کچھ ہونے کو ہے؟

تحریر: انور ساجدی
بے چارے عمران خان پونے چار سال ترستے رہے لیکن امریکی صدر تو کیا وزیرخارجہ تک کسی نے ایک ٹیلی فون کال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ کے ہاتھوں رجیم چینج کی باتیں کچھ کچھ صحیح تھیں۔شہبازشریف کو آئے ہوئے چند ہفتے ہوئے ہیں لیکن صدر بائیڈن نے ایک لمبا چوڑا خط لکھ ڈالا۔یہ خط نہیں بلکہ ایک عہد نامہ ہے جس کا مقصد دوبارہ پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔یہ خط دیگر ممالک اور خاص طور پر چین کے لئے ایک عندیہ ہے کہ ہم اپنے پرانے تابع فرمان دوست کو آپ کی گود میں جانے نہیں دیں گے۔یہ خط ایسے موقع پر لکھا گیا جب شمالی علاقہ جات میں پانچ چینی ایک حملے میں مارے گئے تھے۔اس علاقہ میں یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں تھا بلکہ چند سال قبل اس سے زیادہ چینی زندہ جل مرے تھے لیکن تازہ سانحہ ایک اور تناظر کی وجہ سے زیادہ حساس اور نازک حیثیت رکھتا ہے اور ایسے میں صدر بائیڈن کا خط چین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔اس کم بخت یک طرفہ محبت نے پاکستان کو عجیب کشمکش میں مبتلاکر دیا ہے اس کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ نہ تو چین کو چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی امریکہ کو۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر یلغارکی تو حملے شروع ہونے سے پہلے امریکی وزیر خارجہ پاول کا صدر مشرف کو فون آیا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ صاف صاف بتائیں کہ آپ امریکہ کے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر ساتھ نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ آپ ہمارے دشمن کے ساتھ ہیں۔یاد رکھیں ایسی صورت میں ہم آپ کی ریاست کو دوبارہ پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے۔جنرل مشرف نے اپنی کتاب سب سے پہلے پاکستان میں اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔چار وناچار مشرف نے امریکا کا ساتھ دیا بلکہ افغانستان پر حملہ کے لئے پاکستان کے ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کر دئیے۔امریکا کا سامان رسد چمن اور طورخم کے راستے جاتا تھا اور مجال ہے جو کسی جہادی ملاﺅں نے اس پر دھاوا بولنے کی جسارت کی ہو۔امریکہ نے افغانستان کو تورا بورا کر دیا لیکن پاکستانی حکومت ساتھ تھی۔مشرف کے بقول اس کی حکومت نے پانچ سو جہادی پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دئیے جن کا بھاری معاوضہ بھی وصول کیا گیا۔یہ بے چارے کیوبا کے قریب امریکی اذیت گاہ گوانتاناموبے پہنچائے گئے جن میں سے بعض فوت ہوگئے کچھ کو رہائی ملی اور غالباً ایک اچھی خاصی تعداد اب بھی وہاں پر زندگی کے آخری ایام گن رہی ہے۔ 2018 میں جب عمران خان اقتدار میں آئے تو ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے دونوں کی خوب بنتی تھی لیکن دونوں اقتدار سے آﺅٹ ہوئے جو بائیڈن مختلف قسم کی شخصیت ہیں۔ اس کا رجحان انڈیا کی طرف زیادہ تھا اور اس کی وجہ چین تھا۔امریکہ کے خیال میں ایشیا میں انڈیا واحد ملک ہے جو چین کے مدمقابل آسکتا ہے۔اس لئے اس سے تذویراتی معاہدہ کیا گیا۔کاروباری معاہدے الگ تھے جبکہ انڈیا کے ماہرین امریکہ کی جدید ٹیکنالوجی کے دیوہیکل اداروں میں چھائے ہوئے ہیں۔اس کے برعکس بائیڈن نے اپنے چار سالہ دور میں پاکستان کو مسلسل نظرانداز کئے رکھا۔البتہ اس نے سی پیک کی مخالفت جاری رکھی۔امریکی انتظامیہ نے کسی نہ کسی طرح عمران خان کے دور میں سی پیک کو منجمد رکھا تاہم شہبازحکومت کے آنے کے بعد یا زرداری کے صدر بننے کے بعد چین ایک بار پھر آگے آیا اور یہ مطالبہ کر دیا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے۔اس مطالبہ کے چند دن بعد شانگلہ کا واقعہ ہوا جس کے بعد چین غصہ میں آ گیا، پاکستانی حکمرانوں کے معافی مانگنے سفارت خانہ جا کر وضاحتیں دینے اور قدم بوسی کے باوجود چین مطمئن نہ ہوا اور اس نے اعلیٰ سطح کا وفد بھیجا جس نے اسلام آباد میں پاکستانی ذمہ داروں سے ملاقات کی اور کہا کہ چینی انجینئروں کے قتل کے ذمہ دار عناصر کو کٹہرے میں لایا جائے ساتھ ہی یہ کہا کہ جب تک فول پروف سیکورٹی کی ضمانت نہیں دی جاتی چینی انجینئرز اور دیگر ماہرین کام نہیں کریں گے۔پاکستانی ریاست موجودہ صورت حال میں زبانی کلامی یقین دہانی کے سوا اور کیا گارنٹی دے سکتی ہے جبکہ اس کی سابقہ دی گئی ضمانتیں کئی بار ضبط ہوچکی ہیں کیونکہ دہشت گردی کا عفریت قابو میں نہیں آ رہا ہے۔ طالبان سے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ٹی ٹی پی سے عمران خان اور جنرل فیض نے معاہدہ کیا لیکن انہوں نے معاہدے کی کوئی پاسداری نہیں کی اور واپس فاٹا آ تے ہی ٹی ٹی پی کے جنگجوﺅں نے حملے شروع کر دئیے۔کیانی اور فیض کی اپنی ڈاکٹرائن تھی وہ جنگ سے خوفزدہ تھے اور چاہتے تھے کہ ٹی ٹی پی سے دوستی ہو جائے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔باجوہ کے جانے کے بعد ڈاکٹرائن بدل گئی۔جیسے کہ ہمیشہ تبدیلی کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اسی دوران ایران سے بھی تعلقات خوش گوار نہیں رہے۔ شہبازحکومت نے آتے ہی ہاتھ پیر مارنے شروع کر دئیے لیکن اس کی یہ پریکٹس بے سود ہے کیونکہ سیکورٹی کے معاملات اس کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔اس لئے صورتحال قابو میں نہیں آ رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ حکومتوں کی سابقہ پالیسیاں ہیں۔انہوں نے خود ہی افغان جہاد کی وجہ سے ساری دنیا سے جنگجو بلائے ان میں سے اکثر افغانستان میں رہ گئے اور واپس نہیں گئے القاعدہ کے سربراہ اور جنگجو پہلے سے تھے لیکن داعش خراسان کے نام سے بھی حملے شروع ہوگئے۔یہ ایک پراسرار تنظیم ہے اگرچہ ابوبکر بغدادی کو امریکہ نے مار دیا لیکن حیران کن طور پر یہ تنظیم کبھی اسرائیل پر حملے نہیں کرتی۔اسرائیل کافی عرصہ سے غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے لیکن مجال ہے جو داعش اس کےخلاف کوئی کارروائی کرے۔معلوم نہیں کہ افغانستان اور پاکستان میں اسکی پشت پناہی کون کر رہا ہے؟۔

پالیسیوں کی خرابیوں کے علاوہ پاکستان پر ہمیشہ نااہل حکمران مسلط کئے گئے جن کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں تھی اور نہ ہی وہ اتنے باصلاحیت اور ویژنری حکمران تھے کہ پاکستان جیسی ریاست کے گھمبیر مسائل حل کر سکتے۔اس وقت بھی صورت حال اس طرح ہے کہ شہباز حکومت کے قائم ہونے کے باوجود نگراں حکومت کی باقیات کے ہاتھوں میں باگ ڈور دے دی گئی ہے۔ افواہیں ہیں کہ توسیع کے بعد شہبازشریف کو رخصت کر دیا جائے گا اور ان کی جگہ پیراٹروپر وزیرداخلہ محسن نقوی کو وزیراعظم بنایا جائے گا۔اس کام میں زرداری بھی ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ محسن نقوی ان کی پسندیدہ شخصیات میں سے ہیں ۔نقوی کو وزیراعظم بنانا کون سا مشکل ہے کسی بھی ضمنی انتخاب کے ذریعے انہیں کامیاب کروایا جا سکتا ہے اور جوڑ توڑ کے بعد مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔اگر ن لیگ آڑے آئی تو تحریک انصاف کے منحرفین کو ملا کر یہ فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔ یعنی شدید دھاندلی کے بعد جو حکومت لائی گئی ہے وہ بھی قابل قبول نہیں حکمرانوں کو خوف ہے کہ نوازشریف کسی وقت بھی یوٹرن لے کر اپنا پرانا بیانیہ بحال کرسکتے ہیں۔ان کے قریبی ساتھی میاں جاوید لطیف اس کی پہلے سے تیاری کر رہے ہیں۔اگر میاں صاحب چپ رہے تو بیٹی کی وزارت اعلیٰ کی وجہ سے چپ رہیں گے۔ورنہ وہ دوبارہ پرانی باتیں دہرانا شروع کر دیں گے۔صوبہ پختونخواہ میں بھی موجودہ پی ٹی آئی وزیراعلیٰ تا دیر نہیں چل سکتے کیونکہ وہ وفاق سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کئے ہوئے ہیں جبکہ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ علم بغاوت بلند کریں اور وفاق سے کوئی مراسم نہ رکھیں لیکن امین گنڈاپور کی مجبوری ہے کہ اس کا خزانہ خالی ہے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادھر تحریک انصاف کے ”قابل فخر“ منصوبہ بی آر ٹی کا تخمینہ ایک کھرب20 ارب روپے تک جا پہنچا ہے جبکہ یہ منصوبہ بنانے والے کنٹریکٹرز نے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔

ایسا ہی کام ایران کرنے والا ہے وہ پاکستان کو عالمی ثالثی عدالت میں لے جانے کا اعلان کر چکا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ گیس پائپ لان منصوبہ مکمل کیا جائے یا18 ارب ڈالر ہرجانے کے طور پر دئیے جائیں۔اتنی بڑی رقم پاکستان کے پاس ہے نہیں اوپر سے امریکہ واضح کرچکا ہے کہ پاکستان خود کو اس منصوبے سے دور رکھے ورنہ اسے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا یعنی ایران بھی ناراض چین بھی ناراض طالبان پہلے سے ناراض انڈیا اذلی دشمن۔ عوام مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں تو یہ حکومت یا حکمران کون کون سا مسئلہ حل کریں گے۔اگرچہ چین کو فول پروف سیکورٹی اور سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کی یقین دہانی کروا دی گئی ہے لیکن پاکستان میں سیکورٹی کی ضمانت دینا مشکل ہے۔ یہاں پر بے شمار گروپ برسرپیکار ہیں جب تک ایک ہمہ گیر پالیسی اور درست حکمت عملی نہیں بنائی جائے گی ریاست کا آگے جانا ناممکن ہے۔حال ہی میں حکومت نے مکران میں سیکورٹی کی فراہمی کی خاطر ایف سی ساﺅتھ میں مزید6 ہزار نفری بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بات نفری کی تعداد میں اضافہ سے نہیں بنتی بلکہ حکمت عملی کو درست بنانا ہوگا۔گوادر اور تربت کے واقعات کے بعد حکومت نے کہا ہے کہ وہ ٹارگٹڈ آپریشن کا ارادہ رکھتی ہے لیکن آپریشن آپریشن ہوتا ہے ٹارگٹڈ کیا ہے؟ اگر حکومتی کارروائیوں کی وجہ سے جوابی ردعمل آیا تو سی پیک کے منصوبے کیسے چلیں گے جب تک امن نہیں ہوگا سی پیک اسی طرح متعلق رہے گا جیسے کہ عمران خان کے دور میں رہا۔اگر مین لینڈ بلوچستان کے حالات ٹھیک نہ ہوئے تو سی پیک سمندر برد ہوسکتا ہے یا اگر چین ناراض ہوا تو گوادر پورٹ ہمبن ٹوٹا بن سکتا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس 65 ارب ڈالر بمع سود ادا کرنے کے لئے نہیں ہیں۔چین نے حال ہی میں بحرہند کے چھوٹے سے ملک مالدیپ پر بھی ہاتھ ڈالا ہے جبکہ سری لنکا کی تباہی اسی کی مرہون منت ہے۔چین بحرہند کے ایک اور چھوٹے سے ملک جپوتی پر بھی قبضہ کر چکا ہے وہاں اس نے اپنا پہلا نیول اڈہ بنا دیا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ 99سالہ لیز کے بعد گوادر پورٹ کے بارے میں چین کی پالیسی اور رویہ کیا ہوگا؟۔

اپنا تبصرہ بھیجیں