظ نہیں تھی جو کمنٹس پاس کرنا ,لڑکیوں پر تبصرے کرنا اپنا مشغلہ سمجھتے تھے اور جیسے یہ انکے روز کا معمول ہو ,اور یہ وہی لوگ ہیں جن کو اپنی کمیونیٹی کا نام بدنام کرنے میں پہلے پہل دیکھا گیا ہے جو بعد میں استاد بن کر اس نظام کو تباہی کی طرف گامزن کرتے ہیں ۔جب ہوس کے پجاری استاد بنیں گے تو استاد کے پاک نام کو داغ لگاتے پِھریں گے اور اس سے معاشرے سے بہتر انسان کا انتخاب زرا مشکل ہوجائے گا.
خیر یہ تو چند ماضی کے حقائق کی بات ہوگئی اب آج کی بات کرتے ہیں ۔
جہاں تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول ہو
ایسے معاشرے میں نوکر پیدا ہوتے ہیں رہنما نہیں۔
آج اس جان لیوا وبا کے دور میں,تپتی گرمی ,ناخشگوار لمحات میں ہم میں چند مظبوط افراد اپنی جان کی پروا کیے بغیر آنلاہن کلاس کے boycott پر زور دے رہے ہیں احتجاج کر رہے ہیں، تاکہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں وہاں کے لوگوں کی آواز بن سکیں اور اسٹوڈنٹس کو یقین دہانی دلاہی جائے کہ وہ اکیلے نہیں ان پریشاں کن حالات میں, تو دوسری طرف انہی لوگوں میں چند افراد کو اپنے فیس جمع کرانے میں اور احتجاج کے بعد گھر جاکر اپنے کلاس لینے میں سرفہرست دیکھا گیا ہے گویا مذاق یا کوئی ناٹک ہو جیسے۔اگر سب یکجا ہو کر اس معاملے کو حل کرتے کوئی کلاس نہ لیتا تو شاید حالات کچھ اور ہوتے۔یہ لوگ چہروں پر نقاب اوڑھ کر فقط اس سماج کو دیکھانے کے لیے احتجاج میں شامل ہوتے ہیں مگر دل میں ذاتی مفاد اور خودگرزی کا بیچ بوے یہ لوگ ساتھ تو ہوتے ہیں مگر کسی مقصد میں کامیاب ہونے نہیں دیتے…
حال ہی میں مکران کے چند علاقوں میں مختلف ڈکیتی کے واردات ھوئے جن میں قیمتی جانوں کے چلے جانے کا پوری قوم کو دکھ ہوا ,مظاہرے ہوئے, ریلی نکالی گئی احتجاج ہوئے اور جن کے لیے باہر کے ملکوں آواز اٹھائے گئے بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی احتجاج دیکھا گیا جس پر ہماری قوم نے خوشی کا اظہار کیا… مگر انہی لوگوں میں چند پڑھے لکھے اشخاص کو دیکھا گیا جو کشمیر اور دوسرے ملکوں میں ہوئے ظلم کو دیکھ کر خاموش اور بولنے والوں کو چپ کرانے میں لگے رئے بلکہ انکو لعنت ملامت کرنے اور تعصب پیدا کرنے میں سرفہرست تھے کہ ہمیں دوسرے قوم سے کوئی وابستگی نہیں پر یاد رہے کہ یہی لوگ ” انسانیت کا سبق دیتے ہیں”
ان جیسے سوچ رکھنے والوں کی وجہ سے بلوچستان ہمیشہ سے اکیلا رہا ہے کوہی مدد کرنے والا سننے والا نہیں جب تم دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کے بجائے گونگے بہرے ہونے کا مظاہرہ کروگے تو تمھارے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا جائے گا اور جسکے انجام کا شکار پورا معاشرہ ھوگا، سخت الفاظ کیلئے معذرت کرتا ہوں لیکن یہی حقائق ہیں جن پر اوڑھے پردہ کو اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔
پس محسوس ہوا
اپنا شریک غم
کوہی اپنے سوا نہ تھا !
اس میں کوہی شک نہیں کہ بلوچستان کو ہمیشہ سے اسکے حقوق سے محروم کیا گیا ہے اور انگنت واقعات بلوچستان کے سینے پر دفن ہیں۔ پر یہ بات تو صاف ظاہر ہے جب تک اپنے درمیان ایسے لوگوں کو درست نہ کیا جائے انکی سوچ کو مثبت نہ کیا جائے تب تک ہمارے لوگ آپس میں رہ کر بھی ایک دوسرے کے خلاف ورزی کرتے رہینگے جسکا فائدہ دوسرے اٹھانے میں دیر نہیں کرتے۔ جب تک ہمارے درمیان ایک دوسرے کے لیے احساس کی کمی, حسد,ضد, کمتری بالاتری کی سوچ , دین سے دوری جو کے اک بڑی وجہ دیکھی جاسکتی ہے (بیشک اسلام ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے)
تب تک ہم اپنے آپس کی جنگ کو ختم نہیں کریں گے تب تک ہم کسی دوسرے جنگ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
خلیل جبران فرماتے ہیں
” اس قوم پر ترس کھاؤ جو گھروں میں بیٹھی ہوئی ہو اور خود کو اک قوم سمجھتا ہے۔