آخری کلمات

تحریر: علیشبا بگٹی
زندگی کے سب سے بڑے اسرار میں سے ایک موت ہے، عام معنوں میں بدن سے روح کی جدائی کا نام موت ہے، لیکن موت کی حقیقت مرنے کے بعد ہی انسان پر آ شکار ہوتی ہے اور کوئی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہو گا لیکن اس بات پر سب کو یقین ہے کہ مرنے والے کے آخری الفاظوں میں بڑی سچائی ہوتی ہے۔ موت ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے انسان چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ اس کا کوئی وقت مقرر نہیں لیکن موت بر حق ہے، ایک نہ ایک دن اس کا مزہ ہر بشر کو چکھنا ہے۔ لیکن شاید مرنے والے کو مرنے سے قبل الحام ہو جاتا ہے یا پھر وہ قدرتی طور پر ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جو اس کے گھر والوں، جان پہچان، عزیز و اقارب، دوست احباب یا پھر اگر وہ کوئی معروف شخصیت ہے تو اپنے مداحوں کے لیے کسی نصیحت یا مشعل راہ کا سامان کر جاتی ہیں۔ انہیں زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتاتی یا پھر ان کے لیے عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔ آخری الفاظ کسی مشہور و معروف شخصیات کے ہوں تو یہ صرف ا±س کے اہل خانہ کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے مداحوں کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ان کے چاہنے اور سراہنے والے اسی جستجو میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح جان سکیں کہ جسے وہ آئیڈیلاز کرتے ہیں ان کی زندگی کے آخری لمحات کیسے تھے، انہوں نے کیا کہا، آخری پیغام کیا دیا۔
مشہور لوگ مرتے ہیں، تو ان کے آخری الفاظ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایک شخص کے آخری الفاظ انتہائی چونکا دینے والے بھی ہوسکتے ہیں، جس میں اس شخص کے مجموعی احساسات کی ایک جھلک ملتی ہے۔ ان میں سے کچھ زندگی کے آخری سفر پر روانہ ہونے سے پہلے جشن منانے کی آرزو کرتے ہیں تو کچھ نڈر لوگ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی تقدیر کو آزماتے ہیں اور کسی معجزے کے منتظر رہتے ہیں۔
دنیا سے رخصت ہونے والے مشہور لوگوں کے آخری الفاظ کو عرصہ دراز سے ریکارڈ میں محفوظ کیا گیا ہے۔
علامہ اقبال کا انتقال طویل علالت کے بعد ہوا۔ ان کے آخری وقت کے متعلق تذکرہ نگاروں نے اقبال کے دیرینہ خادم علی بخش کے بیان کو نقل کیا ہے جس کے مطابق علی الصبح علامہ اقبال کے سینے میں درد اٹھا، علی بخش نے اقبال کو سہارا دیا، ”اللہ! میرے یہاں درد ہو رہا.“ کہتے ہوئے اقبال کا سر پیچھے کو ڈھلک گیا اور وفات ہوگئے۔
دوسری جنگ عظیم کے دور میں چرچل برطانیہ کے وزیر اعظم رہے، انہوں نے ادب میں نوبل انعام جیتا تھا، ان کی موت نوے برس کی عمر میں 24 جنوری 1965ءکو ہوئی، موت سے قبل وہ نو دن کومے کی حالت میں رہے۔ کومے میں جانے سے پہلے انہوں نےکہا کہ، ”میں اب ان سب سے بہت بیزار ہوگیا ہوں“۔ اس کے بعد وہ طویل کومے میں رہنے کے بعد بالآخر آنجہانی ہوئے۔
نت نئی اور ایڈوانس ٹیکنالوجی سے بھرپور کمپیوٹرز اور فونز کی معروف کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او اسٹیو جابز جنہوں نے آئی پیڈ اور آئی فون بھی متعارف کرایا۔ ان کی موت 2011ءمیں 56 برس کی عمر میں لبلبے کے کینسر میں ہوئی۔ اسٹیو جابس کی بہن مونا نے ان کے جنازے کی دعائیہ تقریب میں اپنے بھائی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹیو نے علالت کے دنوں میں ایک بار موت کے بارے میں کہا تھا کہ، ”یہ زندگی کی واحد بہترین ایجاد ہے“۔ ان کے آخری الفاظ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ، وہ تعجب کے احساس کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے، وہ کیا احساسات تھے کوئی نہیں جانتا، جس پر وہ خوشیاں منا رہے تھے، ان کی زبان پر دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ”ارے واہ، ارے واہ، ارے واہ“ کے الفاظ تھا۔
