مہنگائی کی شرح میں اضافہ جاری

ادارہئ شماریات کی جاری کردہ ہفتہ واررپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح سب سے کم ماہانہ آمدنی والوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔سالانہ بنیادوں پر ان17,732روپے ماہانہ تک آمدنی والوں کی مہنگائی میں اضافہ کی شرح 19.8فیصد ہے جبکہ29ہزار سے44ہزار روپے ماہانہ تک آمدنی والوں کے لئے مہنگائی میں اضافہ کی شرح16.4فیصد رہی۔واضح رہے کہ رمضان میں حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورزاور بچت بازاروں میں عوام کو سہولت دینے کی کوشش کی ہے، جس کے بارے میں ملے جلے تأثرات سامنے آئے ہیں، حکومت نے اس اقدام کو عوام کیلئے ایک سہولت کہا ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے شدیدتنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت نے 2کلو چینی اور 10 کلو آٹے کے لئے ماؤں بہنوں کو لمبی قطاروں کھڑا کر دیا جو کسی لحاظ سے قابل تعریف نہیں۔ بیشتر علاقوں میں بچت بازار چند دنوں بعد ختم کئے جانے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔دراصل یوٹیلٹی اسٹورز اور بچت بازارپرانی روایت ہے لیکن یہ مسئلے کا حل کبھی نہیں رہی۔یوٹیلٹی اسٹورز اپنی جگہ خود ایک مسئلہ ہیں،وزن میں کمی کے ساتھ معیار کے حوالے سے شکایات زبان زد عام ہیں۔عام طور پر شکایت کی جاتی ہے کہ آٹا اور چینی کا اسٹاک ضرورت سے کم ہوتا ہے، بڑی تعداد میں لوگ خریداری کے بغیرہی واپس چلے جاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ حکومت مہنگائی میں کمی کا مستقل اورپائیدارحل تلاش کرنے میں تا حال کامیاب نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان اسے مافیاز کی مکروہ منافع خوری قرار دیتے ہیں۔ان کے دوست اور پارٹی رہنما جہا نگیر ترین کے خلاف بھی مقدمات قائم ہیں،عدالتی سست روی کا شکار ہیں،30سے زائد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے دباؤ کے باوجود کوئی رعایت نہیں دے رہے۔ وزیر اعظم خود بھی شاکی ہیں کہ عدالتیں فیصلہ کرنے میں 50سال لگا دیتی ہیں۔ گویا حکومت چاہتی ہے کہ مہنگائی میں اضافے کو روکے مگراس کی راہ میں ایک سے زائد رکاوٹیں حائل ہیں۔آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بھی ایک سبب ہیں۔نئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو راضی کرلیں گے: پاکستان کو کورونا کی موجودگی میں سانس لینے کا موقع دیا جائے۔ مگراس دعوے میں کتنی صداقت ہے اس کاعلم جون کے آخرمیں ہو سکے گا، ابھی اسے صرف دعویٰ سمجھا جائے۔ لیکن حکومت آئی ایم ایف کا نام لے کر عام آدمی کی پریشانی سے آنکھیں بند نہ کرے، جتنی جلدی ممکن ہو اسے مہنگائی کے عذاب سے نجات دلائے بلکہ یہ کام سب سے پہلے کیا جائے۔ اس سال کہا جارہا ہے گندم، چاول سمیت فصلیں اچھی ہوئی ہیں، زراعت کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے اقدامات سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ٹی وی ٹاک شو میں مشیر زراعت کی گفتگو سے ظاہرہوتا ہے کہ اپنے شعبے کی ناقص کارکردگی سے باخبر ہیں،جانتے ہیں لائیو اسٹاک کا شعبہ ابھی تک دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ پسماندی کے اسباب سے واقف ہیں، سنجیدگی سے اس شعبے کی ترقی کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ہماری گائے،بھینس کی دودھ دینے کی صلاحیت اور کوالٹی بڑھانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے تو دودھ،دہی،پنیروغیرہ درآمد کرنے سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔وزیر خزانہ کی یہ دلیل مان لی جائے کہ ترقی ایک سال میں نہیں ہوسکتی،تب بھی ان کے پاس ڈھائی سال ہیں،مزید دو بجٹ اپنی مرضی کے بنا سکتے ہیں،یاد رکھیں ان کے جاتے وقت ملکی معیشت کے خدو خال گواہی دیں گے ان کی کارکردگی کا گراف کیسا رہا۔عام آدمی آج عالمی معاشی صورت حال سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ باخبر ہے۔ صنعت و حرفت پر دسترس حاصل کرنا جس قدر آج آسان ہے، ماضی میں نہیں تھا۔خواہش ہو تو اپنے گھروں کی چھت پرگھر کی ضرورت کے مطابق سبزی اگائی جا سکتی ہے۔دھنیا، پودینہ،ہری مرچ، پیاز،بھنڈی، بینگن،کریلے،لوبیا وغیرہ حتیٰ کہ آلو، ادرکاروی بھی اگانا کوئی مشکل کام نہیں۔سینئر شہری جانتے ہیں چار پانچ دہائیاں پہلے ہر گھر میں آنگن ہوتا تھا۔آنگن میں ایک دو پھل دار درخت اگانا لازمی سمجھا جاتا تھا۔فلیٹوں کے کلچر نے آنگن ختم کردیئے،پانی کی شدید قلت نے رہی سی کسر پوری کر دی۔پینے کو پانی میسر نہ ہو تو پودوں کے لئے پانی کیسے مل سکتا ہے؟کراچی جیسا صنعتی شہر پانی سے محروم ہے۔ ہر گلی میں پینے کا پانی بیچنے والے دکانیں کھولے بیٹھے ہیں، اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ حکومت پائپ لائن سے پانی فراہم نہیں کرتی، ٹینکر مافیا کے ذریعے پانی خریدنا پڑتا ہے۔دکھ سے کہنا پڑتا ہے ان حالات میں پودے اگانا ایک خواب بن گیا ہے۔حکومت پانی کی فراہمی کا نظام درست کرے، مہنگائی میں کمی کے اسباب پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔صنعتیں زہریلے فضلے کو صاف کئے بغیربراہ راست ندی نالوں میں بہا دیتی ہیں، اس کے نتیجے میں زیر زمین پانی آلودہ ہو جاتا ہے،اور اس کا اثر غریب آدمی پر پڑتا ہے وہ بورنگ کے پانی سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہے۔ محکمہ شماریات کے اعدادوشمار بھی گواہی دیتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافے کا زیادہ بوجھ سب سے نچلے طبقے پر آتا ہے۔حکومت کو چاہیئے کہ معاشی پنڈتوں کے نرغے سے باہر نکلے، ماضی کی غلطیاں دہرانے کی بجائے خرابی کے اصل اسباب دور کرے۔ پینے کاصاف پانی فراہم کردیا جائے توغریب اور متوسط طبقہ سکھ کا سانس لینے کے قابل ہو سکتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں حکومت عام آدمی کی مدد سے خود کفالت کی طرف بڑھنے کی سوچ رکھتی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ نہ جانے کیوں حکومت اپنی سوچ سے دست بردار ہوگئی،شاید انڈے مرغی سے جڑے شیخ چلی والے طعنوں تک کے شور میں اپنی ڈگر سے ہٹ گئی،اصل وجہ یہ تھی کہ مناسب
سوچ بچار کے بغیر یہ نعرہ لگایا گیا۔مرغی فیڈ پر پلتی ہے،فیڈ کے بارے میں حکومت نے کچھ نہیں سوچااسکیم فیل ہوگئی۔ اس کادوسر ا نقصان یہ ہوا کہ عام آدمی سے بتدریج دور ہوتی چلی گئی۔کاٹیج انڈسٹری پر توجہ دی جاتی تو معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملتا۔کامیاب جوان پروگرام کوتوقع سے کم پذیرائی ملی،اس کے اسباب کا کھوج لگایا جائے۔ان اسباب کودور کیا جائے۔نوجوانوں کی رہنمائی کی جائے،انہیں بتایا جائے کن شعبوں میں کتنی گنجائش ہے؟ عام آدمی کو علم نہیں۔صرف آئی ٹی اور سیاحت سے ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ہر شعبے کو فعال بنانے کی ضرورت ہے،یاد رہے تمام صوبوں کوساتھ لے کرچلنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کو شکایت ہے کہ اس کا پانی چوری کیا گیا ہے، اس شکایت کا ازالہ کیا جائے۔اس کے ساتھ ہی صوبوں اور وفاق کے درمیان پائی جانے والی دوری ختم کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں