بلوچستان میں انٹر نیٹ سروس کی بندش۔۔۔؟

یوسف عجب بلوچ
دور جدید میں انٹرنیٹ کی سہولت کسی ہر شعبہ زندٖگی کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے او ر اسکی دستیابی کسی نعمت سے کم نہیں مگر بلوچستان پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح خوش نصیب نہیں اور بلوچستان کے کہی اضلاع کو گذشتہ تین سالوں سے موبائل انٹرنیٹ کی بندش کا سامنا ہے۔ موجودہ وقت میں کیچ، پنجگور، قلات، سوراب اور آواران مکمل طور پر تھری جی، فور جی، اور پی ٹی سی ایل کی ای وی او کی سہولت سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر محروم ہیں نہ صرف یہ بلکہ ان اضلاع میں پی ٹی سی ایل کی طرف سے فراہم کی گئی انٹر نیٹ کی سہولت بھی مہنگی اور غیر معیاری ہے۔
تعلیم، کاروبار اور صحافت سمیت دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں انٹر نیٹ رابطہ اور رسائی کا ایک اہم ذریعہ ہے تعلیمی میدان میں دنیا بھر میں لوگ تحقیقی مراحل اور مضامین میں مد د حاصل کرنے اور آن لائن پڑھنے کے لیے انٹر نیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ہا ئیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کے بعد درجنوں یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسسز کا آغاز کردیا ہے۔ اسی طرح گورنر سیکرٹریٹ کوئٹہ کے ترجمان کے مطابق HEC نے کرونا وائرس کے باعث یونیورسٹیوں کی بندش کے پیش نظر آن لائن ٹیچنگ پالیسی گائیڈ لائن بھی جاری کردی ہے اور اس ضمن میں صوبہ بھر کی تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو فوری طور پر آن لائن کلاسز کو شروع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مگر بلوچستان کے جن اضلاع میں انٹر نیٹ کی سروس بند ہے یا اسکی سروس غیر معیاری ہے ان اضلاع میں سینکڑوں طلبا و طالبات آن لائن کلاسسز لینے سے محروم رہیں گے۔ جس سے انکی تعلیمی سرگرمیوں پر گہرا اثر پڑے گا۔
بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے صحافی بھی انٹر نیٹ کی غیر معیاری ہونے اور بندش سے خبریں اور دیگر رپورٹس بروقت پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں اسی طرح آن لائن صحافت سے منسلک صحافی بھی اپنا کام بہتر طریقے سے انجام نہیں دے پاتے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر کرونا وائرس سے لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے انفرادی طور پر موبائل انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کی سہولت ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی تھی مگر لوگوں کو معلومات دینے کے لیے مقامی اور ملکی سطح پر کام کرنے والے غیر سرکاری اور سرکاری ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ گذشتہ تین سال سے جن جن اضلاع میں انٹر نیٹ اور خاص طور پر موبائل انٹر نیٹ کی فراہمی بند ہے وہاں طلبا تنظیموں، سماجی اداروں اور سیاسی تنظیموں کے بارہا مطالبہ کے باوجود اب تک انٹرنیٹ کی سہولت بحال نہیں حتی کہ ممبر قومی اسمبلی سید محمود شاہ اور سینٹر کبیر محمد شہی نے کہی بار اسمبلی اور سینٹ میں اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی مگر ان کی یہ کوششیں راہیگاں نظر آتی ہیں۔
لاک ڈاون کی وجہ سے بلوچستان میں لاکھوں لوگ گھروں میں محصور ہونے پر مجبور ہیں جن میں ایک بڑی تعداد اجرت پر کام کرنے والوں کی ہے ان کی کفالت کے لیے حکومتی دعووں کے مطابق راشن کی تقسیم کا کام شروع کردیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کے ذریعے مستحقین کی مالی کفالت کا اعلان بھی کیا گیا ہے مگر بلوچستان میں مقامی طور پر لوگوں کو آگاہی دینے والے رضاکاروں اور خود مستحقین کو اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔ لوگوں کو اس حوالے سے آگاہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کا سہارا لیا جارہا ہے مگر بلوچستان میں جن علاقوں میں انٹر نیٹ نہیں وہاں لوگوں کو اس حوالے سے کوئی خبر نہیں اور یہ امید بھی نہیں کی جاسکتی کہ لاک ڈاون کے دوران فاقے کرنے والے لوگ مالی تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں۔
موجودہ حالات کو مد نظر رکھ کر لوگوں کو آگاہی دینے، مالی طو پر مدد کرنے اور طلبا و طالبات کو تعلیمی میدان میں معاونت فراہم کرنے کے لیے موبائل انٹر نیٹ کی بحالی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے جس کے لیے ذمہ دار اداروں کو اس کا احساس ہونا چاہیے تاکہ پہلے سے ہی پسماندگی کا شکار بلوچستان مزید پسماندہ ہونے سے بچ سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں