ایران میں انقلاب

تحریر: انور ساجدی
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے
سجناں بھی مرجانا
لاہور کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش کا یہ شہرہ آفاق شعر میں مختلف مواقع پر بارہا لکھ چکا ہوں۔آج اسے دوبارہ استعمال کی ضرورت ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر میں سانحہ ارتحال پر پیش آئی۔رئیسی صرف 3سال کچھ ماہ ایران کے صدر رہے۔ان کے انتقال پر پورے ایران میں سوگ منایا جا رہا ہے لیکن کئی مقامات پر کچھ لوگ خوشی بھی منا رہے ہیں۔سب سے زیادہ خوش اسرائیل کی قیادت ہے کیونکہ رئیسی نے غزہ کے مسئلہ پر حماس کی حمایت کر کے اسرائیل سے بڑی دشمنی مول لی تھی نہ صرف یہ بلکہ ایران پہلا ملک ہے جس نے اپنے ڈرون اور میزائلوں کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔اگرچہ اس حملے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا تاہم یہ ثابت ہوگیا تھا کہ ایرانی اسلحہ کی پہنچ اسرائیل تک ہے۔غیر ملکی مبصرین کے مطابق رئیسی ایک کمزور صدر تھے وہ اتنے کمزور تھے کہ ہر بات سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے پوچھ کر فیصلے کرتے تھے۔اپنی صدارت کے دوران انہیں کرد لڑکی مہسہ امینی کی سرکاری تحویل میں ہلاکت کا ردعمل دیکھنے کو ملا جسے رئیسی حکومت نے سینکڑوں لوگ قتل کر کے کچل دیا تھا اور ان کی حکومت بال بال بچ گئی تھی۔64 سالہ رئیسی مقدس شہر مشہد میں پیدا ہوئے تھے وہ چھوٹی خدمات انجام دینے کے بعد مشہد کے متولی مقرر ہوئے تھے۔وہ ایران کی انتہاپسند علماءقیادت سے اتنے ڈرتے تھے کہ اپنا حسب و نسب چھپاتے تھے اور اپنے آپ کو الٹرا نیشنلسٹ ظاہر کرتے تھے۔ان کا حسب و نسب کیا تھا اس پر تحقیقات کی ضرورت ہے۔اسلامی انقلاب کے بعد انہیں مختلف مقامات پر پراسیکیوٹر تعینات کیا گیا وہ انصاف کے بجائے اپنے وجدان کے مطابق سزا دیتے تھے۔انہوں نے ایران کمیونسٹ پارٹی(تودہ) اور سوشلسٹ جماعت مجاہدین خلق کے80 ہزار افراد کو تختہ دار پر لٹکایا۔ایک محتاط انداز کے مطابق انہوں نے سینکڑوں بلوچوں کو بھی کرینوں پر لٹکا دیا۔پھانسی گھاٹ کے بجائے کرینوں پر لٹکانے کی ایجاد مرحوم رئیسی کی ہے کیونکہ پھانسی گھاٹ میں تختہ دار پر لٹکانے کے عمل میں دیر لگتی تھی وہ حسن روحانی کے بعد صدارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ایک مرتبہ الیکشن ہارنے کے باوجود سپریم لیڈر نے ان کا انتخاب کیا۔غیر ملکی مبصرین کی رائے سے قطع نظر انہوں نے چین کی ثالثی پر سعودی عرب سے دوبارہ تعلقات استوار کر لئے۔حماس اور حزب اللہ کی بھرپورحمایت کی بظاہر ہر جگہ امریکہ کو للکارا لیکن درپردہ رابطوں اور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

چند ہفتہ قبل جب وہ پاکستان آئے تھے تو انہیں غیرمعمولی سیکورٹی فراہم کی گئی تھی۔پاکستانی حکام کے مطابق انٹیلی جنس رپورٹس ملی تھیں کہ پاکستان میں قیام کے دوران رئیسی پر جان لیوا حملے ہوں گے۔ان کے دورے کے دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں عام تعطیل کا اعلان کیاگیا تھا۔ایران کے آئین کے مطابق صدر مملکت حکومت کے سربراہ ہوتے ہیں اور تمام امور چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔تاہم سپرلیم لیڈر کو ویٹو پاور حاصل ہوتی ہے جو کسی بھی فیصلے کو رد کرسکتے ہیں۔لہٰذا سپریم لیڈر کی موجودگی میں رئیسی کے چلے جانے سے قیادت کا کوئی خلا پیدا تو نہیں ہوگا لیکن 50 روز بعد تک جب نیا صدر منتخب ہوگا کئی معاملات پر فرق پڑے گا جس سے اسرائیل فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

یہ تو معلوم نہیں کہ ایران نے اپنے ایٹمی اسلحہ کا کولڈ ٹیسٹ کب کیا تھا امکانی طور پر یہ روحانی کے دور میں کیا گیا تھا لیکن اس اوپن سیکرٹ کو آشکار ابراہیم رئیسی نے کیا تھا تاکہ اسرائیل خوفزدہ رہے۔رئیسی نے اپنے جابرانہ ظالمانہ کیرئیر میں ایرانی کمیونسٹ پارٹی اور مجاہدین خلق پرجو مظالم کئے اور قتل عام کا ارتکاب کیا اس کی وجہ سے اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہے۔یہ لاوا اس وقت پھوٹ پڑے گا جب سپریم لیڈر نہیں ہوں گے یا ریٹائرمنٹ لیں گے۔علی خامنہ ای کی عمر اس وقت85 سال سے زائد ہے۔ان کی صحت کو بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔ رئیسی کی زندگی میں کہا جارہا تھا کہ وہ نئے سپریم لیڈر ہوں گے لیکن ان کی موت کے بعد جانشینی ایک نازک صورت اختیار کرسکتی ہے۔ ایک طرف علی خامنہ ای کے صاحبزادہ امیدوار ہیں دوسری جانب طاقتور علماءکونسل اپنے میں سے کسی کو امیدوار بنا سکتی ہے۔جب وہ وقت آئے جو کہ زیادہ دور نہیں ہے تو پاسداران انقلاب اور ایرانی فوج کا اس موقع پر اہم کردار ہوگا۔عالمی مبصرین کے مطابق دونوں فوزسز کے درمیان چپقلش بڑھتی جا رہی ہے جو کسی وقت بھی رنگ لاسکتی ہے۔ایران مشرق وسطیٰ کا اہم ترین ملک ہے اسے جو جو پولیٹیکل فضیلت حاصل ہے وہ خطہ کے کسی اور ملک کو حاصل نہیں ہے۔شاہ کے دور میں یہ امریکا کا علاقائی تھانیدار اور چھوٹو تھا۔اس زمانے میں یہ مشرق وسطیٰ کا سب سے ترقی یافتہ ملک بھی سمجھا جاتا تھا لیکن1979میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں جو اسلامی انقلاب آیا اس نے تباہی پھیلا دی۔پورا ریاستی ڈھانچہ ختم ہو گیا۔ساتھ ہی اسے عراق سے جنگ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ امریکہ سے محاذ آرائی کی وجہ سے اسے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا حتیٰ کہ اس کے تیل کی خریدوفروخت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔اس کے باوجود ایران آگے بڑھتا رہا۔اگرچہ اس کی اقتصادی مشکلات بہت زیادہ ہیں لیکن وہ اکثر شعبوں میں خودکفیل ہوگیا ہے۔اسلحہ سازی میں بھی وہ کافی آگے ہے۔البتہ اس ملک میں جو تہذیبوں کا گہوارہ ہے انسانی بنیادی حقوق اور بذات خود زندگی کو وہ فضیلت حاصل نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ایک آمرانہ اور ظالمانہ نظام مسلط ہے جو آمریت کی بدترین شکل ہے۔نوجوانوں کو اپنی پسند کا لباس پہننے کی اجازت نہیں ہے۔لڑکیوں کو زبردستی سر ڈھانپنے اور برقعہ پہننے کے قوانین نافذ ہیں۔خلاف ورزی پر کڑی سزائیں دی جاتی ہیں۔حکومت مخالف لوگوں کے مقدمات برائے نام چلائے جاتے ہیں اور سخت ترین سزاﺅں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ایران کے عوام کی اکثریت اس صورت حال سے تنگ ہیں۔اس لئے ان کے اندر ایک لاوا پک رہا ہے۔سپریم لیڈر کے رخصت ہونے کے بعد یہاں پر ایک بہت بڑی عوامی تحریک شروع ہونے کا امکان ہے جو ایک اور انقلاب کا موجب بنے گی۔

1953 میں ڈاکٹر محمد مصدق کی قیادت میں عوام نے شاہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا لیکن جلد برطانیہ اور امریکہ نے شاہ کو دوبارہ روم سے لا کر تخت پر بٹھایا تھا۔اسی شاہ کو انتقال کے بعد امریکہ اور تمام یورپی ممالک نے دفن ہونے کی اجازت نہیں دی تھی اور مجبوراً صدر انور سادات نے انہیں قاہرہ میں دفن کروایا تھا۔ایران مختلف زبان اور نسلوں کا ملغوبہ ہے۔اس میں سب سے زیادہ بالادستی ترک نسل کے آذری لوگوں کو ہے تمام اہم عہدوں پر یہی لوگ فائز ہیں جبکہ بلوچ،کرد اور اہواز کے عرب کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ان کی حیثیت رعایا اور غلاموں جیسی ہے۔دیکھیں کہ ایران میں آئندہ کتنے عرصہ میں تبدیلیاں آئیں گی اور یہ تبدیلیاں خطے میں کیا رنگ دکھائیں گی؟۔

مسلم لیگ ن کی حکومت نے آزادی صحافت پر پابندی کے لئے ایک بل پنجاب اسمبلی سے منظورکروایا ہے۔یہ ہتک عزت سے متعلق قانون ہے جس کا اطلاق الیکٹرانک سوشل اور پرنٹ میڈیا پر ہوگااگرچہ یہ بل کہیں اور سے تیار ہو کر آیا ہے لیکن ن لیگ نے اس گھنٹی کو اپنے گلے میں باندھ کر اپنے لئے رسوائی کا سامان پیدا کیا ہے۔سنا ہے کہ عمران خان کے دور میں آزادی صحافت پر قدغن کے لئے جو پیکا قانون نافذ کیا گیاتھا ن لیگی حکومت اس میں بھی ترمیم لا کر اس کی سیاہی اپنے چہرے پر ملنے والی ہے اس کے باوجود کہ ہتک عزت کے قوانین پہلے سے موجود تھے اور پیکا آرڈیننس بھی نافذ تھا۔نئے قوانین کا مقصد آمریت کو دوام دینے کے سواکچھ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی دوسری بڑی پارٹنر پیپلزپارٹی بھی پراسرار طور پر خاموش ہے۔اگر پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ یہ قانون صرف ن لیگ کے کھاتے میں جائے گا تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔فریڈم آف پریس کا گلا گھونٹنے میں پیپلزپارٹی کو بھی مکمل شریک جرم گردانا جائے گا۔ویسے ملک کے عجیب وغریب حالات ہیں ایک طرف مقتدرہ اور عدلیہ باہم متصادم ہیں۔سیاسی پارٹیاں بھی آپس میں گتھم گتھا ہیں جس کی وجہ سے شدید قسم کا سیاسی عدم استحکام، عدالتی بے چینی اور حکومتی بد انتظامی پیدا ہوگئی ہے۔اگر یہی حالات رہے تو کوئی بہتری نہیں آئے گی۔حکومت کو اور کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے تو وہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا رہی ہے۔

حال ہی میں وزیر توانائی نے عندیہ دیا ہے کہ جو لوگ کمرشل بنیاد پر سولر کا استعمال کر رہے ہیں ان پر فکس ٹیکس لگایا جائے گا۔اس اقدام کا مقصد کاشتکاروں کو نقصان پہنچانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔حکومت نے پہلے ہی زائد فصلوں کو دھتکار کر زمینداروں کو زندہ درگور کر دیا ہے۔سولر پر ٹیکسوں کے نفاذ سے لوگ کاشتکاری کا شعبہ ہی چھوڑ دیں گے جس کی وجہ سے ایک سال بعد حکومت کو گندم،کپاس اور دالیں باہر سے منگوانا پڑیں گی ایسی فہمیدہ اورسنجیدہ حکومت اور کہاں ملے گی؟۔

اپنا تبصرہ بھیجیں