بلوچستان کی شاہرائوں پر موت کا رقص

تحریر عامر باجوئی

بلوچستان میں قومی شاہرائوں پر موت کا رقص جاری ہے گزشتہ برسوں میں بلوچستان میں قبرستانوں نے بھی ان سیاست دانوں کی کرپشن سے توبہ کرنے لگی ہیں ایک ہی گھر میں تین تین لاشیں بہن روئے تو کس بھائی کے لئے، ماں کس بیٹے کی خاطر آنسوں بہائے بلوچستان کی قومی شاہراہ پر شہداء کے لواحقین کے آنسوں تو ختم ہوگئے لیکن حادثات میں مرنے والے کی تعداد میں کمی نہ آئی۔
سال 2020ء بلوچستان میں سیاست کرنے والوں کے لئے ایک عبرت سال رہا ہے سال 2021 کے ابتداء نے بھی اس شاہراہ کی تعریف میں کوئی کثر نہیں چھوڑا، سال کے پہلے روز ہی اس خونی شاہراہ نے لوگوں کی خون سے نئے سال کا جشن منایا ایک ہی خاندان کے کئی زندگیاں اس شاہراہ نے چھین لی سوشل میڈیا پر یہاں پر ہونے والے حادثات کے ویڈیو دیکھنا اپنی جگہ ان حادثات کے بارے میں سن کر انسان کا جسم کانپتا شروع ہوجاتا ہے فیس بک و دیگر ویب سائٹس پر ان حادثات کی ویڈیوز اپلوڈ ہی نہ ہورہے ہیں
روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے حادثات میں ریسکیو ٹیموں نے بروقت کارروائی کرکے اہم کارنامے سرانجام دیئے ہیں ریسکیو آپریشن کرنے والے اداروں میں ایدھی فاؤنڈیشن پاک نیوی کوسٹ گارڈ لیویز فورس پولیس اور مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں نےحصہ لیا کراچی کوئٹہ و کراچی گوادر قومی شاہراہوں پر آئے روز کئی حادثات پیش ہوئے ہیں ان حادثات میں سینکڑوں انسانی جانیں بھی ضائع ہوئے ہیں قومی شاہراہ ڈبل رویہ کرنے کے لئے عوامی حلقوں کی جانب سے کئی بار قومی شاہراہ کو بلاک کردیا گیا لیکن حکومت کی جانب انسانی جانوں کا ضائع ہونے پر کوئی اقدام نظر نہیں آرہا۔ الیکٹرونک میڈیا نے بھی ہمیشہ کی طرح بلوچستان کی لال خون کو کوریج دینے سے انکار کردیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ یہ پسماندہ لوگ ہیں یہاں پر میڈیا نہیں ہے ارے بھائی میڈیا ورکزر ہیں میڈیا ہائوسز بھی ہیں لیکن وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرح آپ نے بھی یہاں کے عوام کو پسماندہ کا نام دیکر انکے جزبات سے کھیلنے کی کوشش کی ہے اسی طرح وفاقی حکومت کی جانب سے بیس سال پہلے کی بنائی گئیں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تیار ہونے سے اب تک ان شاہرائوں پر تعمیراتی کام جاری ہے ہر مہینے میں بارش سے ایک پل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے پھر اس پل کو بنانے کے لئے چھ مہینے ٹینڈر کرنے میں وقت لگتا ہے ریپیرنگ کا کام پورا سال جاری و ساری ہے حکومت اس شاہراہ کو ریپئر کرنے کے لئے کروڑوں روپے ادا کرتا ہے لیکن یہاں کے مقامی ذمہ داران اس کثیر رقم کو کرپشن کی نظر کردیتے ہیں اب تو سننے میں آرہا ہے کہ اس قومی شاہراہ کو ڈبل رویہ کرنے کے لئے بھر پور کوششوں کے بعد ڈبل کرنے کے اعلانات بھی ہوگئے ہیں لیکن این ایچ اے و دیگر حکام اس خبر سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔
کئ دفعہ ضلعی انتظامیوں کی جانب سے گاڑی مالکان کی خلاف کارروائی بھی کی گئ ہے عدالتوں میں یہ کیس بھی جاری ہے کہ کچھ بس کمپنی مالکان رولز کی خلاف ورزی کرکے روٹ پر سفر کرنے والی دوسرے گاڑیوں کو پریشان کر رکھا ہے ان کمپنی ڈرائیورز نے روٹ ہر تیز رفتاری آور ٹیک کرتے نظر آتے ہیں المحمود بس کمپنی کے ڈرائیورز نے اس معاملہ میں تو حد کردی ہے کمپنی کے خلاف کاروائی کرکے تمام تر رجسٹریشن ختم کردی گئی تھی اس کمپنی کو کراچی کوئٹہ قومی شاہراہ پر سفر نہ کرنے نوٹس بھی جاری کردیا گیا تھا لیکن مزکورہ کمپنی نے دولت کا استعمال کرکے کیا اور احکامات جاری کرنے والوں کے خلاف عدالت کا رخ کرلیا اسی طرح کیس جاری ہونے سے بسیں دوبارہ شاہراہ پر سفر کرنے سے بحال ہوگئے اگر دیکھا جائے تو اس سے قومی شاہراہ پر سفر کرنا انتہائی مشکل اور ہمت جا کام ہے اس کی خاص وجہ بغیر لائسنز اور لا آگاہی ہے اگر ان ڈرائیوز کے پاس لائسنز ہو بھی تو انہوں نے کبھی لائسنز آفس کا رخ نہیں کیا ہے بس بیٹھے بیٹھے ان ڈرائیورز کو لائسنز مل جاتا ہے ،ہونا یہ چاھئے کہ یہ خود حاضر ہوں اس کے بعد ان سے رولز کے کے بارے میں سوالات ہونے چاہئے کہ رش میں کس طرح سامنے والے سے رابطہ رکھنا ہے میں اکثر سفر کرتا ہوں سفر کے دوران ڈرائیور حضرات سے گپ شپ کے دوران رولز بھی معلوم کرتاہوں کہ سامنے والا یہ لائیٹ کا اشارہ دیکر کیا کہا۔۔۔۔۔یا کیا ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ لیکن اکثر ڈرائیوز الٹا اشارہ بھی دیتے ہیں جس سے حادثات کا سبب پیش ہوتا ہے دوسری جانب آج کل زمباد گاڑی والے جو مسافر گاڑیوں سے بھی دولت کی ہوس میں زیادہ تیز رفتار ہوتے ہیں ایک تو انکا اسٹرینگ بھی کلینڈر سائیڈ کی طرف ہے جب کسی گاڑی کو پیچھے کی طرف سے کراس کرتے ہیں تو سامنے سے ڈرائیور کو کچھ نظر نہیں آتا کہ کیا آرہا ہے کیا نہیں۔یہاں تک ڈرائیور حضرات کی بھی کافی غفلتیں ہیں۔دوسری جانب ٹریفک پولیس کا کردار بھی کسی تعریف کے محتاج نہیں کراچی کوئٹہ قومی شاہراہ پر ٹریفک پولیس کا کردار بھی زیرو بٹہ زیرو ہے ضلع قلات و مستونگ میں ٹریفک پولیس کی گاڑیاں ہی جگہ پر جھنڈ کی شکل میں نظر آتے ہیں نہ جانے یہ لوگ کا مختلف جگہوں پر پھر یہ لوگ ایک ہے جگہ پر کیوں نظر آتے ہیں یہاں پر بھی دال میں ضرور کچھ کالا ہوسکتا ہے ضلع سوراب سے لسبیلہ تک ٹریفک پولیس کا نام نشان تک نہیں جہاں ڈرائیورز گاڑیوں سے اپنی طاقت کا ہوس نکالتے ہیں یہ ایریا بھی خطرناک موڑ و پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے زیادہ تر حادثات اسی ایریا میں ہوتے ہیں مانا کہ حادثات تو جدید ملکوں میں بھی ہوتے ہیں یہ قدرت کی طرف سے ہے لیکن ایک انسان کی فطری عمل ہوتا ہے اس کے علاوہ ان حادثات کا سبب مقامی افراد بھی ہیں جو شہروں اپنے قصبوں تک سفر کرتے نظر آتے ہیں انکا مسئلہ یہ ہے کہ مسافروں سے زیادہ یہ جلد باز کرتے ہیں موٹر سائیکلوں پر سوار منچلے بائیک پر رقص کرتے نظر آتے ہیں لمبے روٹ روٹ پر سفر کرنے والے گاڑیوں پر آور ٹیک کرتے ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ صرف ایک کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ان حادثات کی روک تھام کی خاطر کچھ کریں بلکہ یہ وفاقی ذمہ داران سے ہم سب کا حق بنتا کہ اس قومی شاہراہ کو دو رویہ کیا جائے اس کے ہم ڈرائیورز کو بھی رولزفالو کرنے چاھئے قومی شاہراہ کو دو رویہ کرنے کے لئے عوامی حلقوں نے ہر پیلٹ فارم جنگ لڑی ہے کئی بار شاہراہ کو بند بھی کردیا گیا ایک دن تو دو روی /ڈبل ضرور کرنا ہے حکومت کو تو اس سے بہتر ہے کہ جلد سے جلد کریں شاہد کوئی دو وقت کی روٹی کےلئے مر نہ جائے کئی اس کے بچے کھانے کے نوالے کے لئے انتظار نہ کرے بچے تو بچے ہوتے ہیں انکو کیا معلوم لاش کیا ہوتا ہے بس کہانا اور ابو کا مسکرانا چاھئے مگر رونے والے بھی کم نہیں ہونگے ایسے بھی معاملات اس قومی شاہراہ پر ہوئے ہیں کہ حکومت کی غفلت سے حادثہ میں جاںبحق کے لواحقین کے ساتھ رونے کے لئے اس شاہراہ موت پر سفر کرو اور لوگ اآپ کے پیچھے رونے لگے اللہ سب خیر و آفیت کی زندگی عطاء فرمائیں آمین!.

اپنا تبصرہ بھیجیں