کرونا پہ سیاست

تحریر:انورساجدی

ساری دنیا کرونا کی وجہ سے پریشان ہے لیکن پاکستان میں اسکو لیکر خوب سیاست ہورہی ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت میٹنگوں پہ میٹنگ کررہی ہے اور کچھ نہیں کررہی ہے تمام اسپتالوں کے اوپی ڈیز بند ہیں جو لوگ دل گردہ اورشوگر کے امراض میں مبتلا ہیں وہ کہاں جائیں اگر اس طرح کی صورتحال جاری رہی تو کرونا سے زیادہ دیگرامراض میں مبتلا لوگ مرجائیں گے۔
ملک میں کہیں ٹائیگر فورس کاچرچا ہے کہیں آٹے، چینی کے اسکینڈل کو لیکر شورمچایاجارہا ہے کسی کو کرونا کی سنگینی کااحساس نہیں ہے غیر سنجیدگی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت ڈھونڈ ڈھونڈ کر ساری دنیا سے کرونا کے مریضوں کو پاکستان لارہی ہے گزشتہ روز کینیڈا سے براستہ ترکی آنے والے مسافروں میں سے 23 کرونا میں مبتلا پائے گئے ادھرتفتان سے بھی آمد کا سلسلہ جاری ہے جبکہ وزیراعظم کے حکم پر افغان بارڈر بھی کھول دیا گیا ہے ایک بہت ہی سنجیدہ سوال ہے کہ حکومت کیوں کرونا کے مریضوں کو لاکر دنیا بھر میں یہ تاثر دے رہی ہے کہ پاکستان اس وبا سے کافی متاثر ملک ہے شروع میں اسکی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس ترکیب سے عالمی ادارے امداد کامنہ کھول دیں گے لیکن اب ایسا نہیں ہے جوامداد ملنی تھی مل چکی باہر سے اورکچھ نہیں ملے گا اسی لئے حکومت کا سارا فوکس اندرونی امداد پر ہے اس کا خیال ہے کہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو امداد دیں تو کھربوں روپے جمع ہوسکتے ہیں جس سے موجودہ کسادبازاری میں حکومت کا اچھا گزارہ چل سکتا ہے جبکہ غریبوں کی خیر ہے فاقے پہلے بھی انہیں نہیں مارسکے وہ آئندہ بھی زندہ رہیں گے اگردیکھاجائے تو حکومت کی سوچ نہایت بے رحمانہ ہے کوئی بھی عوامی حکومت لوگوں کی زندگی کے بدلے میں فنڈز اکٹھا کرنے کا نہیں سوچ سکتی لیکن پاکستان میں یہ سب کچھ ہورہا ہے اور لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
وزیراعظم صاحب نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ وہ سوشل ورک اورفنڈاکٹھا کرنے کے ماہر ہیں وہ کرونا کے عروج میں اپنی مہارت آزمانا چاہتے ہیں حالانکہ موجودہ بحرانی کیفیت میں حکومت کی جوبے عملی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کرونا کوآئے کافی وقت گزرچکا حکومت کی امداد ابھی تک راستے میں ہے وبا کے تدراک کیلئے بھی مرکزی حکومت کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے ایک طرف ظفرمرزا اور اسدعمر دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان میں مرض تیزی کے ساتھ نہیں پھیل رہا دوسری طرف حکومتی ٹیم سپریم کورٹ کوبتارہی ہے کہ اپریل کے آخرتک کرونا کے مریضوں کی تعداد50ہزار تک بڑھ سکتی ہے اتنی بڑی تضاد بیانی کیوں؟کیا یہ بچوں کا کھیل ہے ٹرمپ نے شروع میں جب غیرسنجیدگی کامظاہرہ کیا تھا تو اس کا حشر سب کے سامنے ہے آج امریکہ میں لوگ چڑیوں کی مانند مررہے ہیں امریکہ کاپورا ہیلتھ سسٹم بیٹھ گیا ہے وبا کی زد میں آنے والی ریاستیں بے بسی کااظہار کررہی ہیں پاکستانی حکومت نے ابھی تک سرکاری سطح پر ضرور آلات کابندوبست نہیں کیا ہے جبکہ اس کا سارا گزارہ چینی امداد پرچل رہا ہے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں جہاں وہ جاسکیں یہ تو کیپٹل کاحال ہے صوبوں کی کیا حالت ہوگی اور سب سے بڑھ کر غریب ومسکین اور نادار بلوچستان میں صحت کاکیانظام ہوگا حالانکہ ایک طرح سے کرونا کا سب سے زیادہ دباؤ بلوچستان پر ہے وفاقی حکومت زور دے کر کبھی ایران بارڈر کھلواتی ہے اور کبھی افغان بارڈر اوپر سے الزام بھی لگارہی ہے کہ بلوچستان حکومت کی نااہلی کی وجہ سے کرونا پورے ملک میں پھیل گیا ہے آج تک چندماسک اور کٹس کے سوا وفاقی حکومت نے بلوچستان کی کوئی مدد نہیں کی ہے۔جس پیکیج کااعلان کیا گیا ہے معلوم نہیں کہ اسکے تحت صوبوں کو کیاملے گا حالانکہ وفاقی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ پیکیج صوبوں میں تقسیم کرتی کیونکہ از روئے آئین صحت صوبائی شعبہ ہے وفاق کا کام صرف اسلام آباد تک محدود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاق امدادی پیکیج کو لیکر بھی سیاست کررہی ہے بلوچستان کے ڈاکٹر جان جوکھوں میں ڈال کر کروناکے مریضوں کاعلاج کررہے ہیں لیکن انکے پاس کوئی حفاظتی انتظامات نہیں ہیں چونکہ پوری دنیا اپنے غم میں گرفتار ہے لہٰذا باہر سے سامان منگوانا بھی مشکل ہے پنجاب حکومت نے چین سے جوٹیسٹنگ کٹس منگوائے تھے وہ ناکارہ نکلے ہیں کسی کمپنی نے دونمبر سامان بھیجا ہے اگر مرکزی سرکار مناسب انتظامات نہیں کرسکتی تو اعلان کرے کہ معاملہ اللہ پر چھوڑدیا ہے جنکی زندگی ہے وہ رہے گی ورنہ موت کا ایک وقت مقرر ہے جسے کوئی نہیں ٹال سکتا۔
حکومت کوایک غلط فہمی اور بھی ہے کہ پاکستان کے عوام اتنے بے بس اور ناکارہ ہوچکے ہیں کہ اس صورتحال میں احتجاج کی پوزیشن میں بھی نہیں۔حالانکہ ملک کے مختلف علاقوں میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے دوروز ہوئے حیدرآباد میں ہجوم نے راشن کے ایک ٹرک کولوٹ لیا لاہور میں لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نے ایک اسٹور کو لوٹ لیا کراچی کے علاقہ ڈیفنس میں ایک بنگلے کولوٹ لیاگیا اگرحکومت کی روش یہی رہی تو پورے ملک میں لاء اینڈآرڈر کامسئلہ پیداہوجائے گا حکمران جماعت کو یہ زعم ہے کہ وزیراعظم کی کال پر صرف ایک ہفتہ میں 6لاکھ لوگوں نے ٹائیگر فورس میں اپنی رجسٹریشن کروائی لہٰذا یہ حکومت بہت مقبول ہے جب لاکھوں لوگ احتجاج شروع کردیں گے توپتہ چلے گا کہ ٹائیگرفورس کونسی توپ چلائے گی۔
بدقسمتی سے تاثر تیزی کے ساتھ ابھررہا ہے کہ کرونا کے نام پر بھی امداد میں شفافیت نہیں ہے مرکز اپنی پارٹی کارکنوں کو نوازرہی ہے سندھ کی حکومت پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو ترجیح دے رہی ہے جبکہ عام لوگ یاغریب لوگ درمیان میں پس رہے ہیں وزیراعظم نے تو واضح طور پر کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے لوگ موجودہ صورتحال سے اچھی طرح فائدہ اٹھالیں تو انکے حلقے پکے ہونگے۔غضب خدا کا اس ناگہانی آفت کو بھی سیاسی فوائد کیلئے استعمال کیاجارہاہے حکومت دن رات دعا کرے کہ کروناآگے نہ بڑھے ورنہ اسکی غیرسنجیدگی اورعدم احساس اسے ایسے مقام پر لاکھڑا کرے گی کہ اسے لینے کے دینے پڑیں گے۔
بلوچستان کے ینگ ڈاکٹرز نے سہولیات کی عدم موجودگی پر کوئٹہ میں جو احتجاج کیا ہے اس پر طاقت کا استعمال سمجھ سے بالاتر ہے اگر اس احتجاج کو پر امن رہنے دیا جاتا اور گفت وشنید کے ذریعے ڈاکٹروں کے جائز انسانی مطالبات کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی تو اچھا ہوتا لیکن نوجوان ڈاکٹروں کیخلاف طاقت کااستعمال سمجھ سے بالاتر ہے کھوج لگانا چاہئے کہ کوئٹہ میں کون بیٹھا ہے جو ناگہانی آفت اور انتہائی ایمرجنسی کی صورتحال میں بھی حکومت طاقت کے گھمنڈمیں ہے بجائے یہ کہ حفاظتی سازوسامان مہیاکیاجاتا انہیں تشدد کا نشانہ بناناکوئی دانشمندی نہیں اگر ڈاکٹرکام پر نہیں گئے توکرونا کے مریضوں کا کیابنے گا،اس وبا پر کیسے قابو پایاجائیگا اور جو دیگر مریض ہیں ان کا کون علاج کرے گا ڈاکٹروں پرتشدد سے صوبائی حکومت کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ اسکی سبکی ہوئی ہے اگر بلوچستان حکومت کو اپنی رٹ ثابت کرنی ہے تو وہ افغان اور ایران بارڈر پرکرے جہاں سے ہزاروں لوگ اسکریننگ کے بغیر داخل ہوگئے اور اب بھی چور راستوں سے لوگوں کی آمد جاری ہے مقام افسوس ہے کہ باقی صوبے کو توچھوڑدیں خود صوبائی دارالحکومت کے ڈاکٹروں کے بچاؤ کیلئے حفاظتی آلات موجود نہیں ہیں حالانکہ کافی دنوں سے صوبے میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ ہے اور وزیراعلیٰ نے حکم دیا ہے کہ طبی آلات اور ادویات کی خریداری کے سوااور کوئی کام نہیں کیاجائے وزیراعلیٰ کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹروں کیخلاف تشدد کی تحقیقات کروائیں اور تب تک ان سے مذاکرات کرکے انہیں کام کیلئے آمادہ کریں ورنہ صورتحال اندازہ سے زیادہ بگڑ جائیگی۔
یہ بات مشاہدہ میں آچکی ہے کہ جو لوگ محکمہ صحت کے انتظامات چلارہے ہیں وہ کوئی معقول بات سننے کو تیار نہیں ہیں اور وہ روایتی انداز میں صورتحال کودیکھ رہے ہیں جنہیں حالات کی سنگینی کاکوئی ادراک نہیں ہے صوبائی حکومت کی لاپروائی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ ابھی تک اضلاع میں کرونا کی جانچ کیلئے اسکریننگ کابندوبست نہیں کیا گیا مالی سال ختم ہونے والا ہے لیکن اسٹاک میں ضروری ادویات موجود نہیں ہیں سوال یہ ہے کہ ادویات کی خریداری کا بجٹ کہاں خرچ ہورہا ہے اور اسپتالوں کی حالت ابھی تک بہتر کیوں نہیں ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں