نوراکشتی

تحریر: انور ساجدی
ملکی معاملات خاصنہج کی جانب جارہے ہیں حکومت اور اسکے سرپرست اعلیٰ طاقت اختیار اوراقتدار کے عروج پر ہیں میراذاتی خیال ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کو اکثریت کے باوجود جوشکست ہوئی وہ نوراکشتی تھی شہبازشریف اور بلاول چیخ رہے تھے کہ انہیں بولنے نہیں دیا گیا غیرقانونی طریقہ سے بل پاس کئے گئے کوئی ان سے پوچھے کہ انکے36اراکین اجلاس سے کیوں غیرحاضر تھے اگریہ موجود ہوتے تو حکومت کو26ووٹوں سے شکست ہوجاتی لیکن جان بوجھ کراپنے اراکین کوغائب کیا گیا تاکہ آمرانہ بل منظور ہوجائیں اور کرپشن کے مقدمات سے انکو ریلیف مل جائے جب سے یہ اقلیتی حکومت بنی ہے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا کردار مشکوک ہے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہو یا متواتر حکومتی بلوں کی منظوری ہو ہرمرتبہ اپوزیشن کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ہزیمت اٹھانے کے بعد دونوں جماعتوں کے اکابرین نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے14منحرف اراکین کا کھوج لگاکرانکے خلاف کارروائی کریں گے لیکن اسکی نوبت آج تک نہیں آئی کیونکہ زرداری اور شہبازشریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ14ارکان نے انکی مرضی سے سرکاری امیدوار کو ووٹ دیا تھا اسی طرح دونوں جماعتوں سے آنکھیں بند کرکے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی تھی اب جبکہ 5بلوں کے پیش ہونے کے موقع پر حکومت کو شکست کاسامنا تھا تو شہبازشریف نے یہ شکست فتح میں تبدیل کردیا۔یہ ایک طرح سے خودکشی ہے جس کا مقصد آئندہ 3برس تک حکمران جماعت کو ”واک اور“ دینا ہے تاکہ وہ اپنی مدت پوری کرسکے پیپلزپارٹی کی مجبوری یہ ہے کہ وہ سندھ حکومت کھونا نہیں چاہتی لیکن ن لیگ کی مجبوری اسکے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ شہبازشریف منی لانڈرنگ کے معاملات میں گردن تک پھنسے ہوئے ہیں کسی طرح سے اپنی گلوخلاصی کرواسکے اور حکومت پردباؤرہے کہ وہ عوام کودکھانے کیلئے شورشرابہ تو کرے لیکن نوازشریف کوواپس بلانے کیلئے کوئی ٹھوس کارروائی نہ کرے۔
جوحالات ہیں اپوزیشن کی اے پی سی نشتند گفتندد برخاستند کے سوا کیا نتائج دے سکتی ہے مولانا کو چاہئے کہ وہ دونوں جماعتوں کی قیادت سے بطور گارنٹی قومی اسمبلی کے اراکین کا استعفیٰ لیکر جیب میں رکھ لیں اور اپنا ایجنڈا بناکر حکومت کو پیش کریں ورنہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کریں اگر ن لیگ اور پیپلزپارٹی اس پر آمادہ نہ ہوئے تو اپوزیشن کو3سال تک بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا چاہئے اورپارلیمنٹ میں شورشرابہ کرکے اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اپوزیشن کا حال ہے اسکے پیش نظراگرحکومت چاہے تو صدارتی نظام لانے کا بل بھی آسانی کے ساتھ منظور کرواسکتی ہے اور دونوں نام نہاد بڑی جماعتیں اپنا منہ کالا کرنے میں زیادہ ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیں گی موجودہ عہد کے شریف الدین پیرزادہ وزیرقانون فروغ نسیم کو داد دینی چاہئے کہ انہوں نے سینیٹ میں اقلیت ہونے کے باوجود بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاس کروانے کا نسخہ ایجاد کرلیااگر فروغ نسیم یہ بل بنائیں کہ موجودہ حالات میں پارلیمانی نظام ناکام ہوچکا ہے لہٰذا ملک میں صدارتی نظام نافذ کیاجائے تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ بل آسانی کے ساتھ منظور ہوسکتا ہے عجیب بات ہے کہ عمران خان کی اکثریت 10ووٹوں سے قائم ہے اور اپوزیشن کم مائیگی اور بے چارگی کی شکار ہے کیونکہ وہ نہ اسپیکر اور نہ ہی وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب کرنے کی پوزیشن میں ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے نہایت سنجیدگی سے پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹنے پرغوروفکر کررہے ہیں یہ ایسی ریاست ہے کہ یہاں پر آرمی چیف جنرل پرویز مشرف وردی سمیت صدر منتخب ہوچکے ہیں اگرآئندہ بھی ضرورت پڑی تو یہ تجربہ کامیابی کے ساتھ دوہرایا جاسکتا ہے کیونکہ اپوزیشن مزاحمت یارکاوٹ بننے گی۔طاقت نہیں رکھتی جہاں تک 1973ء کے آئین کا تعلق ہے تو اس میں بنیادی تبدیلیاں لانا نسیم فروغ کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے اس آئین میں جہاں فیڈریشن کا ذکر ہے اسے ہٹانا پڑے گا وزیراعظم کی جگہ صدرکانام آئیگا صوبے برقراررہیں گے وہاں پر گورنر اورانکی کابینہ وزرائے اعلیٰ کی جگہ لے گی جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے لئے صدرکا عہدہ رکھا تھا جبکہ وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے لیکن طرز حکمرانی وحدانی تھی غالباً اوپر کی سطح پر یہ خیال موجزن ہے کہ موجودہ طریقے سے ملک کو چلانا ممکن نہیں ہے وزیراعظم بارہا کہہ چکے ہیں کہ وزیراعلیٰ ڈکٹیٹر کی شکل اختیار کرچکے ہیں رضا ربانی نے18ویں ترمیم کے تحت وزرائے اعلیٰ کی برطرفی کی کوئی دفعہ نہیں رکھی ہے بلکہ وزیراعظم کو بھی عدم اعتماد کے سوا ہٹایا جانا ناممکن ہے چونکہ ملکی وسائل کازیادہ حصہ صوبوں کو چلاجاتا ہے اس لئے حکمرانوں کے خیال میں اس سے مرکز کمزور ہورہا ہے کیونکہ سلامتی کیلئے درکار وسائل دستیاب نہیں ہیں اگر وحدانی طرز کا نظام قائم ہوجائے تو مرکز صوبوں کا محتاج نہیں ہوگا بلکہ اپنی ضروریات پہلے پورا کرے گا۔اگرچہ ملک وحدانی اور صدارتی نظام کی وجہ سے دولخت ہوا لیکن مقتدر حلقے اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں وہ جنرل ایوب خان کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں اور بارہا یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ایوب خان کے دور میں پاکستان ایشیاء کا سب سے ترقی یافتہ ملک تھا حالانکہ یہ دعویٰ غلط ہے البتہ ایوب خان نے صنعتی ترقی کی شروعات ضرور کی تھیں لیکن ان کے تمام 10سالہ دور میں گندم اور اشیائے خوردونوش کی قلت تھی اور عوام راشن کارڈ کے ذریعے ضروری اشیاء حاصل کرتے تھے موجودہ حکمران ایوب خان کے دور کو امن وامان کے حوالے سے بھی مثالی قراردیتے ہیں لیکن ملک کے پہلے لسانی فسادات اس دور میں ہوئے تھے ایوب خان کی ترقی کا یہ نتیجہ نکلا کہ1965ء کی جنگ میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مزید جنگ سے بچنے کیلئے معاہدہ تاشقند پردستخط کرنا پڑے یحییٰ خان نے1970ء کے عام انتخابات کے نتائج رد کردیئے جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا اسکے باوجود صدارتی نظام اور وحدانی طرز کی وکالت سمجھ سے بالاتر ہے بات کسی بھی نظام کی ناکامی کی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ آپ اس نظام کو کس طرح چلاتے ہیں مثال کے طور پر اس وقت کاغذوں پر پارلیمانی نظام چل رہا ہے لیکن اصل میں وحدانی طرز اختیار کرلیا گیا ہے وزیراعظم بااختیار اورخودمختار نہیں ہیں صدرکا عہدہ نمائشی ہے وزیراعظم صرف فیصلوں پر انگوٹھا ثبت کرنے کی ڈیوٹی دے رہے ہیں اظہاررائے پرجتنی قدغن آج ہے کسی سابقہ دور میں نہیں تھی اب تو آزادانہ تبصروں اور حکومت کے ایک حصے پر تنقید کوجرم قراردیا گیا ہے۔ادارے بغیروارنٹ کے کسی بھی شخص کو گرفتار کرسکتے ہیں اور 6ماہ تک اپنی تحویل میں رکھ سکتے ہیں سوشل میڈیا کی توڑ بھی نکال لی گئی ہے قابل اعتراض پوسٹوں پرایف آئی آر درج کرکے مطلوب افراد کو حراست میں لیاجاسکتا ہے بلکہ پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کیخلاف تو غداری تک کامقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔مسلم لیگ ن کے ایک فدائی صحافی سہیل وڑائچ کی کتاب مارکیٹ سے اٹھالی گئی ہے حالانکہ کتاب کے مندرجات قابل اعتراض نہیں البتہ سرورق قابل برداشت نہیں انہوں نے اپنے پرانے کالموں کو جمع کرکے کتاب مرتب کی ہے جس کا نام ”یہ کمپنی نہیں چلے گی“ رکھا گیا ہے کیا کریں مسئلہ یہ ہے کہ سہیل وڑائچ کی خواہش کے برعکس کمپنی نہ صرف چل رہی ہے بلکہ خوب چل رہی ہے بلکہ بیرون ملک بھی پھل پھول رہی ہے۔کتابوں پرپابندی تو ایوب خان،ضیاء اور یحییٰ خان کے دور میں لگتی تھی اسکے بعد یہ روایت ختم ہوگئی تھی لیکن موجودہ حکومت نے یہ قدیم روایت عین جمہوریت کے عروج میں دوبارہ رائج کردی ہے اس حکومت نے پہلے مرحلے میں پرنٹ میڈیا کا وہ حال کردیا جو وزیراعظم زیادتی کے مجرموں کاکردینا چاہتے ہیں اب تو ٹی وی چینلوں کابھی یہی حال ہے جبکہ سوشل میڈیا پرمتحرک ہونے والوں کیخلاف کارروائی بھی شروع کردی گئی ہے اگرموجودہ حکومت نے معاشرے کے تمام شعبوں کو”آختہ“ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تو انہی کے دور میں خواجہ سراؤں کی اکثریت ہوجائے گی اور کوئی اس قابل نہیں رہے گا کہ حکومت پر تنقید کی جرأت اورجسارت کرسکے ویسے سہیل وڑائچ کو شکر ادا کرناچاہئے کہ وہ ذات کے جٹ ہیں اگر سندھی یا بلوچ ہوتے تو کتاب کی جگہ خود اٹھ جاتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں