جہد مسلسل اور فلسفہ منظور بلوچ
بلوچستان کے ساتھ ظلم و نا انصافی اب اک روایت سی بن گئی ہے کبھی بھی کسی حکمران نے بھی بلوچستان کے مسئلہ کو سمجھنے اور نہ ہی حل کرنے کی کوشش کی ہے الٹا بلوچستان کو مزید بحرانوں اور پسماندہ رکھنے میں ہر حکومت نے پچھلے حکومت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بلوچستان قدرتی وسائل سونا چاندی کرومائٹ قدرتی گیس کوئلہ اور بہت سے قیمتی معدنیات اور 700 کلومیٹر پرمحیط ساحل سمندر بلوچستان کے جغرافیائی اہمیت میں اور اضافہ کرتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ عالمی قوتوں کی نظریں بھی بلوچستان پر جمی ہوئی ہیں بلوچستان کو پسماندہ رکھنے یہاں کے لوگوں کیلئے تعلیم کے دروازے بند کرنے، انہیں لاشعور رکھنے اور یہاں کی حالات بگاڑنے میں ملک کے حکمرانوں کے ساتھ عالمی قوتوں کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ مگر بلوچستان نے بھی ایسے شیر مرد اور بہادر پیدا کیے ہیں جنہوں نے سیاست، صحافت، مزاحمت، ادب اور ہر پہلو سے بلوچستان کی بقاء کے لیے جدوجھد کرکے امر ہوگئے اور تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کیلئے زندہ رکھے ہیں میر میرو میروانی و نورا مینگل سے لیکر بابو نوروز و نواب اکبر تک، عبدالعزیز کرد و یوسف عزیز مگسی سے لیکر سردار عطاء اللہ مینگل و میر غوث بخش بزنجو تک اور گل خان نصیر و بابو کریم شورش سے لیکر شہید حمید و حبیب جالب تک تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے مادر وطنکیلئے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں بلوچستان کی سرزمین بنجر ہو کر بھی کبھی بزدل پیدا نہیں کی۔
بلوچستان کی تاریخ میں ایک روشن و چمکدار ستارہ جسے دنیا شہید چیئرمین منظور بلوچ کے نام سے جانتی ہے۔چیئرمین منظور بلوچ 10 جولائی 1970 کو بلوچستان کے تاریخی و شہداء کے شہر مستونگ کے علاقے کلی کونگھڑ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں حاصل کی۔چیئرمین منظور بلوچ با صلاحیت انسان تھے تعلیم کے ساتھ کھیل و دیگر شعبہ جات میں بھی دیگر طالب علموں سے آگے تھے۔ منظور بلوچ گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد بیچلر کرنے کیلئے کوئٹہ تشریف لائے اور 1994 میں بیچلر (بی-ایس-سی) کی ڈگری جامعہ بلوچستان سے حاصل کی۔ منظور بلوچ کسان طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور ایک کسان کا بیٹا تھا اسی لیے اس نے بیچلر کے بعد زراعت کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کا انتخاب کیا۔ اور بلوچستان زرعی کالج میں داخلہ لے کر 1997 میں بی ایس سی اونرز(ایگریکلچر) کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد چیئرمین منظور بلوچ نے اپنی مادری زبان براہوئی میں جامعہ بلوچستان سے ماسٹرز کی۔ منظور بلوچ کا مزاج نوکری کا نہیں تھا اسی لئے منظور بلوچ کو بہت بڑے بڑے عہدوں پر پیشکش کرنے کے باوجود بھی کبھی نوکری نہیں کی۔
منظور بلوچ اپنے طالب علمی میں انٹرمیڈیٹ کے دوران بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں ممبرشپ حاصل کی اور طلباء سیاست کا آغاز کیا۔ بی ایس او کی نرسری میں تربیت حاصل کرتے ہوئے سرمین کیلئے جدوجہد شروع کی۔اپنی محنت مخلصی اور نظریہ کی وجہ سے پروان چھڑتے گئے۔چیئرمین منظور بلوچ ایک روشن خیال، ترقی پسند، انسان دوست مزدور دوست اور عدم تشدد سوچ رکھنے والے انسان تھے۔ منظور بلوچ بہت بہادری اور دانائی سے فیصلہ کرتے اور فیصلوں پر ڈٹے رہتے۔ نوے کی دہائی میں جب بلوچستان کی سیاسی و جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے اور حالات بگاڑنے کیلئے قومیت کے نام پر بلوچستان کے عوام کو تقسیم کرکے آپسی محبت بھائی چارے کو ختم کرکے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑوایا جارہا تھا اس تقسیم اور نفرت کی آگ کو مزید ہوا دینے کیلئے چیئرمین منظور بلوچ (جو اس وقت بی ایس او کے صوبائی صدر تھے) اور اس کے چند ساتھیوں پر زرعی کالج میں ایک بڑے گروپ نے حملہ کیا جس میں منظور بلوچ ساتھیوں سمیت شدید زخمی ہوئے منظور بلوچ مرد مجاہد کی طرح میدان پر کھڑے رہے یہاں تک کہ اس کا ایک ہاتھ بھی ٹوٹ گیا مگر میدان نہیں چھوڑا۔ اس واقعے سے پوری بلوچ قوم میں غم و غصّے لہر دوڑ گئی منظور بلوچ شدید زخمی ہونے پر بھی بدلہ لینے کے بجائے بلوچستان کے امن کی بحالی کیلئے امن و بھائی چارے کا پیغام دیتے ہوئے عدم تشدد سے اس قومیت کی نفرت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرکے بلوچستان کے امن کو مزید خراب ہونے سے کافی حد تک روک کر دشمن کی بڑی سازش کو ناکام کردیا۔
1998 میں چیئرمین منظور بلوچ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ چیئرمین منظور اپنی ذمہ داریاں بہتر طریقے سے نبھاتے تھے۔ منظور بلوچ اپنے کردار، اخلاق اور خدمات سے سب کو متاثر کرتے۔ جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے خلاف بیرونی اور اندرونی سازشیں زور پکڑنے لگیں اور کچھ سازشیں کامیاب ہوئیں تو تنظیم کے ساکھ کو کافی نقصان پہنچا یہاں تک کہ تنظیم آئینی بحران کا شکار ہو گئی جس کے بعد منظور بلوچ کو تنظیم کا نگران اعلیٰ بنا کر بی ایس او کی تمام ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ بہت کم وقت میں بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرکے بی ایس او کو آئینی بحران اور دیگر مشکلات سے نکال کر مظبوط بناکر سب کو حیران کردیا۔ چیئرمین منظور بلوچ نے 2002 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا شاندار اور کامیاب کونسل سیشن کرکے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور طلباء سیاست کو خیر باد کہا۔ سردار عطاء اللہ مینگل سے سیاسی و نظریاتی وابستگی ہونے کی وجہ سے چیئرمین منظور بلوچ نے بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور تادم مرگ بلوچستان نیشنل پارٹی کا حصہ رہے۔ منظور بلوچ نے الیکشن میں بھی حصہ لیا کیونکہ اسکی سوچ تھی کہ جاگیر داروں،موروثی اور ظالموں کیلئے میدان خالی نہ ہو۔ منظور بلوچ دو بار صوبائی اور ایک بار قومی اسمبلی کیلئے الیکشن لڑا۔
منظور بلوچ نے ہمیشہ جاگیردارانہ نظام، طبقاتی نظام کے خلاف قومی شناخت ساحل وسائل کی دفاع اور حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کی۔ غیر جمہوری عمل، نا انصافی ظلم اور تشدد کے خلاف ہمیشہ مذمت اور مزاحمت کرتے منظور بلوچ نے اپنی زندگی میں بہت سے مصائب، مصیبتیں اور اذیتیں برداشت کی اور کئی بار جیلیں بھی کاٹی۔ دور دور سے لوگ چیئرمین منظور بلوچ سے ملاقات کرنے کیلئے آتے اور ان کے خوبصورت سیاسی، علمی اور شعوری خیالات سے مستفید ہوتے۔ چیئرمین منظور بلوچ آخر تک اپنے موقف پر کھڑے رہے مہنگی سے مہنگی پیشکش بھی منظور بلوچ کے ضمیر کو خرید نہیں سکی۔ 30 مئی کو چیئرمین منظور بلوچ کی طبیعت بگھڑ جاتی ہے جس سے چیئرمین منظور بلوچ کو شیخ زید ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا جاتا ہے جسکے بعد چیئرمین منظور میں کرونا وائرس کیتشخیص ہوتی ہے چیئرمین منظور بلوچ کرونا سے لڑتے لڑتے 6 جون 2020 کو سارے شہر کو ویران کرکے خالق حقیقی سے جاملے چیئرمین منظور جسمانی طور پر تو موجود نہیں لیکن روحانی طور پر آج بھی موجود ہیں کیونکہ چیئرمین منظور بلوچ ایک فرد نہیں بلکہ ایک فکر اور نظریہ تھے۔
” ہم نہ زندوں میں ہے اور نہ ہی مردوں میں مگر جن کے مداح زندہ ہیں وہ کبھی نہیں مرتے وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور چیئرمین منظور بلوچ ہمیشہ زندہ رہیں گا”
چیئرمین منظور بلوچ اور بلوچستان کے تمام شہداء اور قائدین کو خراج عقیدتپیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ منظور بلوچ اور دیگر نظریاتی قائدین کی عقیدت، نظریات،فکر اور فلسفہ کو آگے بڑھا کر اس جہد مسلسل کو جاری رکھتے ہوئے ان کے مقصد اور مشن کو پورا کیا جائے۔