مستقبل میں میڈیا مالکان کو بلوچستان میں اپنے دفاتر بنانا ہونگے، جام کمال

کوئٹہ:وزیراعلیٰ بلوچستان جام کما ل خان نے کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، حکومتیں مجبور، کمزور اور مفلس نہیں ہوتیں مفلسی ہمارے ذہن اور دلوں میں ہوتی ہے میرا 18ماہ کا تجربہ ہے کہ اگرحکومت کرنا چاہے تو بہت کچھ کر سکتی ہے اگر حکومت کی ترجیحات اور مالی معاملات درست سمت میں ہوں تو مسائل آسانی سے حل کئے جا سکتے ہیں،صٖحافیوں کی کالونی کی جو بھی انفراسٹرکچر کی ضروریات ہونگی وہ حکومت بلوچستان پوری کریگی، بلوچستان میں تین سالوں کے دوران 15ہزار نوجوانوں کو ہنر سیکھائے جائیں گے، لیبر ایکٹ پر عملد آمد کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں،یہ بات انہوں نے بدھ کو کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی نو منتخب کابینہ کی تقریب حلف برداری اور صحافیوں کی رہائشی کالونی کی زمین کا آفر لیٹر حوالے کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، وزیراعلیٰ جام کمال خا ن نے بی یو جے کی نومنتخب کابینہ سے حلف لیا اور رہائشی کالونی کی زمین کا آفر لیٹر حوالے کیا، تقریب میں صوبائی وزراء میر عارف جان محمدحسنی، انجینئر زمرک خان اچکزئی،اراکین صوبائی اسمبلی مبین خلجی،دھنیش کمار، ترجما ن حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی، سیکرٹری اطلاعات بلوچستان شاہ عرفان غرشین، ڈائریکٹر آئی ایس پی آر برگیدیئر شاہد محمود، ڈائریکٹر جنرل محکمہ تعلقات عامہ شہزادہ فرحت سمیت دیگر بھی موجود تھے، وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہاکہ حکومتیں مجبور، کمزور اور مفلس نہیں ہوتیں مفلسی ہمارے ذہن اور دلوں میں ہوتی ہے ماضی میں سنتے تھے کہ حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں کام نہیں ہو سکتے لیکن میرا 18ماہ کا تجربہ ہے کہ اگرحکومت کرنا چاہے تو بہت کچھ کر سکتی ہے اگر حکومت کی ترجیحات اور مالی معاملات طے ہوں تو مسائل آسانی سے حل کر سکتے ہیں

QUETTA: Balochistan Chief Minister Jam Kamal Khan taking oath of newly elected body of Blochistan Union of journalist Association. INP PHOTO by Ahmed Bhatti

،انہوں نے کہا کہ حکومت کے برق رفتاری سے کام کرنے کے لئے اسٹرکچرز کی بہتری لانے کی ضرورت ہے جن کاموں نے دو سے تین ماہ میں ہونا ہے و ہ آٹھ سے دس سال لیتے ہیں ہمیں آنے والے لوگوں کے لئے ایک مثال بنانی ہے کہ اگر ہم حکومت کے کام کرنے کا طریقہ کار درست نہیں کریں گے تو عوام کو ریلیف نہیں دے پائیں گے جب چیزیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں تو لوگ انکی قدر اورآفادیت بھول جاتے ہیں 30سال میں چند ایکٹر زمین دینا سوالیہ نشان ہے جسے بہتر انداز میں حل کریں گے،انہوں نے کہا کہ قومی میڈیا پر بلوچستان کو کم کوریج ملتی ہے ہمیں اسے بہترکرنا ہے حکومت بلوچستان خواہ و ہ مالکان ہو ں یا دیگر فورمز پر بات کرنی ہو کہتی ہے کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے بلوچستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پاکستان کے ہر شعبے میں بلوچستان میں صلاحتیں موجود ہیں بلوچستان آئندہ سالوں میں جب اپنے عروج پر ہوگا تو میڈیامالکا ن کو یہاں آنا ہوگا اور اپنے دفاتر بنا نے ہونگے صوبے کے صحافیوں نے مشکل سماجی اور مالی حالات میں فرائض سرانجام دئیے اور شہادتیں دی ہیں ملک کے دیگر حصوں میں صحافت کرنا صوبے کی نسبت آسان ہے مالکان بلوچستان اور اپنے کارکنوں کو اہمیت دیں،انہوں نے کہا کہ ہم سب کی سیاسی وابسطگیاں ہو تی ہیں لیکن کبھی کبھی صحافت بھی اسکی نذر ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے صحافت پروان نہیں چڑھتی،ہر حکومت کو صحافت کی بقاء، مستقبل کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے اگر حکومت یہ ذہن میں رکھے کہ ہمیں کتنی کوریج ملی یا نہ ملی تو صحافت کو فروغ نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس عمل سے صحافت کمزور ہوگی صوبائی حکومت ہر اس اقدام کی حمایت اور فروغ دیگی جو صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے ہوگا، کوریج اور بیانات کے برعکس موجودہ حکومت آئندہ تین سال تک صحافیوں کے ساتھ کھڑی رہے گی،انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی رہائشی کالونی کامسئلہ 30سال سے التواء کا شکار تھا میں نے یہ محسوس کیا کہ ان چیزوں کا انتا وقت نہیں لگنا چاہیے اگر کام نہیں کرنا وہ الگ بات ہے یہ وہ کام تھا جو حکومت کے لئے کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں اب بھی چھ سے آٹھ ماہ کی تاخیر ہوئی ہے لیکن اسے اور بھی جلدی ہونا چاہیے تھا،صٖحافیوں کی کالونی کی جو بھی انفراسٹرکچر کی ضروریات ہونگی وہ حکومت بلوچستان پوری کریگی، صحافیوں کی کالونی کے لئے باؤنڈی وال، سیوریج سسٹم، سڑکوں سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے پی ایس ڈی پی اور ایس ڈی پی کے آپشن موجود ہیں صحافی برداری سے متعلقہ محکموں کے ساتھ مشاورت کرکے کالونی کا ڈیزائن اور لے آؤٹ تیار کرے حکومت انکی مکمل معاونت کریگی، انہوں نے کہاکہ جن شہداء کے بچوں کو پی ڈی ایم اے کے ذریعے مدد کی جارہی تھی اس مسئلے کا مستقل حل نکالیں گے، صوبائی حکومت نت محکمہ سماجی بہہود کے تحت اسپیشل سپورٹ پروگرام تشکیل دیا ہے صوبے میں شہید ہونے والے صحافیوں کے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے لئے محکمہ سماجی بہبود کے ذریعے معاونت فراہم کریں گے، وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ صوبائی حکومت نے لیبر ایکٹ منظور کیا ہے جس کے تحت بااختیار انسپکٹر تعینات کئے جائیں گے جو کاروبار، دفاتر سمیت دیگر مقامات پر جاکر ملازمین کی تنخواہیں معلوم کر سکے گا،صوبائی حکومت کم ازکم اجرت پر عملد آمد کروانے کے لئے بھی اقدامات کریگی بڑے اداروں اور کاروبار ی مراکز میں قوانین کے اطلاق کو یقینی بنائیں گے، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کے ذریعے ایک مفاہتی یاداشت پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت بلوچستان کے ہر ضلعے میں آئندہ تین سال کے دوران ریموٹ ٹریننگ کیمپس میں 15ہزار نوجوانوں کو ہنر سیکھائیں جائیں گے،صوبے کے ہر ضلعے میں 300نوجوانوں کو پہلے مرحلے میں ٹریننگ دی جائیگی ہر ضلع میں اس کی ضرورت کے حساب سے ہنر سیکھائے جائیں گے اس پروگرام کے تمام اخراجات صوبائی حکومت برداشت کریگی کوشش ہے کہ ٹرانس بلوچستان جو کہ مشکلات کا شکارہے کے لئے کوئٹہ کے لوگوں کو ٹریننگ دی جائے تاکہ صوبے کے لوگ اس محکمے کو چلا سکے انہوں نے کہا کہ صوبے میں میکینکل لوم بنائے جارہے ہیں ان سے گھروں میں کام کرنے والے لوگوں کو روزگار کے مواقعے ملیں گے، انہوں نے کہا کہ پاکستان بلخصوص بلوچستان میں استعداد کار کا بحران ہے جسکی وجہ سے ملک آج مشکلات کا شکار ہے ہمیں اس سلسلے میں بہتری لانے کے لئے افراد اور اداروں پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے،بلوچستان میں میڈیا اکیڈمی کی بھی ضرورت ہے جو کہ یہاں سے پیشہ ورانہ طور پر مہارت رکھنے والے صحافیوں کو صوبائی، قومی اور بین القوامی سطح پر فروغ دے اور جدید تقاضوں کے مطابق صحافت کو پروان چڑھائے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ بلوچستان کے صحافیوں نے گزشتہ 30سال سے رہائشی کالونی کے لئے جدوجہد کی ہے جو آج رنگ لائی صوبے کے صحافی کم تنخواہوں اورکسم پرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں پی ایف یو جے گزشتہ 70سالوں سے ملک میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار کی جدوجہد کر رہی ہے تقریب میں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر ایوب ترین نے سپاسنامہ پیش کیا

اپنا تبصرہ بھیجیں