قومی ہیروز کا تعین

تحریر: رشید بلوچ
واجہ یار جان بادینی کو داد دینی پڑے گی کم سے کم ہم جیسے کھوتا نظر لوگوں کو اپنے اسلاف کے بارے میں وقتا فوقتا روشناس کراتے رہتے ہیں، انکی یہ جستجو جاری ہے لیکن کیا، کیا جائے 25سال پہلے جس سفر کا اس نے آغاز کیا تھا،آج بھی وہ اکیلے اور تنہا ہیں، ان 25سالوں میں اگر یار جان کے ساتھ سال میں ایک بھی ہم سفر بن جاتا تو یارجان تنہا نہیں بلکہ اسکے پاس 25لوگوں کا قافلہ ہوتا، کوئٹہ پریس کلب میں واجہ عزیز بگٹی کی یاد میں ریفرنس یار جان بادینی کی مرہون منت ہے، عزیز بگٹی کون تھا، اس لاشعور معاشرے کیلئے انکی خد مات کیا تھیں، شاید آج کی نسل کی اکثریت ا س سے بے خبر ہے، اگر یار جان نہ ہوتے تو پتہ ہی نہیں چلتا عزیز بگٹی جیسے ہستیاں کب جئے اور کب مرے، ہمارا معاشرہ کاٹن پوش اور بندوق برداری کرنے والوں کا شیدائی ہے، عزیز بگٹی بھی عجیب نادان شخص تھے انکوکیا ضرورت تھی وہ یونیورسٹی آف Arizonasسے ایم ایس کرتے،ایل ایل بی کرتے یا بلوچی میں آنرزکی ڈگری پالیتے، عزیز بگٹی نے اس قوم کیلئے تصانیف تحریر کئے جس قوم کی اسکی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی، عزیز بگٹی کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی قبائلی پس منظرکو پیش نظر رکھ کر اپنے کمرے کو لائبریری بنا کر کتابوں کی جگہ مشین گن،AK47 جیسے قوم کو لبانے والی بندوقیں سجادیتے تو زیادہ نامور ہوجاتے،انکے حلقہ احباب میں انور ساجدی، یار جان بادینی،شاہ محمد مری،عبدالقادر رند، افضل مراد اور بی ایس او کے چند نوجوانوں کی جگہ علاقے کے میر و معتبر،وڈیرے شامل ہوتے تو پھر دیکھ لیتے انکے نام کی گھونج کہا ں سے کہاں تک پہنچ جاتی،انکے مرنے کے بعد جنازے میں حلقہ احباب کے چارنفوس اور چند ایک بگٹیوں کے بجائے جم غفیر موجود ہوتا،فاتحہ خوانیوں کی فوج ظفر موج امنڈ پڑتی، یہ اتفاق کی بات تھی کہ جس دن عزیز بگٹی اس جہاں سے رخصت ہوئے اسی دن پشتوکے ایک بڑے نامور دانشور سلیم راز عزیزبگٹی کے ہمراہ دوسرے اس جہان کیلئے عازم سفر ہوئے،عزیز بگٹی کے تابوت کیلئے بندے کم پڑ گئے تھے لیکن سلیم راز کے جنازے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی،مرد تو مرد عورتوں کیلئے قبرستان کا دامن تنگ پڑ گیا تھا، اسے کہتے ہیں اپنے اسلاف کی آدرش کو مان سمان دینا، کہنے کو تو ہم بھی قوم ہیں لیکن ہم میں قومیت جیسی نشانی بہت کم پائی جاتی ہے،عزیز بگٹی نے وہی غلطی دوہرائی ہے جویوسف عزیز مگسی سو سال پہلے دہرا چکے ہیں،ابھی کچھ دن ہی قبل یوسف عزیز مگسی کی 86ویں برسی ہوکر گزر ی ہے، مجھ سمیت کتنے ایسے لوگ ہیں جنہیں انکے قبر جاکر چند دقیقے ان کو یاد کرنے کا دراک ہوا ہے، یہ تو بھلا ہو سلیم کرد، ڈاکٹر شاہ محمد مری کا جنہوں نے یوسف عزیز مگسی کو یادکرنے کا بھیڑا اپنے سر لیکر ہم سب کو بری الزمہ کر دیا ہے، ہم سے یہ کبھی نہ پوچھیں کہ عطا شاد، بشیر احمد، ملک پناہ، صبا دشتیاری، نادر قمبرانی،گل خان نصیر، غلام محمد شاہوانی، عزیز کرد،بہادر خان رودینی،بابو شورش، لالا صدیق جیسے لوگ کون ہیں؟ کیونکہ انکے بارے میں کچھ ہمیں نہیں پتہ،اگر ہم سے پوچھنا ہے توکونسلر شمبے کا پوچھیں، وڈیر ہ پنے خان کے بارے میں پوچھیں ہم سب بتا دیں گے، بلکہ سردار پنڈل خان تو ہمارا ہیرو ہے جس کے پل پل کی خبر رکھتے ہیں۔۔۔
اپنے اسلاف کو یاد رکھنے کے حوالے سے ہمیشہ ایک اشکال سامنے آتا ہے کہ ہم مردہ پرست ہیں،لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہم اپنے مردوں کو بھی یاد نہیں کرتے، حروف بالا میں مزکور وہ ہستیاں ہیں جنہوں ہمارے اور آنے والے نسلوں کیلئے علم کے خزانے کھوج کر تشتری میں ہمارے حوالے کی ہیں اس خزانے کو بچائے رکھنے والے اور اس میں اضافہ کرنے کی زمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے،بڑوں سے جڑے رہنے سے ہم اپنا علمی و تاریخی ورثہ بچا سکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں،جو مر گئے ہیں انہوں اپنے حصے کا کام احسن طریقے سے انجام دیا ہے، جو زندہ ہیں انکی صحبت میں رہ کر ہم انکے علمی خزانے کو کھوج کر آنے والے وقت کیلئے زخیرہ کر سکتے ہیں،یار جان بادینی کو اس لیئے بھی داد دینے کو دل کرتا ہے کہ انکے پاس اسلاف کی تجربات پر مبنی کافی سارا مواد موجود ہے، یار جان کے پاس جمع کیا جانے والا زخیرہ آنے والے نسلوں کیلئے رہنمائی کا باعث بن سکتاہے،اس کام میں جتنی دیر ہوگی نقصان کااندیشہ اتنا ہی زیادہ ہوگا،ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہیرو عزم کے چکر میں ہم اپنے اصل ہیروؤں کو بھول بیٹھے ہیں،اسکی بنیادی وجہ ہماری کم علمی اور اپنے اسلاف سے نا واقفی ہے، مرنے والے تو چلے گئے ہیں لیکن جو زندہ ہیں ہمیں انکی قدر اور منزلت کو پہچانا ہوگا، 60اور70کی دہائی میں عام گھرانوں سے اٹھنے والے نوجوانوں نے اپنے بل بوتے پر معاشرے کیلئے اہم کارنامے سر انجام دیئے ہیں یہ تمام لوگ ہمارے ہیرو ہیں،جس شعبے سے میرا تعلق ہے اس میں انور ساجدی اور لالا صدیق نمایا ہستی ہیں، انہوں نے نا مساعد حالات میں اس معاشرے کیلئے زرائع ابلاغ جیسے طاقتور ادارے قائم کیئے ان اداروں نے معاشرے کے صحافت،سیاست و معاشرت کو آکسیجن فراہم کی، ہماری بد قسمتی یہ رہی کہ ہم نے لالا کے تجربات سے رتی برابر مستفید نہیں ہوسکے، انور ساجدی کو اللہ سلامت رکھے وہ ہمارے بیچ موجود ہیں ہمیں انکے تجربات سے مستفید ہونا ہوگا، اسی طرح واجہ شاہ محمد مری اور واجہ منیر جان بادینی نے لٹریسی میں نمایاں کام سر انجام دی ہیں یا اب بھی دے رہے ہیں ان کوخراج تحسین پیش کرنا ہم سب کی زمہ داری ہی نہیں بلکہ ہم پر فرض بنتاہے۔
ہمارے معاشرے کو ٹھیکیداری نظام سیاست نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے، جب سے سیاست میں ٹھیکیداری کا رجحان بڑا ہے، علم و دانش معدوم ہوتا جارہا ہے، اگر ہم 60اور 70کی دہائی کے نسل اور آج کے نسل معازنہ کریں تو علم و عمل کے مقابلے میں ہم آج کافی حد تک پیچھے چلے گئے ہیں،قومیں وقت و حالات کے تحت ترقی کرتے ہیں لیکن ہم بحیثیت قوم مجموعی طور پر پستی طرف چلے گئے ہیں،چونکہ معاشرے کے تمام امور سیاست سے جڑے ر ہتے ہیں،سیاست میں اچھے اور برے رجحان پروان چڑنے سے معاشرے کے دیگر شعبہ جات لا محالہ اسی سمت مڑ جاتے ہیں،جب تک ہمارا سیاسی نظام مثبت رخ اختیار نہیں کرتی معاشرے میں سلجھاؤ آنا ممکن نہیں،سیا ست میں بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت کے ساتھ ساتھ مجموعی مفادت کی جگہ چھوٹی چھوٹی زاتی مفادات ہیں، واجہ انور ساجدی ہماری سیاسی جماعتوں کو این جی او قرار دیتے ہیں لیکن این جی اوز اپنی انجمن میں ہمارے سیاسی جماعتوں سے بہتر کام کر تی ہیں،ان سیاسی جماعتوں کو این جی اوز کے بجائے ٹھیکیداری نظام سیاست کہنا زیادہ بہتر ہوگا، ہمیں سیاسی جماعتوں کی بہتری کا انتظار کیئے بغیر اپنے حصے کا کام کرنے کی ضروت ہے،اپنا قومی علمی ورثہ آنے والے نسلوں کیلئے بچا کر رکھنا ہے تاکہ یہ تسلسل جاری رہ سکے

اپنا تبصرہ بھیجیں