سکندر اعظم سے بستر مرگ پر جب پوچھا گیا کہ، ”تمہارے بعد کس کو بادشاہ بنایا جائے“، تو اس نے کہا، ”سب سے طاقت ور کو“ یہ ہی اس کے آخری کلمات تھے۔
جب رومیوں نے یونانی سلطنت کے شہر سائزس پر قبضہ کر لیا تو فوج کو خاص طور پر حکم دیا گیا کہ معروف یونانی ماہر ریاضیات، طبیعات داں اور موجد ارشمیدس کو زندہ گرفتار کیا جائے۔ فوجی ارشمیدس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے دیکھا کہ ارشمیدس زمین پر کچھ دائرے بنا رہا ہے۔ فوجیوں نے ارشمیدس کو اپنے ساتھ جانے پر مجبور کیا، جس کے جواب میں ارشمیدس نے کہنا شروع کر دیا ”میرا دائرہ خراب مت کرو!“ اس پر ایک رومی فوجی نے طیش میں آکر اسے قتل کر دیا۔
گوتم بدھ کے آخری کلمات تھے، ”بھکشوﺅ! یاد رکھنا تمام مرکب مادی اشیا فنا ہو جائینگی، مستعدی اور محنت سے جدوجہد کرنا۔“
چارلز ڈکنز ممتاز برطانوی ادیب تھے۔ فطرت سے محبت اور اس کی منظر کشی ان کے کلام بنیادی موضوع رہا۔ یہ بات مشہور ہے کہ جب برطانیہ میں ریل کی پٹڑی بچھانے کے کام کا آغاز ہوا تو ڈ کنز نے زمین پر آہنی پٹریاں بننے کو پسند نہ کیا، جو ان کی زمین سے محبت کی ایک مثال بن گئی۔ اتفاق دیکھئے۔ جب چارلس ڈکنز اپنے گھر کے قریب چہل قدمی کر رہے تھے اور انہیں دل کا دورہ پڑا۔ انہوں نے سہارا دینے والے افراد سے کہا، ”زمین پر زمین پر“ یعنی زمین پر لٹا دو اور یہ کہتے کہتے ہی وہ عظیم شاعر دنیا سے رخصت ہو گیا۔
مشہور سائنس داں تھامس ایڈیسن کی ایجادات نے اکیسویں صدی میں انسانی زندگی پر بے پناہ اثرات مرتب کیے۔ معروف مو جد جب بستر مرگ پر تھا تو اس کے سامنے کھڑکی کھلی ہوئی تھی وہ یہ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوا ”وہاں کتنی خوب صورتی ہے“ ان کلمات کے مفہوم پر بحث کی جاتی ہے کہ آیا ایڈیسن کھڑکی سے نظر آنے والے منظر کی خوب صورتی کی طرف اشارہ کر رہا تھا یا موت کے بعد کے منظر کا۔
بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے اپنے قتل سے تھوڑی دیر پہلے سکیوریٹی اہل کاروں سے کہا، ”پریشان مت ہو، ریلیکس….“ ان الفاظ کی ادائیگی کے کچھ ہی دیر بعد وہ خودکش حملے میں ہلاک ہوگئے۔
ایلوس پرسیلے کو، کنگ آف راک این رول کہا جاتا ہے، بلاشبہ اپنے عہد کے مقبول ترین گلوکار تھے، ان کی موت 42 برس کی عمر میں 16 اگست 1977 کو ہوئی، آخری لمحات میں انہوں نے کہا ” ٹھیک ہے، میں نہیں کرتا”۔
1999ءسے 2013ءتک وینزویلا کے صدر رہنے والے ہیوگو شاویز 59 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ مرنے سے قبل ان کے آخری الفاظ تھے ”میں مرنا نہیں چاہتا، پلیز مجھے مرنے نہ دو ، مرنے سے بچاﺅ“ تھے۔
امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن جنہوں نے امریکی انقلاب میں فوج کی قیادت کی تھی، ان کی موت 1799 میں 67 برس کی عمر میں ہوئی۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جارج واشنگٹن شدید علیل تھے اور جانتے تھے کہ وہ بچ نہیں سکیں گے۔ انہوں نے اپنی سیکرٹری سے کہا کہ ”میں اب جا رہا ہوں، مجھے باعزت طریقے سے دفنایا جائے اور میرے مرنے کے بعد میری لاش کو تین دن سے زیادہ کفنایا نا جائے، کیا تم سمجھ گئیں، میری موت تکلیف دہ ہے لیکن مجھے جانے کا غم نہیں“۔
ایڈگر پولن انیسویں صدی کے مقبول ترین امریکی مصنفین میں سے ایک ہیں۔ وہ صرف 40 برس جی سکے۔ ان کے آخری الفاظ ”خدا میری روح کی مدد کرنا“ تھے۔
عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماﺅزے تنگ نے مرتے دم کہا ” میں خودکو بیمار محسوس کر رہا ہوں ، ڈاکٹر کو بلاﺅ….“.
معروف سیاح مار کو پولو کے سفر زندگی کا اختتام یہ کلمات کہتے ہوئے ہوا ”میں نے جو کچھ دیکھا اس کا نصف بھی بیان نہیں کیا۔
فرانس کے معروف حریت پسند ادیب والٹئیر کے قریب کھڑا پادری اسے شیطان پر لعنت بھیجنے کی ترغیب دے رہا تھا اس نے پادری کو دم نکلتے نکلتے جواب دیا ”اے نیک ا?دمی! یہ وقت نئے دشمن بنانے کا نہیں“۔
فلسفے اور تفکر کے ماہر ارسطو کے آخری کلمات اس کے مشاہدے اور طرز فکر کو عیاں کرتے ہیں اس نے دم آخر کہا ”قدرت نے کوئی چیز بے کار نہیں بنائی۔“
سائنس داں آئزک نیوٹن نے اس کائنات پر غور و خوض ذریعے جو کارنامے انجام دیئے وہ ناقابل فراموش ہیں، لیکن وہ آخری لمحات میں اپنی ساری جدوجہد کو ان لفظوں میں بیان کرتا ہے ”مجھے نہیں معلوم کہ دنیا کے بارے میں مجھ پر کیا کچھ ظاہر ہوا لیکن میں نے تو سمندر کے کنارے کھیلنے والے اس لڑکے کی طرح اس دنیا کو دیکھا جس کے سامنے حقیقت اور سچائی کا سمندر تھا اور وہ ساحل پرسیپیاں اور خوش نما پتھر تلاش کرتا رہا“۔
وولف گینگ موزارٹ عہد قدیم کے مشہور اور ایک با اثر کلاسیکل موسیقار تھے۔ ان کی موت مختصر علالت کے بعد 1791ءمیں 35 برس کی عمر میں ہوئی۔ موت سے دو گھنٹے پہلے مکمل طور پر بے ہوش تھے۔ انہوں نے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے کہا، ”موت کا ذائقہ میرے ہونٹوں پر ہے، میں جو محسوس کر رہا ہوں وہ اس زمین کا نہیں ہے“ یہ ان کے اخری الفاظ تھے
بیٹ مین کے پرستار دی ڈارک نائٹ کے جوکر کو کبھی نہیں بھول سکتے، جس کا کردار ہیتھ لیجر نے ہی ادا کیا اور نیند کی زیادہ ادویات کے نتیجے میں واقع ہونے والی موت سے قبل اپنی بہن سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ” کیٹی، کیٹی،دیکھو، سب کچھ ٹھیک ہے، تم جانتی ہو مجھے بس کچھ نیند کی ضرورت ہے”۔
امجد صابری قوال کو کراچی میں فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تھا، رپورٹس کے مطابق جب حملہ آوروں نے امجد صابری کی گاڑی پر فائرنگ کی تو انہوں نے چلّا کر کہا کہ ’کیوں مارنا چاہتے ہو مجھے، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

اپنا تبصرہ بھیجیں