ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی خوش گمانیاں

تحریر : انور ساجدی
ریاست ان کی اپنی ہے، سیاست ان کی اپنی ہے اور طاقت بھی اپنی ہے لہٰذا ان کی جو مرضی کریں جس طرح چاہیں زور بازو آزمائیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ریاست کے جو گھمبیر مسائل ہیں وہ کہاں تک حل ہوسکیں گے ۔ کئی دنوں کی کامیاب آزمائش کے بعد انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے والا فائر وال کا تجربہ کامیاب رہا، البتہ کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ سلو انٹرنیٹ کی وجہ سے سافٹ ویئر کا کام کرنے والے جو فری لانسر تھے ان کے کروڑوں ڈالر کے آرڈر کینسل ہوگئے جبکہ ہر طرح کا لین دین بری طرح تباہ ہوا۔ جس کی وجہ سے کئی سرمایہ دار یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ ایسے ممالک کا رخ کریں جہاں انٹرنیٹ پر کوئی قدغن نہیں۔ اندازہ کیجئے کہ دنیا 5 جی سے آگے پہنچ گئی ہے اور پاکستان اس صدی کے اوائل میں چلا گیا ہے اور دوبارہ ہنڈی اور دیگر مینوئل ذرائع فروغ پارہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے خلاف پروپیگنڈے کا جواب دینے سے قاصر ہے اور اپنی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ حالانکہ حکومت کے پاس وسائل بہت زیادہ ہیں لیکن حکومت کو چلانے والے لوگ نااہل ہیں وہ جدید ڈیجیٹل دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں او ران کے پاس ایسے ماہرین کی کمی ہے جو حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کا جواب دے سکیں۔ اگرچہ حکومت کا فیصلہ ہے کہ 8فروری کے انتخابات جیتنے والی پارٹی تحریک انصاف کو دیوار سے لگا دیا جائے اور عمران خان کو درس عبرت بنا دیا جائے لیکن اس مقصد کے لئے رائے عامہ کو کیسے ہموار کیا جائے گا یہ کسی کو نہیں معلوم۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جہاں آمریت ہو، قانون کی حکمرانی نہ ہو اور آئین کو فوقیت حاصل نہ ہو تو عوام کی رائے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا اور آمرانہ اور جابرانہ سوچ کے تحت کوئی بھی قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ اعزاز ہماری ریاست کو حاصل ہے کہ کل کے ہیرو آج کے غدار۔ مثال کے طور پر جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو ہائی جیکر قرار دے کر عمر قید کی سزا سنادی لیکن اسی نواز شریف کو 2013 کے ہائبرڈ انتخابات میں کامیاب قرار دے کر حکومت میں لایا گیا۔ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ 2014 میں چہیتا تبدیل کردیا گیا اور عمران خان کو منٹو پارک لاہور کے جلسہ کے ذریعے لانچ کیا گیا اور نواز شریف کو گرانے کیلئے دھرنا دیا گیا۔ 3سال بعد نواز شریف کو پانامہ کیس میں پھانس کر قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ 2018 میں پلان کے مطابق عمران خان چہیتا بن گیا جبکہ آج کل وہ قیدی نمبر 804 کی حیثیت سے اڈیالہ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ 9مئی، توشہ خان اور دیگر درجنوں مقدمات کے ذریعے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائیگا لیکن ابھی تک عدلیہ نے ان کا ساتھ دیا ہے جبکہ تیاری ہوچکی ہے کہ موجودہ عدلیہ کے ایک حصے کا بندوبست کیا جائے تاکہ عمران خان کو ملنے والا ریلیف بند ہوجائے۔ دراصل یہ پنجابی اشرافیہ کے درمیان اختیار و اقتدار کی جنگ ہے یہی وجہ ہے کہ تمام ادارے منقسم ہیں۔ اگر عمران خان کا تعلق وزیرستان یا بلوچستان سے ہوتا تو وہ مچھ یا میانوالی جیل میں اپنے آخری انجام سے دوچار ہوچکے ہوتے لیکن پنجابی ایلیٹ کا بڑا حصہ ابھی تک ان کے ساتھ ہے۔ اس ایلیٹ کا ایک حصہ لوہاروں اور دوسرا کمہاروں پر مشتمل ہے۔ اس منقسم اشرافیہ میں میراثیوں، بھانڈو اور مسخروں کے طبقات بھی شامل ہیں۔ وہ بھی منقسم ہیں، میراثیوں کا سب سے بڑا طبقہ وہ ہے جسے آج کل صحافی یا اینکر کہا جاتا ہے۔معلوم نہیں کہ اس لڑائی کا نتیجہ کتنی دیر میں نکلے گا لیکن آنے والا نومبر بہت اہم ہے اگر میاں شہباز شریف اور مریم بی بی نے توسیع دینے کا فیصلہ کرلیا تو سمجھو کہ عمران خان کی سیاسی طاقت ڈوب جائے گی اگر کوئی اور تبدیلی آئی تو شریف خاندان کے اقتدار کا سورچ غروب ہوجائیگا۔ یہ جو اقتدار ہے یہ بات درست نہیں کیونکہ شریف خاندان فرنٹ مین کا کردار ادا کررہا ہے اور وزیراعظم محض شو بوائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کوئلہ کے کاروبار میں پیپلز پارٹی نے بلا وجہ رو سیاسی قبول کرلی ہے غالباً سندھ حکومت سے دستبرداری قبول نہیں ہے اور نہ ہی زرداری کے خلاف مقدمات کا ایک بار پھر سامنا کرنا ہے اس لئے پیپلز پارٹی پرانی تنخواہ پر نوکری کررہی ہے۔ زرداری کا بھلا اسی میں ہے کہ سندھ حکومت چلتی رہے، کھربوں کا بجٹ ان کے تصرف میں رہے تاکہ وہ وڈیرے ، پیر سردار اور سید اس کی پشت پر قائم رہیں جو اس بجٹ سے مستفید ہورہے ہیں۔
نواز لیگ کو پنجاب میں وزراعت اعلیٰ اور مرکز میں اختیارات کے بغیر حکومت دے دی گئی ہے۔ یہ حکومت نہ صرف ان کے لئے گوشہ عافیت کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ گزارا کا شاہانہ ذریعہ بھی ہے ورنہ شریف خاندان جاتی امراءکے 2ہزار ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے سے عاجر آجائے جو کروڑوں روپے بنتے ہیں۔ 2002 میں چوہدری شجاعت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جاتی امراءکی جاگیر کے تمام ملازمین پنجاب حکومت کے ملازمین کی حیثیت سے کام کریں گے اور یہ روایت آج تک برقرار ہے۔
8فروری کے بعد سے جو ٹیک اوور ہوا اس پر شہباز شریف کو قطعاً کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ان کے لئے اتنا کافی ہے کہ لوگ کہیں کہ وہ وزیراعظم ہیں۔ باقی ان کی بلا سے کہ خارجہ امور کون چلا رہا ہے ، داخلی سیاست کس کے کنٹرول میں ہے، معیشت کون ہینڈل کررہا ہے۔ پختونخواہ اور بلوچستان میں کون اقتدار میں ہیں۔ مسلم لیگ نے کمپرومائز کرکے گورنر شپ کا منصب حاصل کیا ہے اور انہیں امید ہے کہ ایک دن بلوچستان کا گورنر بااختیار ہوجائیگا جس طرح کہ رئیسانی کے ہٹانے کے بعد ذوالفقار مگسی ہوئے تھے ۔ لیکن یہ محض خواب و خیال ہیں کیونکہ آئین میں گورنر راج کی گنجائش بہت کم ہے اور اس کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے ہاتھوں میں ہے۔ اوپر سے صدر زرداری ہیں اگر انہیں تبدیلی لانا ہوئی تو امیدواروں کی لمبی لائن موجود ہے۔ ظہور بلیدی کب کے تیار بیٹھے ہیں اور صادق سنجرانی بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ایک خوش گمانی یہ ہے کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اصل میں اس حکومت کی صرف اونر شپ پیپلز پارٹی نے قبول کی ہے اس کے اختیارات نام کی حد تک ہیں۔ اور کون نہیں جانتا کہ سیکورٹی کے مخصوص حالات کے تناظر میں یہ رسک نہیں لیا جا سکتا کہ بلوچستان اور فاٹا کو کسی سیاسی حکومت کے حوالے کیا جائے۔ مستقبل قریب میں حالات خاص کروٹ لینے کے لئے تیار ہیں۔ ایسی صورت میں سیاسی حکومتوں کا کام یہ ہوگا کہ وہ بلند و بانگ دعوے کریں، بڑے بڑے بیانات جاری کریں اور کچھ ہورہا ہو اس کی اونرشپ اپنے حصے میں ڈالیں۔ صاف ظاہر ہے کہ معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے بلکہ تمام معاملات کو سیکورٹی نقطہ نظر سے ہینڈل کیا جارہا ہے۔ اس صورت حال میں بات چیت اور مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ اگر ڈاکٹر صاحب نے مذاکرات کئے تو اکیلے ہی کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں