شال سے کوہ شاشان

تحریر: جینئد ساجدی

نیشنلزم کے ماہر تعلیم ہربرٹ کلمان لکھتے ہیں کہ قومیں اپنی جداگانہ قومی شناخت بنانے کیلئے مختلف چیزوں جیسے کے قومی زبان، قومی سرزمین، مشترکہ تاریخ، قومی ہیروز، اور جغرافیائی علامات کو استعمال کرتے ہیں۔ اطلی جو ہزار سال سے زائد بیرونی ریاستوں کے زیر اثر رہا ہے، انیسویی صدی میں اطالوی قوم پرستوں نے اطالوی شناخت کو مضبوط کرنے کیلئے قدیم رومن سلطنت کو بطورِ قومی تاریخ کے طور پر استعمال کیا، جولیس سیزر کو بطورِ قومی ہیرو اور مغربی رومن سلطنت کے دارالحکومت روم کو بطورِ جغرافیائی علامت استمعال کیا۔ مزینینی، کا?نٹ کاویر، گیری بالدی اور بادشاہ وکٹر ایمانول کی جدوجہد کی وجہ سے اٹلی 1870 AD تک تقریباً مکمل متحد ہوچکا تھا لیکن صرف روم پوپ کے زیرِ حکومت میں تھا، اطالوی قوم پرستوں کا یہ خیال تھا کہ روم اطالوی قوم کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہے اس کے بنا اٹلی نا مکمل ہے۔ اطالوی قوم پرستوں کے راستے کی رکاوٹ فرانس جیسی طاقتور ریاست تھی جو مکمل طور پر پوپ کی حمایت کرتی تھی۔ 1870 AD میں فرانس کو جرمنی کے ہاتھوں عبرتناک شکست ہوئی اور وہ کافی کمزور ہوگیا، 1871 AD میں اٹلی نے روم پر قبضہ کرلیا اسطرح اٹلی مکمل طور پر متحد ہوگیا، اٹلی کے علاوہ دیگر کئی اقوام نے بھی جغرافیائی علامتوں کو اپنی شناخت کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال کیا ہے جیسا کہ جرمنی نے دریائے رائن، ہندستانی قوم پرستوں نے گنگا، جمنا اور ہمالیہ اور فلسطینی قوم پرستوں نے یروشلم کو بطورِ جغرافیائی علامت استعمال کیا ہے۔

بلوچوں نے بھی دیگر اقوام کی طرح اپنی علیحدہ شناخت بنانے کیلئے قومی ہیروز جیسا کہ چاکر خان، نوری نصیر خان، خان محراب خان وغیرہ کا استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ جغرافیائی علامتوں کے طور پر بلوچوں نے درہ بولان، کوہ سلیمان، کوہ چلتن اور کوہ شاشان کا استعمال کیا ہے، کوہ شاشان کا مغربی حصہ گریشہ میں واقع ہے جبکہ مشرقی حصہ نال میں ہے۔ کچھ روز قبل گریشہ جانے کا اتفاق ہوا تو یہ تجسس ہوا کہ کوہ شاشان کو قریب سے دیکھا جائے یوں تو گریشہ کا کافی بار چکر لگ چکا ہے لیکن کبھی ذاتی مصروفیات اور کبھی کاہلی کی وجہ سے ہمیشہ شاشان کو دور سے ہی دیکھا ہے، اسے قریب سے دیکھنے کی خواہش یوں پیدا ہوئی کہ آج کل نوجوان بلوچ شاعروں کے اشعار میں شاشان کا ذکر اسی طرح کیا جاتا ہے جیسا کہ کوہ چلتن، بولان اور کوہ سلیمان کا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاشان اب بلوچوں کی شناخت کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔

کوہ شاشان پر جانے کا تجربہ کچھ اسطرح ہے کہ یہ ایک اونچا پہاڑ ہے اور یہاں صرف فور وہیل گاڑی پر ہی جایا جاسکتا ہے، البتہ شمالی علاقہ جات اور یورپ کے پرینیز کے بلند پہاڑوں کو دیکھنے کے بعد شاشان کی اونچائی نے کچھ خاص حیران نہیں کیا لیکن وہاں ایک کم عمر چرواہے جسکی عمر 13 سے 14 سال ہوگی سے مل کر کافی حیرت ہوئی، کم عمر چرواہے سے ملنے کا اتفاق اسطرح ہوا کہ اس نے اپنا موبائل گاڑی میں چارج کرنے کی درخواست کی تھی اور قریب بیٹھ کر کچھ گفتگو کی تھی، اس نے یہ پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں جس کا جواب میں نے دیا کہ میں کوئٹہ (شال) سے آیا ہوں لیکن آبا? اجداد کا علاقہ یہی ہے، اس جواب پر اس نے ایک اور سوال کیا کہ آپ کوئٹہ میں کبھی ڈاکٹر ماہ رنگ اور سمی دین بلوچ سے ملے ہیں۔ اس سوال پر میں نے اس سے پوچھا کہ آپ انہیں کیسے جانتے ہیں تو اس نے کہا کہ موبائل میں ان کی کچھ وڈیوز دیکھی ہیں اور وہ بلوچوں کے حقوق کے بارے میں بولتے رہتے ہیں، اس کے حالات حاضرہ کا علم اور دلچسپی دیکھ کر میر غوث بخش بزنجو گمان میں آگئے، اسکی وجہ یہ تھی کہ میر غوث بخش بزنجوکا آبائی گا?ں بھی شاشان کے مشرقی حصے میں واقع ہے، اسکے علاوہ ان کے کچھ الفاظ بھی ذہن میں آئے جو انہوں نے 1948ئ میں بلوچ سیاست کے متعلق بیان کیے تھے۔

میر غوث بخش بزنجو اپنی بائیو گرافی میں لکھتے ہےں کہ برطانیہ کے چلے جانے کے بعد میں اس حق میں تھا کہ ایک الگ اور آزاد بلوچ ریاست ہو لیکن اس وقت بلوچوں میں کوئی قومی شعور نہیں تھا۔ وہ اپنی شناخت اپنے چھوٹے چھوٹے علاقے اور قبائل سے کرواتے تھے۔ اپنی اس شناخت کو قومی بلوچ شناخت پر قربان کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ وہ مزید لکھتے ہےں کہ شاید یہ بات بہت سے لوگوں کو بری لگے گی لیکن حقیقت یہی تھی کہ 1948ئ میں بلوچ آزاد ریاست کے لئے اہل نہیں تھے۔ 76 سال گزر جانے کے بعد بلوچستان کے ایک پسماندہ ترین علاقے اور وہاں کے رہنے والے ایک کم عمر چرواہے سے مل کر یوں محسوس ہوا کہ 2024ئ میں بلوچوں کے قومی شعور میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اب شاید بلوچ اپنی شناخت اپنے چھوٹے علاقوں یا قبائل سے نہیں کرتے اور نہ ہی کسی مقامی سردار یا پھر نام نہاد پارلیمانی سیاست دان کو اپنا قومی ہیرو تصور کرتے ہےں۔ اس قومی شعور میں اضافے کی وجوہات ڈیجیٹل میڈیا ہے اور اس ڈیجیٹل میڈیا کے اثرات ان تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں تک محدود نہیں بلکہ کوہ شاشان کے چرواہوں تک بھی یہ شعور پھیل چکا ہے۔ اب اکثر بلوچ اپنے حقوق سے واقف ہےں۔ اب بھی کچھ اثر و رسوخ رکھنے والے عناصر یہ سمجھتے ہےں کہ بلوچستان کا مسئلہ کسی نام نہاد کمیٹی یا کچھ سرداروں کی مشاورت سے ختم ہوگا تو ان کے بارے میں یہ لکھنا مناسب ہو گا کہ زمانہ کچھ اور چل رہا ہے اور وہ کسی اور زمانے میں جی رہے ہےں اور حقیقت سے مکمل طور پر لا علم ہےں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں