ایلن بولک‘ ملالہ یوسفزئی اور عالمی میڈیا

جیئند ساجدی
ترکی سے تعلق رکھنے والی 28سالہ ایلن بولک نامی ترک خاتون آج کل سوشل میڈیا کی کچھ سائٹس کی زینت بنی ہوئی ہے۔ ان کی مقبولیت کی وجہ ان کی بھوک ہڑتال سے ہونے والی موت ہے۔ غالباً اس سے قبل بہت کم لوگ ہی ان کو عالمی سطح پر جانتے ہونگے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ترکی کی مقتدرہ کے خلاف طویل جدوجہد عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز نہیں بنی۔ اپنی موت سے قبل وہ 288دن یعنی 9ماہ سے بھی زائد کے عرصہ تک بھوک ہڑتال پر تھیں جو کہ عالمی سطح پر دوسرے نمبر کی سب سے بڑی بھوک ہڑتال تھی۔ دنیا کی سب سے بڑی بھوک ہڑتال ایک بھارتی خاتون اروم شرمیلا نے کی تھی جو 500 ہفتوں تک چلی تھی، لیکن حیران کن بات یہ ہے اس کے باوجود ان کی موت نہیں ہوئی وہ اس لئے کہ بھارتی سرکار نے ان کے ناک میں نوزل ڈرپ لگایا تھا۔ان کی بھوک ہڑتال کی وجہ بھارتی فورسز کی جانب سے بھارت کے ایک علاقہ مانی پور میں 10 بے گناہ لوگوں کا قتل تھی۔ عالمی میڈیا نے اس ریاستی دہشت گردی پر کوئی دلچسپی نہیں لی اور نہ اروم شرمیلا کی بھوک ہڑتال پر ابلاغیات کے بہت سے ماہرتعلیم یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا عالمی سطح پر انہی مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے جو اس میڈیا کمپنی کے ملک کے خارجہ پالیسی اور قومی مفادکے مطابق ہوں۔اس تھیوری کو ماہر تعلیم’Media Conformity Model‘ کہتے ہیں۔ مغربی میڈیا کیلئے بھارت ایک اہم ملک ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا کیلئے بھارت معیشت کے حوالے سے بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی سرکار اپنے غریب آدھی واسیوں (مقامی آبادی) کی زمینیں پر عالمی کمپنیوں کو بھی فراہم کرتی ہے جہاں وہ صنعتیں بناتے ہیں اور بھارت کی غریب مقامی آبادی سے انہی صنعتوں میں کم دیہاڑی پر مزدوری بھی کرواتے ہیں۔ لہذا بھارت کو ناراض کرنا مغربی میڈیا کے ملکی مفاد میں نہیں۔
معروف دانشور نوم چومسکی اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ عالمی میڈیا کیلئے دو قسم کے متاثرین ہوتے ہیں ایک اہم متاثرین کہلاتے ہیں جبکہ دوسرے غیر اہم متاثرین۔ان کے مطابق یورپ امریکہ کا غلام ہے اور وہ انہی پالیسیوں پر عملدرآمد کرتا ہے جو ان کے آقا امریکہ کے مفاد میں ہوں۔ اس لئے امریکہ سمیت بڑے یورپی میڈیا گروپ کیلئے اہم اور غیر اہم متاثرین کے معنی ایک ہی ہیں۔ نوم چومسکی کے مطابق امریکہ کے حمایت یافتہ ڈکٹیٹرز، بادشاہ اور اس کی حمایت یافتہ کسی فاشسٹ ریاست کی بربریت کا شکار ہونے والے لوگ غیر اہم متاثرین ہونگے۔ ان غیر اہم متاثرین کی مظلومیت یا تحریک کو اجاگر کرنا موجودہ دنیا کے ورلڈ آرڈر کے خلاف ہے جو امریکہ کا اپنا رائج کردہ ہے۔ دنیا کی واحد سپر طاقت امریکہ یہی چاہتا ہے کہ دنیا میں موجودہ ورلڈ آرڈر قائم ود ائم رہے۔ امریکہ کی حمایت یافتہ ریاستیں ایک طرح سے امریکہ کی کالونیاں ہیں وہاں کوئی بھی تحریک نہ صرف ان ریاستوں کے قابض اشرافیہ کے لئے خطرہ بلکہ ان کے سربراہ امریکہ کے لئے بھی خطرہ ہے۔آج کے ادوار میں مشرق وسطیٰ میں ایران اور شام کے علاوہ جو نظام رائج ہے وہ امریکہ کا رائج کردہ ہے، اس لئے Arab Spring کے وقت آئے ہوئے عوامی انقلاب کو جلد ہی امریکہ نے ختم کروا کے اپنے حمایت یافتہ الفتح سیسی کو وہاں کا سربراہ بنا دیا جو اب مصر کے عوام کی بجائے امریکہ کا نمائندہ ہے اور یقینا ایسی پالیسیاں بناتا ہے جو مصر کے عوام کی بجائے امریکہ کے مفاد میں ہوں۔ الفتح سیسی نے اقتدار کی لالچ میں جتنے بھی لوگ ہلاک کئے ہونگے وہ سب کے سب کے سب عالمی میڈیا کے لئے غیر اہم متاثرین ہیں۔
اس دور میں صرف چین‘ روس اور ایران میں مرنے والے عالمی میڈیا کے اہم متاثرین والی کیٹیگری میں پورا اتر کر ان کی خبروں کی زینت بن سکتے ہیں۔ ایلن بولک کی بد قسمتی یہ تھی کہ وہ کسی بھی امریکہ مخالف ملک کی شہری نہیں تھیں بلکہ امریکہ حمایت یافتہ ایک فاشسٹ ملک کی شہری تھیں۔ جس تنظیم (یوروم) سے ان کا تعلق تھا وہ 1980ء میں امریکہ سپانسر ترک فوج کے بغاوت کے رد عمل میں قائم ہوئی تھی۔ یوروم جو 1985ء میں استنبول یونیورسٹی میں قائم ہوئی وہ اکثر میوزیکل کنسرٹ کے ذریعے امریکہ کی جانب سے ترکی میں رائج کردہ سرمایہ دارانہ اور طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرتی تھی۔ اس تنظیم میں اکثریت کردوں کی بجائے ترکوں کی ہے 1980ء سے لیکر 1991ء تک ترکی کی مرکزی سرکار نے کردوں کی زبان اور ثقافت پر پابندی عائد کی تھی۔ اس دوران کردوں کو اپنی مادری زبان بولنے کی اجازت نہیں تھی اور کردش ثقافت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔جس کی وجہ سے کرد اپنا روایتی رقص اپنی شادیوں و دیگر تقاریب میں بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اسی دوران یوروم تنظیم کے ایک انقلابی ترک گلوکار احمد کایا نے کردوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کردی زبان میں گانا گایا تھا جس کی وجہ سے وہ دائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ترکوں کے سیاسی کارکنوں کے حملے کی زد میں آئے تھے۔ یوروم کی مقبولیت سے خائف ہو کر ترکی نے 2016ء میں اس تنظیم پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کے علاوہ اس تنظیم کے 30رہنماؤں کو جیل میں بھی ڈالا گیا اوران کے 6اہم رہنماؤں کی سرکی قیمت اردگان سرکار نے 3لاکھ ترکش لیرا مقرر کی ہے۔اس غیر جمہوری اقدامات کی وضاحت ترکی کی سرکار نے یہ الزامات لگا کر کی ہے کہ یوروم جو پرامن جدوجہد کا دعویٰ کرتی ہے وہ در اصل DHKP نامی ایک مسلح تنظیم کی سیاسی ونگ ہے اس مسلح تنظیم DHKPکو ترکی سمیت ان کے آقا امریکہ‘ یورپی یونین اور برطانیہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ اس تنظیم نے دو دفعہ استبنول میں قائم امریکی سفارتخانے میں حملے بھی کئے ہیں۔ 2006ء میں اسی تنظیم نے طیب اردگان پر ناکام جان لیوا حملہ بھی کیا تھا۔ DHKPمیں بھی زیادہ تعداد ترکوں کی ہے اور اس تنظیم کا یہ نظریہ ہے کہ ترکی کوئی آزاد ملک نہیں بلکہ امریکہ کی ایک باجگزار ریاست ہے اور ترکی کی مقتدرہ وہ پالیسیاں بناتی ہے جو امریکی مفاد میں ہوں۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب’The Myth of Independence‘میں اس حوالے سے لکھا ہے کہ مشرق وسطیٰ‘ ایشیاء اور افریقہ میں بہت سے ممالک برائے نام آزاد ہیں لیکن امریکہ کی مرضی کے خلاف وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ لہذا انہوں نے تمام ترقی پذیر ممالک سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکہ سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک کی غلامی سے آزاد ہونے کیلئے ایک اتحادی بلاک بنا لیں بہت سے دانشوروں کا خیال تھا کہ بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹانے اور ان کو پھانسی کی سزا دلوانے میں امریکہ کا کلیدی کردار ہے۔تاہم ذوالفقار بھٹو کی صاحبزادی بینظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’Daughter Of East‘ میں اپنے والد کی موت کا ذمہ دار امریکہ کو نہیں ٹھہرایا شاہد ان کو اندازہ تھا کہ امریکہ کی حمایت کے بغیر وہ بھی اقتدار میں نہیں آسکتی۔ بہر حال ترکی نے بنا کسی ٹھوس ثبوت کے یوروم کو کالعدم DHKPکا سیاسی ونگ قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر کے اپنی ٰفاشسٹ مائنڈ سیٹ کا اظہار کیا۔ دراصل فاشسٹ کے خلاف جدوجہد مسلح ہو یا پر امن وہ اس کا جواب صرف اور صرف طاقت سے ہی دیتا ہے کیونکہ فاشسٹ کے پاس طاقت کے علاوہ اور کوئی چیز جیسے کہ دلائل اور مضبوط نظریہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ترکی کی مقتدرہ جب یوروم کے پرامن جدوجہد کو اپنے دلائل سے شکست دینے میں ناکامی ہوئی تو ریاستی طاقت کا استعمال کر کے ان کو کالعدم قرار دیا اور ایلن بولک جو ایک انقلابی گلوکارہ تھیں اور یوروم کی اہم رہنماء بھی تھیں، ان کو اس تنظیم سے وابستگی کی وجہ سے کچھ عرصہ کیلئے 9ساتھیوں سمیت جیل میں ڈالا گیا اور جیل سے ہی انہوں نے اور ان کے 4ساتھیوں نے اپنی تادم مرگ بھوک ہڑتال کا آغاز کیا۔
ان کے مطالبات یہ تھے کہ ان کی تنظیم پر عائد پابندی کو ہٹایا جائے، ان کے تمام رہنماؤں کو جیل سے رہا کیا جائے اور ان کی تنظیم کو اپنی پر امن سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی بھی اجازت دی جائے۔ لیکن فاشسٹ پرامن جدوجہد کی زبان نہیں سمجھتے اس لئے ترکی سرکار نے ان کے مطالبات پر کان نہیں دھرا جس کی وجہ سے ایلن بولک کی موت ہوئی ان کے 4 اور ساتھیوں میں سے ابراھیم گوکک کی حالت تشویشناک ہے۔غالباً وہ بھی جلد فوت ہو جائیں گے اور عین ممکن ہے ان کے باقی تین ساتھیوں کا بھی انجام یہی ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود یہ سب کے سب عالمی میڈیا کیلئے غیر اہم متاثرین ہی تصور ہونگے۔ ان کی قسمت شاید ملالہ یوسفزئی جتنی اچھی نہیں جو محض غالباً ایک کتاب اور طالبان کی جانب سے ایک گولی کا نشانہ بننے کے بعد نہ صرف عالمی میڈیا کی زینت بنی بلکہ نوبل پرائز بھی ملا۔ ان کی عالمی میڈیا میں اہم متاثرین بننے کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے امریکہ مخالف طالبان کیخلاف آواز اٹھائی اور امریکی مقتدرہ کو اپنے عوام کو یہ باور کروانا تھا کہ افغانستان میں طالبان کیخلاف ان کا محاذ انسانیت پر مبنی ہے او رطالبان وحشی ہیں اور ملالہ ان کی وحشیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بہر حال ایلن بولک شاہد عالمی میڈیا کی خبروں کی زینت نہ بنے البتہ وہ تاریخ کی زینت ضرور بنیں گی،جس طرح ایئر لینڈ سے تعلق رکھنے والے بوبی سینڈ بنے تھے۔ ان کو بھی عالمی میڈیا نے نظر اندازتو کیا لیکن وہ اپنی بھوک ہڑتال میں ہونے والی موت اور اپنی جدوجہد کی وجہ سے بغیر عالمی میڈیا کے کوریج کے تاریخ کا حصہ بن گئے۔یہ بھی ممکن ہے کہ عالمی میڈیا ایلن بولک اور ان کے ساتھیوں کو انتہاء پسند کا بھی خطاب دے جو انہوں نے ایک تاریخ رقم کرنے والی ایک اور شخصیت کنگ مارٹن لوتر کو دیا تھا۔ جنہوں نے میڈیا کے پروپیگنڈے کا جواب اس طرح دیا تھا کہ ”ہاں میں انتہا پسند ہوں اور انتہاء پسند ہونا کوئی بری بات نہیں سوال یہ اہم ہے کہ آپ چیز کیلئے انتہاء پسند ہو؟ میں انصاف اور انسانی برابری کیلئے انتہاء پسند ہوں“ یہ بات بھی طے ہے کہ ترکی کی مقتدرہ ایلن بولک اور ان کے ساتھیوں کی قربانی کے باوجود بھی یوروم پر عائد پابندی نہیں اٹھائیگی کیونکہ اردگان سمیت تمام آمر مضبوط نظریات سے ڈرتے ہیں۔ مشہور روسی آمر جوذف اسٹالن کہتے ہیں کہ ”نظریات ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جب میں اپنے دشمنوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا تو نظریات رکھنے کی اجازت کیسے دوں گا“

اپنا تبصرہ بھیجیں