دعااور دوا

تحریر: انور ساجدی
ممتازعالم دین طارق جمیل نے شب معراج پر اے آر وائی چینل پر نہایت رقت آمیز دعا کرائی وہ اس موقع پر زاروقطار رورہے تھے اور اینکروسیم بادامی کی آنکھیں بھی نم تھیں اپنی دعا میں وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہے تھے کہ اس نے نازک موقع پر ایک ایسا لیڈر عطا کیا ہے جو ایماندار،دیانتدار اورپرخلوص ہیں انہوں نے انکی کامیابی کی دلدوز التجا بھی کی چند روز طارق جمیل نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اس موقع پر دونوں رہنما کرونا وائرس کے خوف سے ایک دوسرے کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کررہے تھے حالانکہ گزشتہ سال جب دونوں ملے تھے تو کافی دور سے بانہیں وا کئے حضرت طارق جمیل دیوانہ وار تیز قدم اٹھاتے ہوئے عمران خان کی جانب بڑھ رہے تھے دونوں نے بہت ہی گرم جوش معانقہ کیا غالباً مولانا طارق جمیل واحد عالم دین اور اسلامی اسکالر ہیں جنکے تعلقات وزیراعظم سے بہت قریبی ہیں اور انہوں نے وزیراعظم کے ریاست مدینہ کے آئیڈیا کی حمایت کی تھی چند روز قبل ایک اور عالم دین جناب غامدی کہہ رہے تھے کہ حضورﷺ نے جو ریاست قائم کی تھی اس کا نام مدینہ پر نہیں تھا اور نہ ہی اسکے بعد کسی ایسی ریاست کا وجود تھا انکے مطابق شروع میں اسلامی حکومت کی عملداری صرف 8مربع کلومیٹر تک محدود تھی اس حقیقت کے باوجود وزیراعظم کی جانب سے ریاست مدینہ کے قیام اور طارق جمیل کی جانب سے اسکی حمایت ایک سیاستدان اور ایک عالم دین کی سیاسی شراکت داری کے سوا اور کچھ نہیں ہے پہلی جنگ عظیم کے بعد جب عرب دنیا میں سلطنت عثمانیہ کیخلاف بغاوت ہوئی تو نجد کے سردار ابن سعود اور عالم دین ابن وہاب کے درمیان اسی طرح کی شراکت داری ہوئی تھی۔1932ء سے جب ملک حجاز کا نام ابن سعود کے نام پرپڑا تھا آج تک یہ پارٹنر شپ ایک طرح سے قائم ہے شب معراج کو طارق جمیل نے جو کچھ کہا ناقدانہیں ایک درباری ملاکا نام دے سکتے ہیں حالانکہ بظاہر طارق جمیل کسی جاہ وطلب عہدہ یا دولت سے بے نیاز نظرآتے ہیں۔لیکن حکومت کی طرفداری سے لگتا ہے کہ وہ ضرور کسی مشاورت یاعہدے کے طلبگار ہیں عمران خان کیلئے اتنے بڑے عالم دین کیلئے کوئی عہدہ تلاش کرنا کونسا مشکل ہے انہیں مذہبی امور کا مشیر لگایا جاسکتا ہے اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ بنایا جاسکتا ہے۔حج اور عمرہ کی الگ وزارت بناکر انہیں اس پر متمکن کیاجاسکتا ہے اگر مولانا کوعمر اور کیریئرکے اس حصے میں دولت کی طلب ہوئی تو وزیراعظم کیلئے انکی یہ خواہش پوری کرنا بھی بہت آسان ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولانا پہلی مرتبہ کسی سیاسی حکومت کی حمایت کس بنیاد پر کررہے ہیں۔عمران خان اگرچہ ایک قدامت پسند سیاسی رہنما ضرور ہیں لیکن دین کی رغبت ان میں بددرجہ اتم موجود نہیں ہے سابقہ دور میں ایک مرتبہ مولانا نوازشریف سے ملنے کیلئے رائے ونڈ ضرور گئے تھے لیکن انہوں نے ظاہری طور پر نوازشریف کی ایسی حمایت نہیں کی جو وہ عمران خان کی کررہے ہیں خیرزرداری کے تو وہ بہت خلاف تھے کیونکہ زرداری میں عمران خان اورنوازشریف جیسی خوبیاں موجود نہیں تھیں اگر مولانا ایک مرتبہ رداری کوقریب سے دیکھتے تو سب کو بھول جاتے کیونکہ طارق جمیل جیسے علماء کی قدر زرداری سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کی مثال سامنے ہے زرداری نے دل لگاکر ان کی جو خدمت کی وہ کبھی نہیں بھول سکتے۔مولانا طارق جمیل کی عمران خان کی قربت مخالفین کو ایک آنکھ نہیں بھاتی دو روز سے سوشل میڈیا پر کرونا وائرس کے باوجود مولانا کو لیکر طوفان مچاہوا ہے حتیٰ کہ انکو علمائے سومیں بھی شامل کیاجارہاہے۔
بعض ناقد
امام اعظم حضرت ابوحنیفہ کے اس
قول کا حوالہ بھی دے رہے ہیں کہ
جو علماء دربار کے چکر لگاتے ہوں
سمجھوکہ وہ علماء سو ہیں
یہ تاثر اس لئے ابھرا کہ شب معراج کی دعا میں انہوں نے وزیراعظم کیلئے جو کلمات کہے وہ دل میں بھی کہہ سکتے تھے یہ بانگ د ہل کہنے سے خوشامد کاتاثر ابھرتا ہے اور سوال یہ ہے کہ انہیں حاضر سروس حکمران کی خوشامد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں کرونا وائرس ایران سعودی عرب اور اٹلی سے داخل ہوئی غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق عمرہ سے45ہزار تفتان کے راستے71ہزار اور دیگر ممالک سے 40ہزار لوگ واپس آئے سوشل میڈیا پر ایک ٹی وی پروگرام وائرل ہے جس میں معروف شیعہ مقرر اور مبلغ خانم طیبہ بخاری تسلیم کررہی ہیں کہ انہوں نے تفتان بارڈر کھولنے کیلئے وزیراعظم کے معاون خصوصی ذوالفی بخاری سے سفارش کی تھی انہوں نے بارڈر کھولنے کاوعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کل یہ امور وہ دیکھ رہے ہیں ذولفی بخاری کو لیکر ن لیگ کے رہنما پہلے سے الزام لگارہے تھے کہ انہوں نے تفتان بارڈر کراسنگ کو ووہان بناکر تباہی کی بنیاد رکھ دی خدا کرے کہ کرونا کی وبا جلد ختم ہوجائے اور کم سے کم جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑے اگر خدانخواستہ ایران یااٹلی کے پیمانے کی تباہی آئی تو ذوالفی بخاری کبھی اپنا دامن نہیں چھڑاسکیں گے جبکہ بادی النظر میں عمران خان کی پوری حکومت ہی اسکی ذمہ دار ٹھہرے گی ایک دفعہ خدا وبا سے نجات دلائے تو دوبارہ سیاسی حساب کتاب ہوگا اور اس حساب کتاب میں جناب عمران خان سخت گھاٹے میں رہیں گے کیونکہ وہ اپنے دعوؤں کے مطابق ڈیڑھ سال تک کوئی تبدیل نہیں لاسکے اب جبکہ کرونا نے تباہی پھیلادی ہے تو وہ عوام اور اپنے سرپرستوں کے ہاں مزید اوپن ہوگئے ہیں انہوں نے جاندار قیادت فراہم کرنے کا جو دعویٰ کیا تھا وہ بھی زمین بوس ہوگیا ہے نہ صرف یہ بلکہ انکے طرز عمل سے خود انکی دو صوبائی حکومتیں بھی عاجز آگئی ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے انکار کے باوجود پنجاب اور پشتونخوا حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا فوج بھی طلب کرلی اوروزیراعظم سے پوچھا تک نہیں وزیراعظم نے یہ جاننے کی کوشش تک نہیں کی چین نے بحران پر کیسے قابو پایا حالانکہ چینی قیادت نے حالیہ دورے کے دوران وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو بتادیا تھا کہ انہوں نے40دن تک لاک ڈاؤن کرکے وبا پر قابو پایا لیکن شاہ محمود چین سے واپسی پر گھر میں چوہے کی طرح چھپ کر بیٹھ گئے اور یہ تک نہیں بتایا کہ چین کا پیغام کیا ہے لگتا ہے کہ وزیرخارجہ کوقوم سے زیادہ اپنی جان عزیز ہے گوکہ لاک ڈاؤن بہت ہی تکلیف دہ اور مشکل عمل ہے لیکن22کروڑ خلق خدا کو بچانے کیلئے اسکے سوا کوئی چارہ نہیں اٹلی اور ایران نے جوغیرسنجیدگی دکھائی اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
سندھ حکومت نے جو کرکے دکھایا اس میں اس کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ18ویں ترمیم کا کمال ہے اگر یہ ترمیم موجود نہ ہوتی تو صدر58ٹوبی کے تحت ابتک سندھ حکومت برطرف کرچکے ہوتے یہ خیال بھی ذہن میں آتا ہے کہ اگر18ویں ترمیم 1971ء میں موجود ہوتی تو پاکستان دولخت نہ ہوتا شیخ مجیب الرحمن کا تو مطالبہ تھا کہ مرکز چار محکمے رکھے باقی صوبوں کے حوالے کئے جائیں آج مرکز کے پاس صرف چار محکمے ہیں یعنی 1۔دفاع،2۔خارجہ امور،3۔خزانہ،4۔مواصلات۔
مواصلات بھی کافی حد تک آزاد ہے اس مطالبہ پر شیخ مجیب کو غدارقرار دیا گیاتھا آج اگر18ویں ترمیم پرمکمل عملدرآمد کیاجائے تو یہ قرارداد لاہور کی روح کے عین مطابق صورتحال ہوگی پاکستان کے عوام کوتاریخ مسخ کرکے بتایا جارہا ہے کہ23مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹوپارک میں جو قرارداد منظور ہوئی تھی اس کا نام قرارداد پاکستان تھا حالانکہ مشرقی بنگال کے لیگی رہنما مولوی اے اے کے فضل الحق سے جو قرارداد پیش کی تھی وہ قرارداد لاہور تھی اس میں انگریز سرکار سے مطالبہ کیا تھا کہ ہندوستان کی جن ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں انکو کامل خودمختاری دی جائے گوکہ آج مشرقی بنگال پاکستان کاحصہ نہیں اور یہ بنگلہ دیش بن چکا ہے لیکن باقی چار ریاستیں 18ویں ترمیم کے بعد ازروئے آئین خودمختار ہیں یہ الگ بات کی مرکزی طاقتیں یہ ترمیم تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔جہاں تک 23مارچ کو یوم پاکستان قراردینے کاتعلق ہے تو پہلی مرتبہ یہ کام ایوب خان نے کیا اگر یہ یوم پاکستان ہوتا تو بانی پاکستان خود یا پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان 23مارچ کو یوم پاکستان قراردیتے ایوب خان نے تاریخ مسخ کرکے جو نصاب بنایا وہ آج تک پاکستانی بچوں کو پڑھایاجارہا ہے بہر حال حکمران زورآور ہیں انکی جو مرضی کریں وہ ہر خاص موقع پر مختلف لوگوں کواستعمال کرتے ہیں ابتداء میں مولانا شبیر احمد عثمانی کام آئے۔ایوب خان نے تولیہ فیکٹری کا پرمٹ دے کر مولانا احتشام الحق تھانوی کواستعمال کیا وہ اپنے وقت کے مولانا طارق جمیل تھے کوئی تقریب چاہے وہ نکاح کیوں نہ ہو انکے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔ضیاء الحق نے تو بے شمار علماء کو شوریٰ کارکن بناکر سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جنرل پرویز مشرف کو اور کوئی نہیں ملا تو قبلہ عامر لیاقت کو وزیرمذہبی امور بناکر استعمال کیا بہر حال یہ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں طارق جمیل کی صورت میں ایک شاندار مبلغ وعظ اور اعلیٰ پایہ کاخطیب ہاتھ لگاہے مستقبل میں اس حکومت کو مولانا کی اثرانگیز دعائیں ہی کامیابی دلاسکتی ہیں ورنہ اسکے پلے اور کچھ نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں