حقیقت پسندی سے کام لیا جائے
آج کل پاکستان میں پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے بحث جاری ہے۔یہ بحث کبھی مختصر اور کبھی طویل وقفوں سے بار بارشروع ہوتی ہے اور کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو جاتی ہے۔لیکن اس بار متعلقہ فریق سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔امید کی جا سکتی ہے کہ کسی نتیجے کے قریب پہنچ جائے گی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی معیشت خراب ہوتے ہوتے بدترین مقام تک پہنچ گئی ہے۔سیاست اور معیشت پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ سیاست کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ معیشت کے تابع ہوتی ہے۔جس ملک کے حکمران معاشی طور پرخود انحصاری کی بجائے دوسروں سے قرضے لے کر جینے کا عادی ہو جائیں اسے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔قرض دینے والے اپنی شرائط بھی منواتے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال وزیر اعظم عمران خان کو ایک قرض دینے والے(مسلم برادر) ملک(سعودی عرب) کی جانب سے ملائیشیا میں منعقدہ مسلم ممالک کانفرنس میں شرکت سے روکنا تھی۔اس کے ساتھ اپنا دیا گیا قرض واپس مانگنے کی دھمکی جڑی ہوئی تھی۔یہ روح کو جھنجھوڑنے والی مثال پاکستانی عوام کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئی ہے شائد دیر تک یہ نقش مٹ نہیں سکے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کانفرنس کی دعوت دینے والوں میں پاکستان کے وزیر اعظم شامل تھے۔ اگر پہلے کی جانے والی بے عزتی بھلا دی جائے تب بھی اس تھپڑ کی ٹیسیں دیر تک بے چین رکھیں گی۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ قرض دینے والے مسلم، برادر اور دیرینہ تعلقات کے حامل ملک کے تھپڑ کی ٹیسیں تمام سیاست دان اپنے گال پر محسوس کرتے۔اپنی گروہی اور فروعی رنجشیں بھلا کرپارلیمنٹ میں سب اکٹھے ہو جاتے، اس لئے کہ یہ بے عزتی پی ٹی آئی کے چیئرمین کی نہیں،پاکستان کے وزیر اعظم اور 22کروڑ عوام کی ہوئی تھی۔ اس تھپڑ سے تمام سیاست دانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیئے تھیں۔دکھ اور تکلیف سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ذلت آمیز رویہ کا سیاست دانوں نے کوئی باوقارجواب نہیں دیا۔
کیا ہمارے سیاست دان یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کو قدرت نے وافر مقدار میں وسائل عطا کئے ہیں؟ پاکستانی عوام باصلاحیت، محنتی اور جفاکش ہیں اگرانہیں مسلسل نظر انداز نہ کیا جاتاان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں، ہماری ترجیحات درست ہوتیں اور ہمارے حکمران(سیاست دان اور بیوروکریسی دونوں)ذاتی مفادات کی خاطرمل کر لوٹ مار میں اندھوں کی طرح نہ لگ جاتے تو معیشت اتنی بدحال نہ ہوتی کہ سعودی عرب جیسے پسماندہ ملک کے حکمران پاکستان کو اپنا غلام سمجھنے کی غلطی کرتے۔کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستانی انجنیئرز نے مختصر مدت میں معیاری اور کم قیمت وینٹی لیٹرز تیار کر کے ثابت کر دیا کہ دنیا کے کسی ملک سے کمتر نہیں۔وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے اطلاع دی ہے کہ پاکستان نے ڈائیلیسز کے مریضوں کے لئے بھی ایک پورٹیبل مشین تیار کر لی ہے۔ جو بہت جلد مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔میڈیکل کے معیاری آلات تیار کرنے میں سیالکوٹ نے دنیا بھر میں اپنی ساکھ قائم کی ہے۔عالمی معیار کے فٹبال بھی یہیں تیار کئے جاتے ہیں، بلکہ اولمپک گیمز میں کھیلنے کے لئے پاکستانی فٹبال کا انتخاب سیالکوٹ کے کاریگروں اور محنت کشوں کے لئے ایک اعزاز ہے۔بلوچستان کے وسائل سے آج تک قومی جذبے سے استفادہ کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔نیم دلانہ اقدامات سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ورنہ لائیو اسٹاک(بھیڑ، بکریوں، اونٹوں کے علاوہ گائے،بھینسوں)کی افزائش سے خوشحالی اور ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی تھیں۔ماہی گیری کی سرپرستی نہ صرف جفاکش ماہی گیروں کو مالی مشکلات سے نجات دلاتی بلکہ صوبے اور ملک سے پسماندگی دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی۔غیر ملکی ٹرالرزکی آمد صوبے کے وسائل پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ماضی میں اس مسئلے کو حل کرنے والوں کا سانس بہت جلدی پھول گیاتھاراستے سے لوٹ آئے تھے۔اب مضبوط نیوی ان غیرقانونی ٹرالرز کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے۔
سیاست دان اگر پارلیمنٹ کی بالادستی میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اپنی جدوجہد کا آغاز پارلیمنٹ کے اندراوراپنی ذات سے کرنا ہوگا۔اپنے لئے از سرِ نوایک ضابطہئ اخلاق تیار کرنا ہو گااس لئے کہ پرانا ضابطہ مطلوبہ مقاصد پورے کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔تمام خرابیوں کی جڑذاتی مفادہے ذاتی مفاد اور عوامی مفاد کے درمیان واضح حد فاصلہ رکھی جائے جسے عبور کرنا آسان نہ ہو۔انتخابی قوانین کو سادااورعام فہم بنایا جائے۔انتخابی عمل کم خرچ اور شفاف ہونا چاہیئے تاکہ دھاندلی کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے،یہ کام ووٹ دینے کا عمل کمپیوٹرائزڈ بنا کر انجام دیا جا سکتا ہے۔لیڈر آف دی ہاؤس کے لئے”سلیکٹڈ“اور لیڈر آف اپوزیشن کے لئے”چور“ جیسی گالی کا استعمال ممنوع اور قابل سزا جرم قرار دیا جائے جس کی کم سے کم سزاموجودہ سیٹ کا فوری خاتمہ اور تین انتخابات کے نااہلی ہو۔ اس کے بغیر پارلیمنٹ کا وقار بحال نہیں ہو سکتا۔ماضی کی غلطیاں پارلیمنٹ، عدلیہ اور مسلح افواج جیسے تمام اداروں سے سرزد ہوئیں۔اگر مارشل لاء لگانا جرم تھا تو اسے قانونی قرار دینے والی عدلیہ اور چیف لارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی کابینہ میں وزارتیں حاصل کرنے والے سیاست دان بھی اتنے ہی مجرم سمجھے جائیں جتنے مارشل لاء لگانے والے سمجھے جا رہے ہیں۔ڈکٹیشن دینا اور ڈکٹیشن لینا یکساں نوعیت کے جرائم ہیں، ڈکٹیشن لینے والے کوئی دودھ پیتے بچے نہیں تھے کہ انہیں زلزلہ متأثرین کی طرح کسی یتیم خانے بھیج دیا جائے۔ مناسب ہوگا حقیقت پسندی سے کام لیا جائے۔جو ہو چکا سو ہو چکا۔ماضی کی غلطیوں کا ماتم کرنے اور زاروقطار آنسو بہانے کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھا جائے۔ ریاستی ذمہ داری نباہنے کے لئے تمام اداروں کی حدود پہلے سے قائم کی گئی ہیں، کسی تبدیلی کی ضرورت ہے تو پارلیمنٹ باہمی مشاورت اور اپنی صوابدید سے طے شدہ پروسیجر کے مطابق تبدیل کرنے کی مجاز ہے۔ خطرات سرحدوں پر منڈلا رہے ہیں،22کروڑعوام کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے باوقار اور دانشمندانہ راستہ اختیار کیا جائے۔تماشہ نہ لگایا جائے۔


