ضمیرِ کا سودا یا سیاسی بے وفائی

تحریر۔۔۔حضوربخش قادر
کچھ لوگ امیدوں پر امید کرتے ہیں اور زندگی کے اس دشوار گزار سفر میں دوسروں کو خوش رکھنے کیلئے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ایک بوڑھے شخص سے گزشتہ روز تربت میں ملاقات ہوئی تو اس نے مجھ سے پوچھا الیکشن کب ہورہیں میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو الیکشن سے کیا واسطہ تو اس معمر شخص نے جواب دیا کہ جب الیکشن مہم ہونگی تو کوئی آکر ہمیں سلام کرے گا حال گیری کرے گا دو سالوں سے وفات پا نے والے رشتہِ داروں کی تعزیت کرے گا میں نے اس سے پوچھا آپ نے گزشتہ الیکشن میں کس کو ووٹ دیا تھا تو اس نے بتایا کہ خواہش تو تھی کہ شاہ صاحب کو ووٹ دوں مگر جب ووٹ کاسٹ کرنے گیا تو ووٹ بکس کے سوراخ کو دیکھنے میں بہت دشواری پیش آئی اور بہت کوششوں کے باوجود اس سوراخ کو دیکھ نہ پایا الیکشن بوتھ کے اندر اکیلا تھا اور مجھے اپنے ضمیر کا فیصلہ خود اپنے ہاتھوں سے کرنا تھا مگر آنکھوں نے ساتھ نہ دیا اور بہت کوشش کے باوجود اس ووٹ بکس کے سوراخ کو نہ دیکھ پایا اور پریشانی کی حالت میں ووٹ کی پرچی کو ہاتھ میں تھام کر پولننگ اسٹیشن سے باہر نکل گیا اور خوفزدہ تھا کہ کہیں سیکورٹی والے اس امانت کی خیانت پر گرفتار نہ کریں مگر کسی نے ہاتھ چیک نہ کئے یہ راز آج ڈھائی سال بعد آپ سے شیئر کررہا ہوں مگر قصور آنکھوں کا بھی نہیں اس سوراخ کا ھے جو دکھائی نہ دیا اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ الیکشن مہم کے بعد کامیاب امیدوار کی مانند الیکشن بکس کے اس سوراخ کی ھے جو ہم جیسے بوڑھے لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے مگر قصور ہمارے آنکھوں کا ھے کانوں کا ھے دل اور دماغ کا ھے کہ ہم اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں انہوں نے کہا میرا یہ چھونپڑی نما مکان میرے والدین کا تھا اب میں اس میں رہائش پزیر ہوں سنا تھا کہ حکومت غریبوں کو گھر بناکر دے گی مگر عمر کے آخری حصے میں ہمیں اس دنیا میں گھر کی ضرورت ہے اگر حکومت گھر بناکر بے گھر افراد کو دے تو اچھی بات ہے انہوں نے کہا کہ میری عمر 80 سال سے زائد ھے منہ میں دانت بھی نہیں ہم کیا کھا سکتے ہیں حکومت اور علاقے کے ارکان اسمبلی کو چاہیئے کہ سب سے پہلے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں پینے کا پانی ہسپتال میں علاجِ و ادوایات کی سہولیات روڑ بجلی،پانی سکول اور دوسرے روز مرہ زندگی کی سہولت فراہم کرے مگر آج کل لوگوں کو ان سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے پینے کے پانی، صحت، بجلی، روڈ، زراعت کے شعبے سے وابستہ کاشتکاروں کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہماری جوانی کے دور میں ایک حکومت آئی تھی وہ روٹی کپڑے مکان کا نعرہ لگارہے تھے ایک حکومت آئی وہ نعرہ لگارہے تھے قرض اتارو ملک سنوارو موجود حکومت نے بھی گھر بنانے اور این آر او ختم کرنے کا کہا ہے مگر ہر طرف مہنگائی ھے ڈھائی سال قبل 40 کلو گرام آٹے کی قیمت چودہ سو روپے تھی اب 2600 ہے اسی طرح چینی کی قیمت 60 روپے تھی اب 120 ھے اس بوڑھے شخص نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان شاید اچھے اور مخلص وزیر اعظم ہیں مگر اس کی ٹیم اور مشیروں نے مہنگائی کو اتنا بڑھا دیا کہ اب کنڑول نہیں ہورہاہے کچھہ وزیر و مشیر وہی پرانے چہرے ہیں جو ہر حکومت میں شامل ہوکر اقتدار کے مزے لیتے ہیں ان کو خود آٹے گھی اور چینی وغیرہ کے نرخ معلوم نہیں تو یہ مہنگائی پر کیسے کنڑول کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت مہنگاہی بڑھانے کے ساتھ ساتھ تنخواہوں اور پنشن کو بھی بڑھاتی تو اچھا تھا انہوں نے بتایا کہ نوجوان بے روزگار ہیں روز گار سفارش پر دی جاتی ہیں اس معمر شخص نے بتایا کہ میرے دو نواسوں نے میٹرک پاس کیا ہے مگر ان کو چپراسی تک کی پوسٹ نہیں دی جاتی میں نے اس شخص کو بتایا نوجوانوں نے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی ھے وہ بے روزگار گار ہیں اس دورمیں نشہ عام ہے نوجوانوں کی زندگی تباہ ہورہی ہے اور ہزاروں نوجوان اور ایج ہوگئے ہیں تو اس نے پوچھا یہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کیا ہوتا ہے ہمارے پاس اپنے بچوں (نواسوں)کو میٹرک تک تعلیم دینے کی گنجائش تھی اور بس مگر اس کے باوجود ہم نے ضمیر کا سودا نہ کیا البتہ سیاسی پنڈتوں کی بے وفائی برداشت کی ھے اس نے اس بات پر آہ نکال کر خاموش ہو گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں