عزیز محمد بگٹی …… کان کی اذان سے باجماعت نماز تک

تحریر: نایاب عزیز بگٹی
عزیز محمد بگٹی جون1948ء کو دیرو عرف ڈیرہ بگٹی میں پیدا ہوئے آپ کے والد میر بیٹرا خان بگٹی زمیندار تھے بگٹی قبیلے میں نواب اکبر خان کے بعد میر بیٹرا خان دوسرے بڑے زمیندار تھے ان کی جوان موت کے بعد نہ ان کا اپنا کوئی بھائی تھا نہ ان کی بیوی کا جو کمسن بچوں کا سایہ بنتا جو کچھ والد چھوڑ گئے وہ ہاریوں اور منشیوں کے آسرے پر رہا بچپن سے تعلیم میں رجحان کے سبب اپنی توجہ کا مرکز تعلیم کو رکھا اور وارثت کی طرف دھیان کم ہی دیا اعلیٰ تعلیم کیلئے کوئٹہ آئے تعلیم مکمل کی اور پھر یہیں ملازمت اختیار کر لی یوں آپ زمینداری کے پیشے سے اپنی پسند کے درس و تدریس کے شعبے کی طرف آگئے۔
ابتدائی تعلیم دیرو سے حاصل کی اس کے بعد میٹرک کرنے کوئٹہ آئے چھ ماہ بعد اطلاع ملی کہ دیرو کے مڈل سکول کو ہائی سکول تک ترقی دے دی گئی تو واپس دیرو آ کر میٹرک مکمل کیا پھر کوئٹہ آئے انٹر گورنمنٹ کالج (موجودہ ڈگری کالج) سے 1969ء میں گریجویشن کی واضح رہے کہ ون یونٹ کے دور میں بلوچستان میں ایجوکیشن بورڈ اور یونیورسٹی نہ ہونے کے سبب تعلیمی اسناد کا اجراء لاہور ایجوکیشن بورڈ اور یونیورسٹی آف پنجاب سے ہوا کرتا تھا 1970ء میں بی ایس او کی طویل جدوجہد کے بعد بلوچستان یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو اسی سال آپ نے ایم اے سیاسیات کے پہلے بیچ میں داخلہ لیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی 1976ء میں آپ نے بلوچستان یونیورسٹی سے بلوچی میں آنرز کیا 1982ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی بعد ازاں امریکہ کی یونیورسٹی آف Arizona سے سال 1985ء میں Oriental Studies میں MSکی ڈگری حاصل کی۔
آپ کو پہلی ملازمت انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ میں Purchazing Officer کی ملی مگر علم و تدریس میں دلچسپی کے سبب اسے ترک کر کے لیکچرار شپ کی ملازمت کو ترجیح دی بلوچستان یونیورسٹی شعبہ سیاسیات میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر چیئرمین پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت میں فروری1989ء تک کام کیا اس کے بعد نواب اکبر خان بگٹی کی وزارت اعلیٰ میں ان کے ایڈیشنل سیکرٹری رہے پھر ڈائریکٹر آرکائیوز، سیکرٹری ٹیکسٹ بک بورڈ، ڈائریکٹر پرائمری ایجوکیشن اور آخر میں چیف منسٹر انسپکشن ٹیم کے ممبر بنے 1978ء میں آپ ایک تین ماہ کے تربیتی پروگرام کے سلسلے میں ترکی گئے 1983ء میں اسکالرشپ پر امریکہ گئے اکادمی ادبیات کی جانب سے لکھاریوں کے ایک وفد کے ہمراہ چین گئے خمینی کی برسی پر ایرانی حکومت کی دعوت پر ایران گئے 1998ء میں سنگاپور اور ملیشیاء اپنے پروگرام سے گھومنے گئے 2012ء میں عمرہ کی سعادت حاصل کی۔
دور طالب علمی میں کالج میگزین کے شعبہ ادارات میں رہے طلباء تنظیم بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن میں فعال کردار ادا کیا ایوب دور میں طلباء تنظیموں پر سختیوں کے وقت جب بی ایس او کی کمان سنبھالنے میں پس و پیش ہو رہی تھی تو آپ نے آگے بڑھ کر کمان سنبھالی بی ایس او کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کے حقوق کیلئے سخت جدوجہد کی جس میں ون یونٹ کا خاتمہ اور بلوچستان کیلئے یونیورسٹی کا مطالبہ سرفہرست تھا مسلسل محنت کے نتیجے میں اس وقت کے صدر یحییٰ خان اور مغربی پاکستان کے گورنر نور خان سے آپ کی قیادت میں بی ایس او ممبران کی ملاقاتیں ہوئیں جن میں مطالبات کو مان لیا گیا ساٹھ کی دہائی میں نواب اکبر خان کے فاطمہ جناح روڈ کوئٹہ پر واقع گھر پر پولیس گھیراؤ کی اطلاع پر وہاں پہنچے نواب کی گرفتاری پر پولیس کے خلاف نعرے بازی پر انہیں دھر لیا گیا یہ اطلاع آپ کے ساتھیوں کو ہاسٹل میں ملی تو راتوں رات سب نکل آئے دھرنا دیا اور اسی رات آپ کو رہائی دلوائی۔
کچھ عصرہ بعد نواب صاحب کی گرفتاری پر بی ایس او کے ہڑتالوں اور احتجاج کے سبب پولیس کالج کے ہاسٹل میں طلباء کو پکڑنے آئی تو دیگر اراکین سمیت آپ بھی وہاں سے نکل گئے دیرو پہنچے مگر وہاں سے بھی پکڑ لئے گئے مئی 1968ء کو لیویز حوالات میں تین دن رہے پھر ضمانت پر رہا ہوئے۔
آپ کے والد نواب اکبر خان کے چچا زاد بھائی اور آپ کی خوش دامن نواب صاحب کی بہن تھیں مگر قربت کا سبب غالباً آپ کی علمی قابلیت اور نواب صاحب کی علمی دوستی رہی آپ کی گفتگو میں اکثر نواب صاحب کا ذکر ہوتا جس میں محبت اور احترام تھا آپ کی نواب صاحب کی بیٹھک کی محفلوں میں آمدورفت رہی ٹیلیفونک رابطے، قیام امریکہ کے دور میں خط و کتابت، حکومتی ذمہ داریوں میں رفیق، نواب صاحب کی کتب بینی پر آپ کا کہنا تھا کہ نواب کے پاس بہترین کتابوں کا مجموعہ تھا جن میں بیشتر اب بازار میں ناپید ہیں نواب صاحب کی شہادت پر آپ بے حد زنجیدہ تھے نواب کی برسی کی آمد پر قلق رہتا کہ دید سہی ہوئی تو کچھ لکھ لیتا۔
2018ء کے اواخر میں یہ بات علم میں آئی کہ اسی سال کے شروع میں بننے والی عارضی حکومتی کے وقت آپ کا نام وزراء کی فہرست میں لیا گیا تھا مگر جو منظور شدہ فہرست آئی اس میں آپ کا نام نکال دیا گیا تھا اس بات کی سابق حکومتی اراکین سے ہوئی تو آپ نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اپنے قوم دوست و حق پرست قلم کلی بے باک نوک کے سبب پس پردہ قوتوں کو آپ سے تحفظات لاحق ہیں آپ کو عمر بھر پڑھنے اور لکھنے سے شغف رہا آپ بلوچی اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری 1981ء اور پھر وائس چیئرمین 1992ء میں رہے اردو میں دس سے زائد کتابیں تحریر کیں جن میں بلوچستان، اس کی تاریخ، ثقافت، قبائل،مسائل اور شخصیات کے موضوعات کا احاطہ کیا اردو میں شائع شدہ پاکستان جہد پر رائٹر گلڈ ایوارڈ حاصل کیا آپ کی ایک کتاب ”بلوچستان شخصیات کے آئینے میں“ کیلئے دیپاچہ نواب اکبر خان بگٹی نے لکھا اس کے علاوہ بلوچی زبان میں بھی اتنی ہی کتب کے مصنف رہے آپ کی بلوچی زبان میں مختصر بلوچی افسانوں کے مجموعے نوذورغام کو ھجرہ ایوارڈ ملا آپ مختلف اخباروں اور جریدوں میں بھی کالم لکھتے رہے نامور دانشور اور براہوی زبان کے شاعر پروفیسر نادر قمبرانی کی دختر شاعرہ نوشین قمبرانی نے ملاقات پر جب آپ کیلئے دست بستہ سلام بھجوائے اور جواباً آپ کے دستخط شدہ کتب ملنے پر ان کتابوں کو آنکھوں سے لگا کر چوما تو پہلی بار بحیثیت ادیب اور دانشور آپ کے مقام کا اندازہ ہوا۔
آپ نے کتابوں کا ذخیرہ جمع کر رکھا تھا اور اب پڑھنے میں دقت (نزدیکی نظر کی کمزوری کے سبب) کے باوجود کتابوں کی خریداری کا سلسلہ یہ کہہ کر جاری رکھا کہ پاس رکھ کر خوشی ہوتی ہے جاوید غامدی کی تفیسر قرآن (البیان) کا پانچ جلدی مجموعہ ان کی آخری خریداری رہی جو رمضان سے چند روز قبل اپنے دوست عبدالقادر رند کے ذریعے کی ایک دفعہ جب ایک خاتون نے پنجاب کے ایم این اے امجد کھوسہ کی گزارش گوش گزار کی تو ہم بھی موجود تھے کھوسہ صاحب نے کہلوایا تھا کہ بلوچستان کے حوالے سے لکھی ہوئی ایک کتاب دستیاب نہیں ہو رہی کسی نے بتایا کہ بلوچستان میں عزیز بگٹی کے پاس آپ کو کتاب مل جائے گی وہ کتاب آپ کے پاس تھی اور آپ نے اس کی فوٹو کاپی کر کے ان خاتون کے ہاتھ بھجوا دی ہم نے پوچھا کہ جب ناپید تھی تو کوئی اتنے یقین سے آپ کے پاس کیسے آیا تو ہنس دیئے پھر بتایا کہ کبھی نواب بگٹی بھی فون کرتے کہ فلاں کتاب نہیں ملی رہی پھر میری لائبریری سے وہ کتاب پڑھنے لے جاتے۔
کچھ عرصہ سے آپ قرآن کے اردو ترجمے سے مختلف عنوانات کے آیات اکٹھا کر رہے تھے جس مضمون کی آیات سے آپ نے ابتداء کی وہ اللہ کی رحمت اور بخشش کے ہیں آپ کی عادت تھی کہ ہر تحریر پر تاریخ ضرور لکھتے مگر اس رجسٹر میں کہیں کسی صفحے پر تاریخ نہیں لکھی غالب امکان ہے کہ 2017ء یا 2018ء تا 2020ء اس پر کام کیا اور آگے نہ کر سکے پھر آخری تحریر جو آپ نے لکھی وہ اپنے دوست عبدالقادر رند کی تصنیف کردہ کتاب کیلئے لکھی جر پے 5-04-2021ء کی تاریخ آپ کے اپنے قلم سے درج ہے یار جان بادینی کا مسودہ بھی قطار میں رکھا تھا مگر پھر زندگی نے مزید مہلت نہ دی۔
آپ گزشتہ 25سال سے شوگر کے مرض میں مبتلا تھے 2008ء میں اسی مرض کے سبب پیر میں سوجن ہوئی جسے طویل علاج کے بعد بالآخر کاکٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیا گیا اس کے بعد 2010ء میں خراب صحت کے سبب کچھ روز ہاسپٹل میں رہنا پڑا آپ کی آمدورفت محدود ہو گئی تھی مگر آپ کے دوست، جن میں اکثریت ادبی حلقے کے تھی آپ سے آپ کے گھر پہ مل لیتے اس کے علاوہ کبھی پی ایچ ڈی کا کوئی طالب علم کبھی بی ایس او کا کوئی نوجوان آپ کے علمی دولت سے فیض پانے آپ کے پاس چلا آتا رمضان سے دو دن قبل آپ نے آخری ملاقات ڈاکٹر دین محمد بزدار کے ہمراہ آنے والے بی ایس او کے اراکین سے کی۔
10رمضان کو آپ بخار میں مبتلا ہوئے دو دن بعد طبیعت سنبھلی تین دن بعد پھر بخار ہوا کووڈ ٹیسٹ منفی آیا بخار نہ رہا مگر کھانا پینا چھوڑ دیا دوسری بار کووڈ مثبت آیا آکسیجن لیول کم ہونے پر آکسیجن لگوایا مگر پھر گردوں نے کام چھوڑ دیا 28رمضان فجر کی اذان کے وقت فانی دنیا کو الوداع کیا آپ محبت کرنے والے شفیق والد، ہمدرد، نرم دل اور بلند حوصلہ انسان تھے سوچ مثبت اور اچھے اخلاق کے مالک تھے۔
آپ کی وفات پر سوشل میڈیا
پر چند کمنٹ نظر سے گزرے
A big loss for Balochistan
One of Balochistan finest authors
We are indebted to you for what you have left behind
A sad Moment for Baloch nation and resistance
بلوچ قوم کا ایک غمخوار ہم سے بچھڑ گیا۔
پروفیسر عزیز بگٹی کی رحلت سے بلوچستان کی سیاسی ادب کا ایک باب بند ہو گیا۔
پروفیسر بگٹی جیسے قلم کار صدیوں بعد جنم لیتے ہیں ان کی تصانیف سے بلوچ نسل در نسل اپنی تاریخ، سیاست، زبان، قبائلی نظام سے آگاہ ہوتا رہے گا۔
ایک ریکی لڑکی جو آپ کے نام سے آشنا آپ کے کتابوں کے ذریعے ہوئی آپ کے بعد آپ کے گھر آئی تو یہ کہہ کر رو پڑی کہ کاش مجھے اپ جیسے رائٹر سے ملنے کا موقع ملا ہوتا۔
آپ نے پسماندگان میں صرف بیوہ اور بچے نہیں بلکہ بلوچ قوم کے پڑھے لکھے طبقے کو بھی چھوڑا نوشین قمبرانی لکھتی ہیں ”پروفیسر عزیز بگٹی ایک عظیم ذہانت کار، وطن کے ایک بے غرض عاشق علم اور انسانیت سے محبت کر کے انہوں نے زندگی سے بھرپور وفا کی“ آپ اپنی آخری غیر تکمیل شدہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ”مجھے خالق کی مہربانی، رحم، کرم اور بخشش پر پورا یقین ہے“ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے گمان کے مطابق آپ سے رحم، کرم اور بخشش کا معاملہ کر کے، بلاحساب کتاب جنت میں اعلیٰ مقام عطاء کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں