بے بس بلوچستان اورکوروناوائرس

تحریر:یوسف عجب بلوچ
دنیا میں تقریبا ڈیڑھ سو سے زاہد ممالک کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں اور پوری دنیا میں خوف کا عالم ہے۔ احتیاطی تدابیر کے لیے کہی ممالک اور شہر لاک ڈاون ہوچکے ہیں۔چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی وائرس سے اب تک دو لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر اور نو ہزار کے قریب لوگ موت کا شکار ہوچکے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس کے مطابق گزشتہ سات دنوں میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں تیزی نظر آئی ہے کیونکہ کورونا کے ٹیسٹ اور متاثرین کو قرنطینہ میں رکھنے میں تیزی نظر نہیں آرہی۔ڈاکٹر کے مطابق اس وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے ٹیسٹ اور قرنطینہ نہایت ضروری ہیں کیونکہ دنیا کے دیگر ممالک میں کورونا وائرس سے اموات چین میں ہونے والے اموات سے بڑھ گئی ہیں۔
دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور موجودہ وقت میں یہ تعداد300 سے زائدہوچکی ہیں صوبہ سندھ میں اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کچھ ذیادہ ہی ہے کیونکہ موجودہ وقت میں سندھ کے کیسز کی تعداد 189، خیبر پختونخواہ میں 19، بلوچستان میں 45، گلگت بلتستان میں 13، اسلام آباد میں 7، اور پنجاب میں 26ہیں۔ جبکہ سندھ کا الزام ہے کہ تفتان بلوچستان سے سکھر آنے والے اب تک 143 افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ جن کو بلوچستان میں بہتر طریقے سے سکریننگ کیے بغیر روانہ کردیا گیا تھا۔تفتان سے اب تک ہزاروں زیادہ زائرین جن کا تعلق صوبہ سے تھا، کو بسوں کے ذریعے سکھرپہنچا دیا گیا۔
آپ اسے بلوچستان حکومت کی مجبوری، بے بسی، غیر سنجیدگی یا بد انتظامی کا نام دیں یا کچھ اور کہہ دیں کہ اب تک جس محتاط انداز سے جو اقدامات اٹھانے چاہیے تھے وہ نہیں ہوسکے۔ 5000سے زائد زاہرین اور دیگر افراد کو ایک ساتھ قرنطینہ کا نام دیکر ٹینٹوں میں رکھا گیا اسی طرح صرف تین سو ٹیسٹنگ کٹس کی مددسے ہی متاثرین کو چیک کیا جارہا ہے جو ناکافی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بہت سے لوگ تفتان سے قرنطینہ لگنے سے پہلے اور بعد میں بغیر ٹیسٹ کے وہاں سے نکلنے یا بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اسی طرح کوئٹہ میں قرنطینہ میں بھی وہ انتظامات اور سہولیات نہیں جوکہ اس وائرس کو قابو کرنے یانہ پھیلنے میں مددگار ثابت ہوسکے۔ حتی متاثرین کے ٹیسٹنگ کے لیے کوئٹہ میں فراہم کی گئی ماسک اور دیگر ا دویات بھی پرانے پائے گئے ہیں جو کہ ایک او ر سنجیدہ مسئلہ ہے۔کوئٹہ اوردیگر علاقوں میں ضروری انتظامات اور سہولیات نہ ہونے کے سبب کسی بھی شخص میں وائرس کی موجودگی کی صورت میں یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ دوسرے افراد متاثر ہونے سے بچ سکیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زائرین کو اول ایران میں ہی روکا جاتا اور ایران کو اپیل کی جاتی کہ وہ ان کی سکریننگ کرے اور سکریننگ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ان کو پاکستاں داخل کیا جاتا اور مکمل سہولیات کے ساتھ قرنطینہ میں تفتان میں رکھا جاتا یا ان کو روکے بغیر ان کے صوبوں کی طرف روانہ کردیا جاتا۔ کیونکہ بلوچستان میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ان حالات میں ہزاروں افراد کا بوجھ اٹھا نا غیر سنجیدگی ہے۔
اس وقت کوئٹہ میں واقع قرنطینہ میں ایک ہزار کے قریب افراد موجود ہیں جوکہ ایرا ن، عراق اور شام سے ہوکر آئے ہیں مگر اب تک بلوچستان حکومت کے ساتھ ایسی سہولیات کی کمی ہے جن کی مدد سے اس مرض کی تشخیص کی جاسکے۔ اور تمام قرنطینے ٹینٹوں میں قائم ہیں اور ٹینٹوں میں تمام لوگوں کا ایک ساتھ رہنا اس وائرس کو پھیلانے میں تیزی پیدا کرسکتا ہے۔ کوئٹہ شہر میں دیگر صوبوں کے لوگوں کے لیے کسی قرنطینہ کی ضرورت نہیں تھی یہ عمل صرف ایک اور مصیبت کو دعوت دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یوں پاک افغان سرحد پر بھی خیمہ بستی کی صورت میں ایک قرنطینہ قائم کردیا گیا ہے مگر سرحد کی بندش بھی تاخیر کا شکار رہا ہے کیونکہ ایرا ن کے متاثرین کا افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں داخل ہونا خارج از امکان نہیں۔
چین کے بعد کورونا وائرس سے سب سے ذیادہ متاثر ہونے والا ملک ایران ہے اور وائرس سے متاثر افراد بلوچستان میں آسانی سے داخل ہوسکتے ہیں۔ ان کے داخل ہونے کے راستے نہ صرف تفتان یا پاک افغان چمن بارڈر ہوسکتے ہیں بلکہ یہ بھی مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے کہ بلوچستان میں پنجگور، تمپ اور مند سے روزانہ سینکڑوں افراد کی آمد رفت ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے کورونا وائرس بڑی تیزی اور آسانی سے پھیل سکتا ہے۔ اسی طرح نوشکی کے افغانستان سے ملتے سرحدوں جن میں ڈاک، انام بوستان، زاوہ چا، شیر شاہ اور اسیچا شامل ہیں کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ انہی راستوں کے ذریعے افغانستان یا ایران کے متاثرین بلوچستان میں بہت جلد اور بنا کسی سکریننگ کے داخل ہوسکتے ہیں۔
اسکے ساتھ ساتھ اگر لوگوں کو آگاہی دینے کی بات کی جائے تو کہی اضلاع میں ذمہ دار ان صرف تصویر بنانے کی حد تک ہی محدود ہیں لوگوں کو آگاہی دینے کا اہم ذریعہ اس وقت صرف انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہے مگر قلات سے لیکر تربت اور بلوچستان کے چند دیگر علاقوں میں انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں کیونکہ گزشتہ تین سالوں سے ان علاقوں کو تھری جی انٹرنیٹ صرف کہ بندش کا سامنا ہے۔ ان علاقوں میں معلومات کے تبادلے کے ذرائع صرف ٹی وی اور اخبارات ہیں جن کی دسترس بہت ہی محدود ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں سرحدات کو ہر قسم کی آمدو رفت کے لیے بند کی جائے تاکہ اس وائرس کو مزید پھیلنے کا موقع نہ مل سکے صوبے میں قائم قرنطینہ مراکز میں صحت اور ٹیسٹنگ سسٹم کی تمام سہولیا ت فراہم کی جاہیں۔قرنطینہ میں موجود افراد کو باہر نکلنے نہ دیا جس طرح کہ تفتان میں ہوا جہا ں مراکز میں رکھے گئے افراد آسانی سے آ جا سکتے تھے۔ طبی اور دیگر سہولیات کی فراہمی میں وفاق کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔اسی طرح اس خطرناک وائرس سے بچنے کے لیے لوگوں کے درمیان آگاہی مہم کو مقامی زبانوں میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور انٹر نیٹ کے ذریعے مزید تیز کیا جائے، لوگو ں کو باخبر اور آگاہ رکھنے کے لیے بلوچستان میں انٹر نیٹ کی بندش کا خاتمہ کیا جائے۔ ضلعوں میں موجود صحافیوں، لکھاریوں اور سماجی رضا کاروں اور اداروں کی مدد سے لوگوں کو آگاہی دینے کی مہم میں تیزی لائی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں