بلوچستان میں نوجوانوں کے خون کی ارزانی

انور ساجدی
بھارت کے راجدھانی دہلی میں عام آدمی پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں مودی کی جماعت بی جے پی کوعبرتناک شکست سے دوچار کردیا تھا جس کے نتیجے میں اروند کیجریوال ایک بارپھر ریاست دہلی کے وزیراعلیٰ بن گئے تھے جو لوگ دیگر ممالک میں رہتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کیجریوال میں کیاخاصیت ہے انکی مقبولیت کی وجوہات کیاہیں لیکن دوروز ہوئے انہوں نے کرونا کی صورتحال پر دہلی واسیوں سے خطاب کیا اس سے پتہ چلا کہ وہ اتنے مقبول کیوں ہیں اپنے خطاب میں ان کا سارا زور ڈاکٹروں پر تھا انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کی رہائش کیلئے دہلی کے فائیو اسٹار ہوٹل بک کردیئے ہیں انکے گھروں میں بھی جملہ ضروری اشیا پہنچادی گئی ہیں انہوں نے کہا کہ جس طرح جنگ کے دوران سرحدوں پر فوجی جوانوں کی سخت ڈیوٹی ہوتی ہے اسی طرح کرونا کی بیماری کے دوران ڈاکٹربھی محاذ پرجنگ لڑرہے ہوتے ہیں اس لئے انکو ضروری سہولیات پہنچانا انکی اولین ذمہ داری ہے دہلی کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہیں چندہ دینے کی بے شمار پیشکش آئی ہیں لیکن انہوں نے ان لوگوں سے کہا ہے کہ آپ ڈاکٹروں کے تحفظ کا سامان لائیں دیگر ضروری آلات لائیں ہمیں کیش کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیجریوال نے اعلان کیا کہ اگرچہ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اگر خدمات کے دوران ڈاکٹر پیرامیڈیکس یاصفائی والا جان گنوابیٹھے تو انکی سرکار فی کس ایک کروڑ روپے دے گی۔
دوسری طرف جب کرونا کی وبا پھیلی توبلوچستان حکومت نے سریاب پرشیخ زید اسپتال کو اس مرض کے علاج کیلئے مختص کردیا ایران سے آنے والے کافی لوگوں کو یہاں رکھا گیا اور ڈاکٹروں کی ڈیوٹی علاج اور دیکھ بھال پر لگادی گئی لیکن انہیں حفاظتی کٹس فراہم نہیں کئے گئے اور نہ ہی معیاری قرنطینہ سینٹرقائم کیا گیا جب نوجوان ڈاکٹروں نے جانوں کے خطرے کا اظہار کیا تو کہا گیا کہ جان بچانا ڈاکٹروں کی ڈیوٹی ہوتی ہے حالانکہ کرونا کی وبا سب سے پہلے بلوچستان آئی تھی اور اسے مرکزی سرکار سرحدوں کے ذریعے گھیرکرلائی تھی ہونا یہ چاہئے تھا کہ حفاظتی سامان کٹس اور ٹیسٹنگ آلات سب سے پہلے بلوچستان کو مہیاکئے جائے لیکن مرکزی سرکار نے ایسا سمجھا کہ یہ ملک کا حصہ نہیں ہے چین سے جوسامان آیا وہ بھی مرکز پنجاب اور سندھ نے رکھ لیا جبکہ وفاق نے بلوچستان کے عوام خاص طور پر ڈاکٹروں،نرسوں اور دیگرعملہ کو اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اس وقت بلوچستان کے پاس ضروری انتظامات نہیں تھے اور نہ ہی صوبائی انتظامیہ میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ ازخود انتظامات کرتی وفاق نے ایک بار نہیں سوبار ایرانی سرحد کھولنے کا حکم دیا جوزائرین آئے انہیں بلوچستان حکومت نے مجبورہوکر انکے صوبوں کو بھیج دیا جبکہ بعض زائرین کولے جانے کیلئے سی130طیاروں کااستعمال بھی کیا گیا اس سے وفاقی حکومت کی دوہری پالیسی ظاہر ہوتی ہے یعنی وہ سوتیلی ماں کی طرح اپنے ہی باشندوں کے درمیان فرق کرتی ہے اسکے نزدیک اس ملک کے تمام باشندے یکساں اہم یاایک جیسے سلوک کا مستحق نہیں ہیں جو فرق روارکھا گیا وہ صاف ظاہر ہے کرونا کی وبا کو آئے ڈیڑھ ماہ ہونے کو آئے ہیں لیکن حکومت بلوچستان ابھی تک ڈاکٹروں کیلئے ضروری سازوسامان کی فراہمی کابندوبست نہیں کرسکی مرکز کی پالیسی اپنی جگہ صوبائی حکومت نے بھی سینئراورجونیئر ڈاکٹروں کے درمیان ایک امتیاز پیدا کردیا کرونا کے مریضوں کے علاج کیلئے ینگ ڈاکٹرز کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے گزشتہ دنوں جب ان ڈاکٹروں نے مطالبہ کیا کہ انہیں حفاظتی سامان دیاجائے توصوبائی انتظامیہ نے یہ مطالبہ سناہی نہیں آخر کار انہوں نے تنگ آکر احتجاج کا فیصلہ کیا انکی ریلی وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف جارہی تھی کہ اس پر پولیس نے ہلہ بول دیا طاقت کا کافی استعمال ہوا کئی ڈاکٹرزخمی ہوئے اور باقی کوگرفتار کرلیا گیا حوالات میں ڈاکٹروں کی جو تصویر لی گئی اخبارات نے اسے نمایاں طور پر شائع کیا اور فرق دکھایاکہ دنیا کے دیگر ممالک میں ڈاکٹروں کی پوجاکی جارہی ہے اور بلوچستان میں انہیں بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بناکر بھیڑ بکریوں کی طرح حوالات میں ڈال دیا گیا ہے۔
اہل بلوچستان اور خاص طور پر یہاں کے نوجوانوں سے حکومتوں کا یہ سلوک کوئی نیا رویہ یا نئی بات نہیں ہے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ بلوچستان کے لوگوں کو کبھی برابر کا شہری سمجھا نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے وفاق کی برابر اکائی جانا گیا اسکے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا گیا جو نوآبادیات میں رکھاجاتا ہے اگردیکھا جائے تو شروع سے لیکر ابتک یہاں کے نوجوانوں کو پہلا ہدف بنایاجارہا ہے چاہے یہ طالب علم ہوں یا ینگ ڈاکٹرز گزشتہ دوعشروں میں بلوچستان میں سب سے زیادہ خون نوجوانوں کا بہا ہے جو لوگ مختلف واقعات میں مارے گئے انکی اکثریت نوجوانوں کی تھی یا جو مسنگ پرسنز ہیں وہ نوجوان ہیں ان میں ایک بڑی تعداد طلباء کی ہے کوئٹہ میں وکلا پر جو جان لیوا حملہ ہوا اس میں دوتہائی تعداد نوجوانوں کی تھی بلوچستان کے نوجوان قانون دانوں کی ایک پوری نسل اٹھ گئی بلوچستان میں جو42صحافی مارے گئے ان میں بھی کوئی عمر رسیدہ نہیں تھا کوئٹہ میں مختلف اوقات میں دہشت گردی کے جوواقعات ہوئے ان میں زیادہ تر نوجوان ہی کام آئے۔
اب جبکہ18ینگ ڈاکٹر فرض نبھاتے نبھاتے کرونا کاشکار ہوگئے ہیں تو کسی کو پرواہ نہیں ہے بلکہ زوردیا جارہاہے کہ آپ اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر آگ کے سمندر میں کودجائیں صوبائی حکومت کم از کم یہ تو دیکھے کہ صحت کے شعبے کوکون چلارہا ہے اس طرح کی لاپروائی اور بدانتظامی کیوں عمل میں لائی جارہی ہے کہنے کو تو 12سال سے منتخب حکومتیں کام کررہی ہیں لیکن ڈھیر سارے واقعات کے باوجود کسی بھی حکومت نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کاکوئی بندوبست نہیں کیا جو لوگ پہلے مارے گئے تھے جیسے وہ انسان نہیں بھیڑ بکریاں تھیں اوراب جو ہلاک ہونے والے ہیں انتظامیہ کے نزدیک یہ بھی انسان نہیں ہیں اگردیکھاجائے تو انسانی حقوق کی جو پامالی بلوچستان میں ہورہی ہے اسکی نظراورکسی علاقے میں موجود نہیں ہے کرونا کی وبا کے بعد مسلسل لاک ڈاؤن ہے لیکن حکومت نے ابھی تک مجبور اور مظلوم طبقہ کیلئے کچھ نہیں کیا کچھ مخیر حضرات ذاتی کوششوں سے راشن وغیرہ تقسیم کررہے ہیں اسی کو کافی سمجھاجارہاہے۔
بلوچستان حکومت کی سنجیدگی کایہ عالم ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے یہ تک نہیں کہہ سکتی کہ اگر بارڈر کھولنے ہیں تو ہمارے عوام کیلئے انتظامات کریں کیونکہ جب ہزاروں لوگ داخل ہونگے تو وبا ضرور پھیلے گی دوروز ہوئے افغان بارڈر کھولا گیا تو سینکڑوں افراد کسی جانچ اور ٹیسٹ کے بغیر دوڑتے ہوئے داخل ہوگئے سوال یہ ہے کہ ایک طرف آپ روزانہ سینکڑوں داخل کررہے ہیں تو یہ طویل لاک ڈاؤن کا کیا فائدہ؟ اپنے غریب عوام کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزانہ کمانے والے ہزاروں افراد کے چولہے بجھ چکے ہیں لیکن وفاقی حکومت کواپنے شہری لانے کا جنوں سوار ہے خصوصی پروازوں کے ذریعے بھی آمد کاسلسلہ جاری ہے ابتک حکومت نے اعلان کی حد تک اربوں روپے جاری کردیئے ہیں لیکن نہ مطلوبہ تعداد میں ماسک ہیں نہ ٹیسٹ کیلئے کٹس ہیں اور نہ طبی عملہ کیلئے حفاظتی آلات ہیں کہیں ایسا تو نہیں سیلاب اور زلزلہ کی طرح کرونا سے بھی اشرافیہ استفادہ کررہی ہے۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ2005ء کے زلزلہ میں عالمی برادری نے جنرل پرویز مشرف کو پانچ ارب ڈالر کی امداد دی تھی لیکن یہ امداد رکھ لی گئی جبکہ امداد اربوں سے کی گئی وہ بھی ادھورا آج تک نہ بالاکوٹ کا نیا شہر آباد ہوسکا اور نہ ہی مظفرآباد کو مکمل طور پر ازسرنو بسایا گیا اگرچہ اس مرتبہ عالمی امداد ایک ارب ڈالر سے زیادہ نہیں مگر ملک کے اندر عطیات کھربوں تک پہنچے گی یہ حساب کون رکھے گا کہ کتنے کھرب کا راشن تقسیم ہوا اور کتنے ارب کی آلات خریدی گئیں عجیب لوگ ہیں نہ عوام کی فکر نہ وبا کا ڈر بس وہی چال جو نارمل حالات میں ہوتی ہے سب اسی پر رواں دواں ہیں۔
حکومت آٹا،چینی اسکینڈل کی رپورٹ منظرعام پر لاکر خود کو خودداد دے رہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ سب عمران خان کی ناک کے نیچے ہوا یا کسی اور کے اسکے باوجود مبارک سلامت اور واہ واہ کی گردان سمجھ سے بالاتر ہے ایف آئی اے کی رپورٹ میں 3ارب روپے کی سبسڈی اورجہانگیرترین کے حصہ میں 56کروڑ روپے کی بات کی گئی ہے جبکہ یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے ایک پارسائی کے دعویدار حکمران کے ساتھیوں نے اس سے کہیں بڑا ہاتھ مارا ہے لیکن کپتان وہاں تک جانا نہیں چاہتے کیونکہ وہاں جانے سے کئی ہوش ربا بھید کھل سکتے ہیں جو کھلیں گے ضرور لیکن کچھ عرصہ بعد۔

اپنا تبصرہ بھیجیں