قرب قیامت

انور ساجدی
کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ اپنے سیاسی اتالیق اور مشکل وقت میں پانی کی طرح دولت بہانے والے جہانگیر ترین کی تضحیک ساؤتھ پنجاب کے سب سے چھوٹے مخدوم مگر مالی اعتبار سے دیوہیکل شخصیت خسرو بختیار کی دوسری بار بے عزتی یہ حکومت اور تحریک انصاف کے حوالے سے معمولی واقعات نہیں ہیں حالانکہ عمران خان کو پارٹی میں شمولیت سے پہلے بھی جہانگیر ترین کی اصلیت کا اچھی طرح معلوم تھا جب عمران خان شریف فیملی کا تختہ الٹنے کی تحریک چلارہے تھے اس وقت بھی جہانگیر ترین اور ان کے شوگر مافیا نے شریف برادران سے 21 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی تھی اس مال غنیمت میں چوہدری برادران اور زرداری کے اومنی گروپ کو بھی حصہ ملا تھا پارٹی کے انتخابات کی ناکامی اور جسٹس وجیہہ کی رپورٹ کے بعد کم از کم عمران خان کو چاہئے تھا کہ وہ مسٹر ترین کو پارٹی معاملات سے الگ کرتے لیکن جہانگیر ترین کی وجہ سے انہوں نے پہلے اکبر ایس بابر اس کے بعد جسٹس وجہیہ اور آخر میں جاوید ہاشمی کو ناراض کردیا کیونکہ جہانگیر ترین اس وقت عمران خان کے مائی باپ تھے ان کا پرائیویٹ جیٹ رکشے کی طرح استعمال ہوتا تھا نہ عمران خان پوچھتے کہ اخراجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں اور نہ ہی ترین بتاتے تھے کہ وہ کہاں سے سرمایہ لگارہے ہیں وہ جانتے تھے کہ سرمایہ واپس کیسے لانا ہے اس لئے چپ چاپ وہ خان صاحب پر اپنا خزانہ لٹاتے رہے اس کے باوجود کہ سپریم کورٹ نے انہیں جھوٹ اور بددیانتی کا مرتکب قرار دے کر ہمیشہ کیلئے نااہل قرار دیا تو بھی خان صاحب پر اس کا خاص اثر نہیں ہوا کاغذات نامزدگی میں انہوں نے جو کچھ چھپایا تھا وہ بہت ہی ہوشرباتھا لندن شہر میں انہوں نے 24 ایکڑ کا ایک محل خریدا تھا لیکن اسے ظاہر نہیں کیا حالانکہ سینٹرل لندن کے مہنگے علاقے میں ان کی کئی اور جائیدادیں بھی تھیں خان صاحب نے کبھی نہیں پوچھا کہ 1980ء کی دہائی میں وہ محض ایک لیکچرار تھے صرب 10 سال کے عرصہ میں وہ ساؤتھ پنجاب کے سب سے بڑے زمیندار اور 6 شوگر ملوں کے مالک کیسے بن گئے 2018ء کی انتخابی مہم میں جہانگیر ترین نے جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے تمام تر کوشش اور غیبی امداد کے باوجود تحریک انصاف مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرسکی تو عمران خان کے ہاتھ پیر پھول گئے لیکن جہانگیر ترین نے ”اوپر“ سے لیکر نیچے تک تمام مشکلات حل کروائیں اگرچہ حکم اوپر سے تھا لیکن انہوں نے ق لیگ، ایم کیو ایم، آزاد اراکین اور جناب اختر مینگل سے کامیاب مذاکرات کئے جس نے جو مطالبہ کیا جہانگیرترین نے انگوٹھا ثبت کردیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ حکومت بن جانے کے بعد اس سے الگ ہونا اتنا آسان نہیں ہوگا چاہے مطالبات منظور ہوں نہ ہوں مثال کے طور پر سردار اختر مینگل سے جو معاہدہ ہوا اس پر ترقیاتی فنڈز کے سوا کوئی عملدرآمد نہیں ہوا لیکن حکومت قائم ہے اسی طرح ایم کیو ایم کا ایک مطالبہ بھی منظور نہیں ہوا لیکن تمام تر تحفظات کے باوجود ایم کیو ایم مجبوراً حکومت کا حصہ ہے۔
ق لیگ کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ پرویز الٰہی کے صاحبزادہ مونس الٰہی کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا جائے گا لیکن چند ماہ قبل مونس الٰہی کو عمران خان نے بلاکر ناپسندیدگی کا اظہار کیا لیکن ق لیگ ابھی تک حکومت کا حصہ ہے سب لوگ حیران تھے کہ آخر جہانگیر ترین کے پاس جادو کی کونسی چھڑی ہے کہ وہ ہر بار ناراض اتحادیوں کو ایک منٹ میں منالیتے ہیں آج تک کسی اتحادی نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا خفیہ ہتھیار کیا ہے اب جبکہ جہانگیر ترین کی راہیں جدا ہوگئی ہیں تو ان کے پاس حکومت چلانے کیلئے اعظم خان کے سوا ترپ کا اور کوئی پتہ نہیں ہے جہانگیر ترین نے تو اعظم خان پر الزام لگایا ہے کہ تعلقات بگاڑنے میں ان کا ہاتھ ہے انہوں نے ان کے خلاف سازش کی ہے اعظم خان صاحب پشتونخوا حکومت کو چلارہے تھے تو لوگ سمجھ رہے تھے کہ پرویز خٹک ڈرائیونگ سیٹ پر ہے لیکن ایسا نہیں تھا تمام سیاہ سفید کے مالک اعظم خان تھے یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان ان کو اسلام آباد لائے اور اپنے ساتھ بٹھالیا کابینہ کے بیشتر اراکین ان سے نالاں ہیں وہ وزیراعظم سے ملاقات کیلئے آنے والے وزراء کو اپنے کمرہ میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ بیشتر وزراء کو لفٹ ہی نہیں کراتے اس کی وجہ کیا ہے یہ عمران خان اور اعظم خان کے سوا کوئی نہیں جانتا نعیم الحق کی وفات کے بعد بنی گالہ کا نظم ونسق بھی اعظم خان چلا رہے ہیں جبکہ پرائم منسٹر ہاؤس تو ہے ان کا آفس بنی گالہ جانے کے بعد اعظم خان کا اثرورسوخ مزید بڑھ گیا ہے حتیٰ کہ وزیراعظم صرف ان کے مشوروں پر چلتے ہیں اس وقت ان کی حیثیت پرنسپل سیکریٹری سے کہیں بڑھ کر ہے لیکن وہ جہانگیر ترین کی طرح کوئی سیاسی شخصیت نہیں ہیں بے شک اس وقت عمران خان مالی طور پر خود کفیل اور آزاد ہیں اور انہیں جہانگیرترین یا کسی اور شخص کی ضرورت نہیں ہے لیکن پارٹی امور چلانے حکومت کا ہر الو سیدھا کرنے اور مشکلات کو سلجھانے کیلئے ایک نہ ایک جہانگیرترین کی ضرورت ہوتی ہے وزیراعظم نے پہلے اسد عمر کو بے عزت کرکے وزارت خزانہ سے برطرف کردیا تھا لیکن یہی موصوف آج کل ان کے قریبی مشیر بنے ہوئے ہیں وہ اپنی بے عزتی کا بدلہ حفیظ شیخ سے بھی ضرور لیں گے کرونا کی بلا آنے کے بعد یہ وقت انتقام کیلئے بہت موزوں ہے کیونکہ معیشت تو بحیرہ عرب میں ڈوب گئی ہے یہ پہلے بھی ہچکولے کھارہی تھی لیکن ہاتھ پیر مار رہی تھی اب تو مشکلیں اتنی پڑیں کہ آسان ہوگئیں کے مصداق کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے ایسی معیشت تو کوئی بھی چلا سکتا ہے اگر حالات اسی طرح رہے تو حفیظ شیخ اور گورنر باقر رضا بھاگ جائیں گے ہوسکتا ہے کہ عمران خان خزانہ کا محکمہ دوبارہ اسد عمر کے سپرد کردیں انہوں نے کچھ کرنا نہیں ہوگا صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا بندوبست کرنا ہوگا تیل کے اخراجات پورے کرنے ہونگے اور جو چندہ جمع ہو اسے تحریک انصاف کے لیڈروں میں انصاف کے ساتھ تقسیم کرنا ہوگا کرونا نے جہاں ساری دنیا کی معیشت کو ڈبو دیا ہے وہاں پاکستان جیسے ممالک تو کسی گنتی میں نہیں ہیں پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا یہ حال ہے کہ ابھی تک ڈاکٹروں کے تحفظ کے سامان کا بندوبست بھی نہیں ہوسکا ایک طرف ڈاکٹروں سے کہا جارہا ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے آگ کے دریا میں کود جائیں دوسری جانب انہیں بھیڑ بکری سمجھ کر خطرات کے حوالے کیا جارہا ہے حکومت کی سنجیدگی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے پاس یہ ڈیٹا نہیں کہ کتنے لوگ زیارتوں پر گئے تھے کتنے دنیا بھر میں تبلیغ کیلئے گئے ہیں اور یہ کہ جو لوگ عمرے سے واپس آئے ہیں ان کی کیا تعداد ہے جو بھی ہو ان لوگوں کا ڈیٹا نہ ہونا حکومت کی بدترین نالائقی کے سوا اور کیا ہے۔
جو لوگ باہر گئے تھے کرونا وہ اپنے ساتھ لائے اور حکومت ابھی تک ایسے لوگوں کو بھی واپس لارہی ہے جو سیرو سیاحت یا ذاتی کاموں پر مختلف ممالک گئے تھے حالانکہ کرونا کے بعد کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو کلیئر ہونے تک وہیں پر مقیم رہنے کا پابند کیا ہے اس سلسلے میں انڈیا کی مثال سامنے ہے اس نے ایرانی حکومت سے کہا کہ اس کے جو شہری کلیئر ہوں انہیں واپس بھیجا جائے باقی کو وہیں پر رکھا جائے تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود کرونا کے مریضوں کی تعداد چار ہزار ہوگئی ہے اور جوں جوں ٹیسٹ ہونگے یہ تعداد بڑھتی جائے گی بعض لوگوں کا خیال تھا کہ کرونا دو ماہ بعد ختم ہوجائے گا لیکن یہ خیال غلط ثابت ہورہا ہے کیونکہ چین میں دوباہ لوگ بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں جب تک کوئی دوا ایجاد نہیں ہوگی یہ وباء جاری رہے گی۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنے ایک خصوصی مضمون میں کہا ہے کہ کرونا کا حملہ امریکہ کیلئے نائن الیون اور 1945ء کے پرل ہاربر پر حملہ کے مترادف ہے ان کے مطابق کرونا کے تھم جانے کے بعد دنیا بدل جائے گی اس کی ترجیحات کا از سر نو تعین ہوگا سیاسی صف بندیاں تبدیل ہوجائیں گی اور عالمی اکنامک آرڈر بھی یکسر بدل جائے گا۔
اس وقت امریکہ کیپٹل دنیا کو لیڈ کررہا ہے جو آئندہ بھی کرے گا لیکن اس کا زور ٹوٹ جائے گا کسنجر کے مطابق مانیں یا نہ مانیں چین اور اس کی بڑھتی ہوئی طاقت ایک حقیقت ہیں چین کی حقیقت سے کسنجر سے زیادہ کون جانکاری رکھتا ہے کیونکہ 1969ء تک امریکہ اور اس کے اتحادی چین کو تسلیم نہیں کرتے تھے امریکہ نے فارموسا(تائیوان) کو چین کا درجہ دے کر اقوام متحدہ کی رکنیت دی تھی لیکن کسنجر نے 1970ء میں راولپنڈی میں ایک رات قیام کے بعد بیجنگ کا دورہ کیا تھا جس کے بعد صدر نکسن نے اپنی پالیسی تبدیل کردی تھی اور سرمایہ دار دنیا نے تائیوان کو ایک طرف رکھ کر چین کو تسلیم کرلیا نہ صرف بلکہ کافی سالوں کے بعد امریکہ نے چین کو ویٹو پاور بننے میں بھی مدد دی تھی لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اب چین نہ صرف معاشی طور پر امریکہ کا سب سے بڑا مدمقابل بن گیا ہے بلکہ وہ سابق سپر پاور روس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہورہا ہے بس ایک خطرہ یہ ہے کہ امریکہ اور چین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کوئی خطرناک بائیو ہتھیار استعمال نہ کرلیں جس سے کہیں انسانیت صفحہ ہستی سے نہ مٹ جائے اس ضمن میں عہد حاضر کے عظیم سائنسدان اسٹیفن ہاکنگز پہلے ہی پیشنگوئی کرچکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انسان جو خطرناک تجربات کررہا ہے کہیں کسی دن یہ تجربات کرہ ارض اور اس کی مخلوق کو ختم کرسکتا ہے یہی قیامت ہوگی کرونا نے کچھ کیا ہو نہ کیا ہو اس نے چاروں صوبائی حکومتوں کی اہلیت کا اچھی طرح پول کھول دیا ہے بدقسمتی سے اس سلسلے میں بلوچستان حکومت سرفہرست ہے بحران میں اس کی کوئی ایک کل بھی سیدھی نہیں ہے بیوروکریسی حواس باختہ ہے اپوزیشن غیر فعال ہے صرف اکیلے جام صاحب ہوا میں ہاتھ پیر مار ررہے ہیں لیکن زمین پر کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں