چھوٹا سقراط

تحریر: انورساجدی
کل رات میں اسلام آباد کی کہانی دوبارہ پڑھ رہا تھا 1958ء کے مارشل لاء کے بعد ایوب خان اس جستجو میں تھے کہ اگر کراچی کو پایہ تخت کی حیثیت سے ترک کیا جائے تو کونسا مقام نئے کیپٹل کیلئے موزوں ہو گا انہوں نے ایک کمیٹی بنائی جسے نئے کیپٹل کے انتخاب کا کام سونپا گیا کمیٹی نے کافی کوشش کے بعد دو مقامات تجویز کئے ایک ایبٹ آباد دوسرا جوہر آباد جو شاید میاں والی کے قریب واقع ہے کمیٹی نے ایبٹ آباد کے حق میں زیادہ دلائل دیئے اس کے معتدل آب و ہوا کی تعریف کی اس کی شادابی کا تذکرہ کیا اور سفارش کی اسے پاکستان کا صدر مقام بنایا جائے کمیٹی کا خیال تھا کہ ایبٹ آباد چونکہ ایوب خان کا آبائی علاقہ ہے لہذا وہ اس کا انتخاب کریں گے ہوا بھی ایسا ہی ایوب خان نے زمین کے حصول کیلئے ہدایات جاری کر دیں لیکن معلوم ہوا کہ اس پہاڑی علاقہ کی بیشتر ملکیت جدون قبائل کی ہے انہوں نے حکومت کا حکم ٹھکرا دیا اور زمین دینے سے انکار کر دیا جوہر آباد کی تجویز یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ وہاں پر 47ڈگری گرمی پڑتی ہے چنانچہ ایوب خان نے ایک اور کمیٹی بنا کر نئے مقامات کی تلاش کی ہدایت جاری کر دیں جبکہ کیپٹل کو فوری طور پر راولپنڈی منتقل کرنے کا حکم دیا 1959ء میں راولپنڈی ایک چھوٹا شہر تھا انگریزوں نے اسے گریژن سٹی بنایا تھا اور یہاں پر جی او سی بیٹھتا تھا چنانچہ مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اتنے سارے محکمے اس شہر میں کیسے سما سکیں گے کوشش کی گئی انگریز دور کی عمارتوں جن میں سے بیشتر کچی تھیں کچھ دیگر عمارتوں کو کام میں لا کر کیپٹل شفٹ کیا گیا اس دوران کمیٹی نے مرگلہ کے دامن میں واقع سطح مرتفع کا بطور کیپٹل انتخاب کیا۔
ایوب خان نے ڈیزائننگ کیلئے انٹرنیشنل ٹینڈر طلب کئے دنیا کے متعدد ممالک کے ماہرین نے اپنے ڈیزائن بھیجے جن میں انگلینڈ، فرانس، جرمنی اور اٹلی جیسے ملک شامل تھے لیکن ایوب خان نے ایک عجیب فیصلہ کیا انہوں نے یونان سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر شہریات کا ڈیزائن پسند کر لیا یہ ایک جوا تھا کیونکہ یونان نسبتاً کم ترقی یافتہ یورپی ملک تھا نئے ڈیزائنر کا تعلق تاریخی شہر ایتھنزسے تھا آج محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد کا بنیادی ڈیزائن تو خوبصورت تھا لیکن ڈیزائنر نے زیر زمین ریلوے لائن کی گنجائش نہیں رکھی اگر رکھتے جو ٹریفک کے مسائل جو آج ہیں وہ درپیش نہ ہوتے اور نہ ہی میٹروبسوں کی ضرورت پڑتی یہ ایک ایسی خامی ہے جس کا ازالہ کبھی نہیں ہو سکے گا اسلام آباد کی بنیاد تو 1960ء میں ڈالی گئی لیکن اس کے مکمل ہونے میں 25 سال سے زائد کا عرصہ لگا نہ صرف یہ بلکہ یونانی ڈیزائنر کے بعد پاکستانی افسران نے جس بھونڈے طریقے سے اس کے نئے سیکٹرز بنائے انہوں نے دنیا کے سب سے زیادہ خوبصورت کیپٹل کو گہن لگا دیا۔
جب ایتھنز کا ذکر آیا تو میں نے تاریخ انسانی کی ان عظیم شخصیات کا مطالعہ کیا جنہوں نے جان کی قربانی دے کر نئی تاریخ رقم کر دی ان میں سے سرفہرست سقراط ہیں کوئی ڈھائی ہزار سال قبل جب انہوں نے پرانے اور ناکارہ نظام کو چیلنج کرتے ہوئے ایک نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت پر زور دیا تو ایتھنز کے حاکم اور مولوی صاحبان ناراض ہو گئے مصاحبین یہ خبر پہنچا چکے تھا کہ سقراط نامی شخص نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے حاکمان وقت نے فرد جرم عائد کرنے سے پہلے علمائے کرام کا ایک فتویٰ حاصل کیا جس میں ان پر دیوتاؤں کی توہین کا الزام لگایا گیا جبکہ اٹارنی جنرل نے جو مقدمہ لکھا اس میں قرار دیا گیا کہ سقراط نوجوانوں کو اکسا رہا ہے کہ وہ سوال کریں نوجوان شہ پا کر قانون، جمہوریت اور دیوتاؤں کے بارے میں سوال کرنے لگے ہیں لہذا یہ ایسا جرم ہے کہ اس کی سزا موت ہے چنانچہ مقدمہ قائم کیا گیا سقراط نے کوئی وکیل نہیں رکھا انہوں نے اپنا دفاع خود کیا ایتھنز کی اس نام نہاد عدالت میں جس کے جج صاحبان مولوی مشتاق اور انوار الحق جیسے تھے سقراط نے جو طویل دلائل دیئے ان کے شاگردوں نے اسے ضابطہ تحریر کی شکل دی جس کا بنیادی نکتہ ہے۔
سوال
حالانکہ سقراط نے خود کوئی کتاب نہیں لکھی ان کی مجلس میں جو لوگ شریک ہوتے تھے وہ سوال پوچھتے تھے سقراط جو جواب دیتے تھے شاگرد اسے لکھ لیتے تھے خود سقراط نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ کوئی فلاسفر ہیں بلکہ تاریخ نے خود ان کا مقام متعین کیا۔
ایتھنز کی جیوری نے فیصلہ دیا کہ سقراط کو سزائے موقت زہر کے ذریعے دی جائے انہیں رحم کی اپیل کرنے کا حق بھی دیا گیا لیکن جیل پہنچ کر انہوں نے جیل حکام سے کہا کہ وہ موت کیلئے تیار ہیں بلکہ زہر پیش کیا جائے چنانچہ اگلے دن علی الفجر ایک منقش پیالہ میں زہر بھر کر لایا گیا اور سقراط کے سامنے رکھا گیا اسی دوران کوئی کارندہ آیا اور کہا کہ اگر سقراط حاکمان وقت اور دیوتاؤں سے معافی مانگیں تو اس کی سزا ختم کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے لیکن سقراط نے کہا کہ میں نے سچ کہا ہے معافی مانگنے کی بجائے میں سچ کو سربلند رکھوں گا اس کے ساتھ ہی انہوں نے زہر کا پیالہ پی لیا اس نے وصیت کی کہ جب وہ مرنے لگیں تو انہیں سہارا نہ دیا جائے اور نہ ہی ان کی موت کے بعد کوئی احتجاج کیا جائے کیونکہ میں نے اپنا فیصلہ تاریخ کے سپرد کر دیا ہے زہر پینے کے بعد وہ کال کوٹھڑی میں ٹہلنے گئے اور جب تک جان تھی وہ کھڑے رہے اس کے بعد وہ گر گئے سانس نکلنے سے پہلے جیل حکام ان پر بیٹھ گئے تاکہ قصہ جلد تمام ہوجائے۔
دوسرا واقعہ عظیم سائنس دان اور ماہر فلکیات گلیلو کا ہے جب انہیں سزائے موت دی گئی تو ان کے سامنے رحم کی اپیل اور معافی کا آپشن رکھا گیا انہوں نے معافی مانگنے کا فیصلہ کیا ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے معافی نامے کو ضابطہ تحریر میں لائیں انہوں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے معافی نامہ لکھ دیا لیکن ایک عجیب حرکت کی آخر میں لکھا دیا کہ
میرے معافی مانگنے سے زمین گول سے چپٹی نہیں ہو جائے گی
معافی نامہ کے بعد ان کی جان بخشی ہو گئی لیکن ملا صاحبان نے انہیں عیسائیت سے خارج کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ واپس نہیں لیا کئی سو سال بعد گزشتہ پوپ نے چرچ کا فیصلہ واپس لے کر گلیلو کو دوبارہ عیسائیت میں شامل کر لیا 1960ء کی دہائی میں جب فوجی آمر جمال گرسل نے عدنان مندریس کو سزائے موت سنائی تو انہوں نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا فیصلہ تاریخ کے سپرد کر کے جا رہے ہیں مندریس پر ایک الزام یہ تھا کہ انہوں نے فرانس میں مقیم آخری عثمانی خلیفہ عبدالحمید کے خاندان کو دوبارہ ترکی میں لا کر بسایا تھا۔
ایک اور اہم واقعہ پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ہے جب ضیاء الحق کی قائم کردہ عدالت نے 3 کے مقابلہ میں 4کی اکثریت سے پھانسی کی سزا سنائی تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سعید مہدی کے مطابق وہ کال کوٹھڑی میں گئے اور بھٹو سے کہا کہ آپ رحم کی اپیل کر سکتے ہیں اس پر بھٹو نے سعید مہدی سے پوچھا کہ آپ میرے دادا کا نام جانتے ہیں انہوں نے کہا جی ہاں انہوں نے پھر پوچھا میرے والد کا کیا نام ہے جواب ملا سر شاہ نواز بھٹو انہوں نے پوچھا ضیاء الحق کے والد کا نام کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں اس پر بھٹو نے کہا کہ میں ایسے آمر سے رحم کی اپیل کر کے اس کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتا میں تاریخ کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا۔
مجھے یہ واقعات اس لئے یاد آئے کہ جب سے حامد میر کا واقعہ ہوا ہے سوشل میڈیا پر ایک بڑی بحث چھڑ گئی سو میں سے نوے فیصد لوگ سرکار کے موقف کے حامی ہیں وہ حامد میر کو قابل گردن زنی سمجھتے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ ملک دشمنی کے الزام میں وہ سزائے موت کا حقدار ہیں جبکہ 10فیصد لوگ انہیں سچ کا بول بالا کرنے والے حق گو اور ان کے بیانیہ کو درست سمجھتے ہیں۔
چنانچہ ان کے ساتھ ہو گا تو وہی جو سقراط کے ساتھ ہوا تھا لیکن حامد میر سقراط نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا قد کاٹھ سقراط جتنا ہے سقراط تو بچپن سے لے کر 70سال کی عمر تک جھوٹ نہیں بولتے تھے لیکن حامد میر بھول بھلیوں اور غلام گردشوں کا سفر طے کر کے زندگی کے آخری حصے میں بدل گئے بالکل اپنے والد پروفیسر وارث میر کی طرح وارث میر اور حبیب جالب صرف دو ایسے دانشور تھے جنہوں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی مخالفت کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ اقتدار اکثریتی جماعت کو منتقل کیا جائے ورنہ یہ ملک ٹوٹ جائیگا لیکن انہیں ملک دشمن قرار دے کر ان کی بات رد کر دی گئی۔
پروفیسر وارث میر کی اصل شخصیت اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا وہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے واحد توانا آواز تھے جنہوں نے ڈٹ کر مارشل لاء کی مخالفت کی بھٹو کی پھانسی اور ضیاء الحق کے عروج کے زمانے میں وہ کوئٹہ پریس کلب آئے جہاں انہوں نے شاندار خطاب کیا انہوں نے مارشل لاء کو غیر مہذب قرار دیا انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح یہ ملک یحییٰ خان کے مارشل لاء کے دور میں دولخت ہوا اگر یہاں پر جمہوریت اور آئین کی بالادستی قائم نہ ہوئی تو ریاست کی سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔
حامد میر نے تدریس کی بجائے صحافت کو پیشہ بنایا کیونکہ اسے سوال پوچھنے کا شوق تھا سوال انسان کا پیدائشی حق ہے اور خود خالق نے بھی اپنی مخلوق کو نہ صرف سوال کرنے کا حق دیا ہے بلکہ خود سے سوال پوچھنے کی آزادی بھی ودیعت کی ہے۔
اگرچہ حامد میر نے جیو کا اینکر بننے تک طویل جدوجہد کی ہے وہ آسانی کے ساتھ یہاں تک نہیں پہنچے اسامہ کے انٹرویو کا اسکوپ مارنے سے لے کر مسنگ پرسنز کا معاملہ اٹھانے تک بظاہر انہوں نے کافی جرات کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ان کی ذات کے جو پہلو پوشیدہ ہیں وہ ہم نہیں جانتے انہوں نے جوانی میں سمجھوتے بھی کئے ہونگے مالی منفقت بھی اٹھائی ہوگی لیکن دنیا اس سے بے خبر ہے لوگ صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ ہر مسئلہ کے بارے میں سوال اٹھاتے تھے میرا تو خیال ہے کہ جیو گروپ نے کافی وقت تک ان کا ساتھ دیا ہے لیکن سیٹھ بالآخر تھک جاتے ہیں اور جب ہاتھی بھاری بھر کم ہو جائیں تو پھر وہ ان کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے اگر جیو اوالے ان کو ان کی تقریر کی وجہ سے آج نہ نکالتے تو میڈیا آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ضرور نکال دیتے کیونکہ مجوزہ آرڈیننس کو میڈیا سے متعلق ورکرو نے میڈیا مارشل لاء کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد پاکستان سے آزاد میڈیا کا وجود ختم ہو جائیگا اور یہ شمالی کوریا بن جائیگا شمالی کوریا نہ بنا تو چین، روس اور ترکی ضرور بن جائیگا۔
میڈیا آرڈیننس محض آغاز ہے کیونکہ حاکمان وقت موجودہ نظام سے تنگ آ چکے ہیں وہ موجودہ آئین اور پارلیمان کو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں میڈیا پر مکمل کنٹرول کے بعد وہ اپنے دیگر منصوبوں پر عمل درآمد کے راستے میں چل پڑیں گے۔
لوگوں کو یاد ہوگا کہ یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالتے ہی اخبارات سے ان تمام لوگوں کو برخاست کروایا تھا جو ان کے نزدیک ترقی پسند یا سرخے تھے بہت جلد سرکش صحافی ہیں ان کیلئے گنجائش نہیں ہوگی اور انہیں یا تو گھروں میں بٹھا دیا جائیگا یہ ان کی جگہ جیل اور عقوبت خانے ہونگے اگرچہ پی ایف یو جے کی سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے ایک ملک گیر تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن حالات بہت نامساعد ہیں عمران خان نے پاکستانی سماج کو تقسیم در تقسیم کا شکار کر دیا ہے جب پی ایف یو جے نے ضیاء الحق کے خلاف تحریک چلائی تھی تو اس وقت پوری قوم متحد تھی اور خود پی ایف یو جے بھی متحد تھی فی زمانہ صرف اس صورت میں کوئی تحریک چل سکتی ہے کہ عوام، وکلاء اور سیاسی کارکنوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا جائے بد قسمتی سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی مصلحتوں کا شکار ہیں اور وہ سقراط بننے کیلئے تیار نہیں ہیں انہوں نے صرف حامد میر کو سقراط بننے کیلئے اکیلے چھوڑ دیا ہے مسلم لیگ ن نے تو اپنے متوالے رہنماء جاوید لطیف کا بھی ساتھ چھوڑ دیا ہے اس نے صحافیوں کا کیا ساتھ دینا ہے سوائے زبانی کلامی حمایت کی اس حقیقت کے باوجود صحافت اور حکمرانوں دونوں کیلئے ایک مشکل وقت آ رہا ہے حکمران اظہار رائے کی آزادی پر شبخون ما کر آرام کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے انہیں ایک سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
1981ء کو جب مجھے سرسری سماعت کی فوجی عدالت نے قید سخت کی سزا سنائی تو میرے اخبار کے مالک نے پیغام بھیجا کہ جیل پہنچنے سے پہلے معافی مانگ کر باہر آ جاؤ کیونکہ جیل جانا سیاستدانوں کا کام ہے صحافیوں کا نہیں لیکن میں نے معافی نہیں مانگی اس تجربہ کی روشنی میں حامد میر سے بھی کہا جائیگا کہ وہ معافی تلافی کر لیں لیکن لگتا ہے کہ حامد میر چھوٹا سقراط تو بننا قبول کریں گے معافی نہیں مانگیں گے حالانکہ اگر ان پر مقدمات قائم کئے گئے اس کی ایک طویل فہرست ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں