خطے میں نئی خانہ جنگی کا خطرہ۔۔۔۔!

تحریر: رشید بلوچ
افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعدخطے میں حالات کروٹ بدلنا شروع ہوں گے، جو بائڈن کی موجودہ امریکی انتظامیہ نسل پرست امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کو آگے لیکر چل رہے ہیں، دو حہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مزاکرات کے بعد دنیا بھر میں طالبان سے متعلق دہشت گردی کی سوچ میں تھوڑی بہت تبدیلی آنا شروع ہوگئی ہے،امریکہ اور متحارب فریق طالبان کے درمیان بہ ظاہر مزاکرات کی کامیابی کے نتیجے میں افغانستان کے اندر طالب اور امریکی فوج کے درمیان سیز فائر ہوچکی ہے لیکن افغان فورسز اور طالبان اب بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں جہاں روزانہ جھڑپیں ہورہی ہیں، دوحہ مزکرات کے نتیجے میں انٹرا افغان مزاکرات، قیدیوں کی واپسی اور امریکی انخلا تین ایسے شق ہیں جسے میجر نکات کہا جا سکتا ہے، ان تین نکات میں سے دو نکات کا تعلق افغان حکومت اور طالبان کے دمیان ہے جبکہ ایک نکتہ امریکہ سے متعلق ہے، فریق سوئم ہونے کے باجود افغان حکومت کو مزکرات سے الگ رکھا گیا، یہ امریکہ کی جانب سے افغان حکومت کے ساتھ ایک ایسی زیادتی تھی جس کے نتیجے میں غنی انتظامیہ نے دنیا بھر میں اپنی وقعت کھو دی ہے، اتنی بڑی سبکی کے باوجود افغان حکومت نے امریکہ کے دباؤ پر اب تک چار ہزار سے زائد طالبان قیدی طالبان کے حوالے کر چکی ہے جبکہ طالبان افغان حکومت کی قیدیوں کی واپسی اور مزاکرات دونوں کیلئے سنجیدہ نہیں، دوحہ اعلامیہ کے تحت امریکہ 11ستمبر 2021تک بتدریج افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گاجس کیلئے امریکہ نے تیار ی کر رکھی ہے لیکن افغانوں کی آپس کے معاملات یوں کے توں پڑے ہوئے ہیں،امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک نئی جنگ چڑ جائے گی، حالات کا ادراک کرکے شمالی ا تحاد نے نئی صف بندی کرکے نئے لوگوں کو بھرتی کرنے اور اسلحہ جمع کرنے کا عمل شروع کریا ہے۔۔۔۔
نائن الیون کے ٹھیک ایک ماہ بعد امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہو اتھا امریکہ کے ساتھ نیٹو افوج کی لاؤ لشکر بھی ہمراہ تھی چونکہ افغان امریکہ جنگ میں مشرف انتطامیہ بھی حصہ دار تھی تو پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کی سند تھما دی گئی، جنگ کے 20سال بعد امریکہ نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کر لیا ہے، طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے پاکستانی مبصرین افغانستان سے امریکی انخلا کو امریکہ اور نیٹو کی شکست سے تعبیر کرتے ہیں ان مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی انخلا کے ایک ماہ کے اندر پورے افغانستان میں طالبان قابض ہوں گے، نئے انتخابات کی صورت میں طالبان کی کامیابی سو فیصد یقینی ہے، ایک بار پھر افغانستان میں 1996کی امارت اسلامیہ قائم ہوگی،اسکے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا، لیکن مشکل یہ ہے کہ امریکہ ٹریلین آف ڈالر خرچ کرکے خطے سے جانے کیلئے نہیں آیا تھا،نہ ہی فلحال امریکہ جانے کے موڈ میں نظر نہیں آرہا، امریکہ کے مزاج سے واقف کئی مصنفین بارہا لکھ چکے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے دمیان سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں، افغانستان میں لشکر کشی کیلئے القاعدہ کو بہانہ بنا گیا تھا، القاعدہ کو شروع کے دنوں میں تہس نہس کر دیا گیا،جبکہ القاعدہ کا سپریم لیڈڑ بھی ایک آپریشن میں مار دیا گیا اسکے بعد امریکہ کا افغانستان میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا اسکے باوجود 20سالوں سے امریکہ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ طالبان کے حملوں میں امریکی اور نیٹو افواج کی اموات کی شرح افغانوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں،غالب گمان یہی ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کر جائے لیکن اس خطے سے نہیں نکلے گا، امریکہ نے اسی خطے میں بیٹھ کر،چائنا، ایران، روس سمیت وسط ایشیا کو مانیٹر کرنا ہے، امریکہ کے بعد چائنا دوسرا بڑا معاشی ملک ہے جو امریکہ کیلئے اقتصادی اور دفاعی حوالے سے چیلنج بننے جارہا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ چین مستقبل کا سپر پاور ہوگا، امریکہ کو افغانستان میں جانی کم مالی نقصان زیادہ اٹھا نا پڑا ہے، لامحالہ طالبان کو در پردہ، ایران، اور روس کی حمایت بھی حاصل ہوئی ہوگی تاکہ امریکہ کو گیر کر مارا جائے اس سے افغان،رشیاء جنگ کا بدلہ چکایا جاسکے، طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور ایران سے واپس آتے ہوئے رستے میں امریکی میزائل کا نشانہ بنے، بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کوئٹہ شوریٰ کے نام سے مشہور طالبان کے شوریٰ کمیٹی بھی ایران منتقل ہوچکی ہے۔
امریکہ کو اب سمجھ آگیاہے کہ افغانستان میں رہنا اس کیلئے مشکل ہوجائے گا،دوحہ مزاکرات، افغان امن عمل جیسے Episode سے لگ ایسے رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے تو نکل جائے گا لیکن اسی خطے میں کہیں نہ کہیں اپناکوئی ٹھکانہ بنا لے گا، اس خطے کیلئے امریکی منصوبہ بندی پرانی ہوگی لیکن مسکن نیا ہوگا، حالیہ دنوں میں پاکستانی میڈیا میں ایک خبر محو گردش تھی کہ نصیر آباد میں امریکہ کوفوجی بیس دیا جارہا ہے جس کیلئے سروے بھی کیا جاچکا ہے،وزیر داخلہ شاہ محمود قریشی نے اسمبلی فلور پر امریکہ کو اڈھ دینے جیسے خبروں کی تردید کردی ہے اس کے باوجود افغان طالبان نام لیئے بغیر پاکستان کو تڑیاں دے رہا ہے، حالانکہ اس خطے میں صرف پاکستان وجود نہیں رکھتا افغانستان کے آس پاس بہت سارے ممالک موجود ہیں ان ممالک میں زیادہ تر گمان یہی ہے کہ پاکستان کے بجائے تاجکستان اور ازبکستان میں امریکہ اپنا بیس کیمپ بنا سکتا ہے،اگر بالفرض پاکستان وامریکہ کی باہمی رضا مندی سے پاکستان میں کسی بھی جگہ بیس کیمپ دینے کا معاملہ طے پاتا ہے تو یہ صریحا دوممالک کے آپس کا معاملہ تصور ہوگا اس میں کسی تیسرے فریق کو محض اس لیئے کہ امریکہ کے ساتھ اسکی ایک جنگ جاری ہے کی بنیاد پر ہر گز یہ اجازت نہیں ہوتی کہ کسی بھی ملک کے باہمی معاملے میں دخل اندازی کرے، طالبان سے زیادہ ایران کے ساتھ امریکہ کے معاملات گھمبیر ہیں اس بارے میں ایران کو خدشات ہوسکتے ہیں لیکن کچھ سفارتی آداب ملحوض خاطر لائے جاتے ہیں،ویسے بھی امریکہ اور پاکستان کے درمیان 2001کا اسٹریٹیجک معاہدہ موجود ہے اب یہ پاکستان پر منحصر ہے وہ اس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔
امریکہ کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی امکانات بڑھ جائیں گے، ازبک، تاجک اور پشتونوں کے درمیان اقتدار کے حصول اور اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے متحارب گروپ آمنے سامنے ہوں گے شمالی اتحاد کی جنگی تیاریوں کو دیکھ کر طالبان نے ایک لاکھ سے زائد تنخواہ دار نفری بھرتی کرنے کا عمل شروع کردیا ہے،اس وقت طالبان کے عام لڑاکو کسی مراعات اور لالچ کے بغیر محض جہاد کی خاطر لڑ رہے ہیں، امریکہ کے جانے کے بعد طالبان کے پاس جہاد کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اس لیئے انہوں نے پیشگی بھرتی کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے، لامحالہ افغانستان میں ممکنہ شورش کے اثرات بلوچستان پر بھی پڑیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں