حامد میرروسو اور والٹیر

تحریر: انور ساجدی
پاکستان میں اس وقت ان طاقتوں کا راج ہے جو دنیا کی اس پانچویں بڑی ریاست کے حالات ”جوں کا توں“ رکھنا چاہتی ہیں یعنی طویل”اسٹیٹس کو“ برقرار رکھنا چاہتی ہیں جو جماعت برسراقتدار ہے یا جو اس کی مخالف جماعتیں ہیں جنہیں اپوزیشن کا نام دیا جاتا ہے اسٹیٹس کو کی علمبردار ہیں جو رسہ کشی یا اختلاف نظر آتا ہے وہ ایک دھوکہ ہے اور اس کا مقصد اپنی آئندہ باری کو یقینی بنانا ہے اسٹیٹس کو جاری رکھنے والی جماعتیں دراصل عوام سے خوفزدہ ہیں ان کو ڈر ہے کہ اگر عوام جاگ گئے تو یہ نام نہاد اور عوام دشمن قوتیں ہمیشہ کیلئے اقتدار سے محروم ہو سکتی ہیں ان حالات میں مجھے ایک سابقہ سیاسی کارکن اور ایک میڈیا پرسن کی حیثیت سے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے کردار پر بے حد افسوس بلکہ ملال ہے اگرچہ ن لیگ سے کوئی توقع رکھنا بے وقوفی ہے کیونکہ اس جماعت کو اسٹیٹس کو کی علمبردار طاقتوں نے اپنے ”گملے“ میں اگایا اور کانٹ چھانٹ کر ایک تناوردرخت بنایا مقصد یہ تھا کہ کہیں حقیقی عوامی طاقتیں سیاست میں نہ آ سکیں ن لیگ تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کو ایک طویل مہم کے ذریعے عوام میں قبول کروایا گیا ہے تاکہ کوئی اور نہ آ سکے پاکستان کے حالات کو جوں کا توں رکھنے کی خاطر حکمران طبقات نے قدرتی ارتقاء کو مصنوعی طریقہ سے روک رکھا ہے اس مقصد کیلئے شروع ہی سے ایک جعلی نظریہ جعلی تاریخ اور غلط نصاب بنایا گیا۔
ان آلات کی مدد سے اس ملک کی تین نسلوں کی برین واشنگ کی گئی ہے۔
جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈہ پارلیمانی اور وفاقی نظام کی مخالفت اسی مقصد کیلئے ہے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے باوجود اس ملک کے جو ہیرو ہیں وہ ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف ہیں تواتر کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے انہی تین نقب زن حکمرانوں کے دور میں مثالی ترقی کی پاکستان کے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کیا گیا ہے کہ ایک دن کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی آئیگا وہ کفر کی تمام طاقتوں کو ملیامیٹ کر دے گا غزوہ ہند کے بعد ایک بار پھر بیت المقدس کو آزاد کر دے گا اور آخر کار امت کو فتح مبین حاصل ہوگی جس کے نتیجے میں پوری دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ حاصل ہو جائیگا اسٹیٹس کو کے نمائندوں نے اپنے درباری ملاؤں کے ذریعے اذہان میں ڈالا ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے اصل دنیا آخرت ہے جو دائمی ہے لہذا اس طرح جان جوکھوں واحد کام نہ کرو جو کفار کرتے ہیں ہر دور میں مختلف ملا صاحبان نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے مثال کے طور پر موجودہ دربار سے وابستہ بابرکت ہستی مولانا طارق جمیل کئی سالوں تک جنت اور حوروں کی دلفریب منظر کشی کر کے نوجوانوں کو راغب کرتے تھے کہ اس دنیا کو ترک کر دو تاکہ شراب طہوراً اور حوریں تمہارے حصے میں آئیں لیکن دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے کروڑوں روپے کی لاگت سے اپنا فیشن برانڈ کھولا۔
جہاں صرف ایک لباس ہزاروں روپے میں بیچا جاتا ہے موصوف نے تازہ ترین بیان جمہوریت کے خلاف داغا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے عوام جاہل اور شعور سے عاری ہیں اس لئے وہ غلط فیصلے کر جاتے ہیں لہذا جمہوری نظام اس ملک کیلئے موذوں نہیں ہے۔
اسٹیٹس کو برقرا رکھنے کے سلسلے میں سب سے افسوسناک کردار پیپلز پارٹی کا ہے حالانکہ یہ جماعت اپنے قیام کے تین سال بعد اسٹیٹس کو کو توڑنے میں کامیاب ہوئی تھی جس عوام کو مولانا طارق جمیل جاہل کہتے ہیں انہوں نے نصف صدی پہلے تمام روایتی سیاسی قوتوں کو شکست فاش سے دوچار کر دیا تھا لیکن بالآخر پیپلز پارٹی کی بیخ کنی کی گئی ضیاء الحق قہر بن کر اس پر ٹوٹ پڑا اسٹیٹس کو توڑنے کے جرم میں اس کے بانی کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود اس کا خاتمہ نہ کیا جا سکا پھر 2007ء میں بے نظیر کو قتل کر دیا گیا یہ بھی اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی ایک دانستہ کوشش تھی بے نظیر کے قتل سے ان کا مقصد پورا ہوا کیونکہ ان کے جانشین آصف علی زرداری کا کوئی نظریہ نہیں تھا ان کے نزدیک پارٹی کا مقصد الیکشن میں کامیابی اور اقتدار کا حصول ہے اسی لئے زرداری نے پیپلز پارٹی کا سیاسی کیریکٹر اور لبرل سوچ کو یکسر بدل کر رکھ دیا زرداری نے بلند پایہ قوتوں کا کہا مان کر اپنا رول سندھ تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ فیصلہ یہ تھا کہ کوئی ایک پارٹی پورے ملک پر حکمرانی کے قابل نہ رہے چونکہ عمران خان بالادست طبقات کے مفادات کیلئے زیادہ موذوں تھے اور وہ ریاست کو قرون وسطیٰ کے دور میں لے جانے کے حامی تھے اس لئے انہیں زبردستی مسلط کیا گیا اس طرح اقتدار اور مخالفت یعنی اپوزیشن دونوں عناصر اپنی مرضی کے لائے گئے اس وقت جنگ یہ ہے کہ آئندہ باری کس کی ہو تحریک انصاف اور اپوزیشن کے نظریات اور طرز حکمرانی میں کوئی فرق نہیں ہے کسی جماعت کا کوئی نظریہ نہیں ہے یہ اسٹیٹس کو کے نمائندے حالات کو تبدیل کرنے کے مختلف ہیں۔
میں کل رات انقلاب فرانس کی کہانی پڑھ رہا تھا سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں کوئی میڈیا نہیں تھا صرف سینہ گزٹ کے ذریعے اطلاعات ایک دوسرے کو منتقل ہوتی تھیں لیکن فرانس کے بادشاہ نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ اس نے ”والٹیر“ کو پکڑ کر ایک عقوبت خانے میں ڈالا انہوں نے قید تنہائی کے دوران جو لکھا اس کے شاگردوں نے انہیں پمفلٹ کے ذریعے عام کیا ”والٹیر“ نے لکھا تھا کہ بادشاہ ایک فرد واحد ہے اسے کروڑوں عوام کی قسمت کے فیصلے کا اختیار نہیں ہونا چاہئے یعنی فرانس کی زبوں حالی اقتصادی کساد بازاری عوام کی قابل رحم حالت پر اس وقت کے سیاستدانوں نے کوئی ترس نہ کھایا بلکہ یہ سارے لوگ لوئی چار دھم پانزدھم اور شانزدھم کے دربار سے وابستہ ہو گئے تھے وہ پیرس کے نواح میں بادشاہ کے ساتھ اس کے محل میں رہتے تھے اور عیش کی زندگی گزارتے تھے وہ اس اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے تھے لیکن ایک دن عوام نے غیض میں آ کر بادشاہ کا کام تمام کر دیا۔اسی دوران عظیم فلسفی روسو نے عمرانی معاہدے کا جو تصور پیش کیا وہ سونے پر سہاگا ثابت ہوا۔
اگرچہ پاکستان فرانس نہیں ہے اور نہ ہی یہ یورپ میں واقع ہے نہ ہی عوام اپنے بادشاہ کے خلاف بغاوت کیلئے تیار ہیں کیونکہ کوئی متفقہ اور مشترکہ لیڈر نہیں ہے حالات ہی ایسے استوار کئے گئے ہیں کہ کوئی ملک گیر جماعت نہ ہو کوئی ایک لیڈر نہ ہو جو عوام کی صحیح رہنمائی کر سکے لیکن 18ویں صدی کے مقابلے میں پاکستان میں آج میڈیا ہے میڈیا نے تیز رفتار اطلاعات پہنچا کر عوام کی معلومات اور فہم و ادراک میں بہت اضافہ کر دیا ہے
رہنمائی کا جو فریضہ سیاستدانوں کو تفویض ہوا تھا انہوں نے منافقت اور بے ایمانی سے کام لیا کیونکہ وہ کسی بھی عوام دوست تبدیلی کے مخالف ہیں چنانچہ جو خلا پیدا ہوا اسے میڈیا نے پر کر دیا یہی وجہ ہے کہ میڈیا کو کچلنے کیلئے نیا قانون لانے کا فیصلہ کیا گیا یہ فیصلہ اس خوف کی وجہ سے کیا گیا کہ کہیں میڈیا عوام میں بغاوت کا جذبہ پیدا نہ کر دے بدقسمتی سے اسٹیٹس کو صرف اقتدار کے ایوانوں میں نہیں ہے بلکہ سیاسی جماعتوں مختلف تنظیموں، اخباری مالکان کی تنظیموں اور خود میڈیا کے محنت کشوں کی تنظیموں میں بھی نظر آتا ہے ان تمام طبقات کا مفاد اسٹیٹس کو سے وابستہ ہے کیونکہ اسٹیک ہولڈرز حصہ بقدرجثہ خوش اسلوبی سے حاصل کر رہے ہیں میڈیا میں صرف چند سر پھرے لوگ ہیں جنہوں نے اطلاعات کی رسائی عوام کو دے کر ان کے شعور میں اضافہ کیا ہے چنانچہ ان لوگوں کو روکنے کیلئے ایک آمرانہ قانون نافذ کیا جا رہا ہے جس کے تحت بالادست طبقات پر تنقید کو جرم قرار دیا جا رہا ہے جو لوگ یہ جرم سرزد کریں گے انہیں نکال باہر کیا جائیگا جیسے کہ اینکر حامد میر کو کیا گیا ہے۔
اگرچہ حامد میر ”روسو اور والٹیر،، نہیں ہے چارلس ڈیگال نے کہا تھا کہ اگر والٹیر نہ ہوتے تو آج فرانس سمیت پورا یورپ تاریکی اور ناامیدی میں ڈوبا ہوتا
لہذا سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے بعد جو چند سرکش سرپھرے یا پاگل لوگ ہیں انہیں موجودہ تاریکی کو بدلنے اور اسٹیٹس کو چیلنج کرنے کیلئے باہر نکلنا چاہئے آج کا حامد میر اور ان کے ساتھی والٹیر سے زیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں گوکہ میڈیا کے محنت کشوں اور مالکان کی تنظیموں نے نئے قانون کی مزاحمت کا اعلان کیا ہے لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ زبانی کلامی مخالفت سے آگے نہیں جائیں گے بلکہ سودے بازی کر کے مراعات اور رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے یہ کاروباری لوگ ہیں اور موجودہ اسٹیٹس کو کا حصہ ہیں ان میں ایک حد سے آگے جانے کا حوصلہ نہیں ہے جو لوگ اسٹیٹس کو کو چیلنج کریں گے انہیں میدان کربلا جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن وقت کے یزیدوں کو روکنے کیلئے آخر کسی کو تو میدان میں آنا پڑے گااب جبکہ حامد میر اپنی جاب کھو چکے ہیں ان کے تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں تو انہیں اپنا کردار بدل کر عوام سے رجوع کرنا چاہئے میرے خیال میں عوام اسٹیٹس کو سے تنگ آ چکے ہیں ان کا دم گھٹ رہا ہے انہیں تازہ ہوا کی ضرورت ہے ہو سکتا ہے کہ حامد میر جس مقصد کیلئے اٹھ کھڑے ہوں وہ حاصل نہ کر سکیں لیکن وہ اس کی بنیاد ڈالنے میں ضرور کامیاب ہونگے اگر انہیں اور سرفروش مل گئے تو عوام اس طرح سڑکوں پر نکلیں گے جس طرح وکلاء تحریک کے دوران نکلے تھے شروع میں تو اپنا نام شہیدوں میں لکھوانے کی خاطر سیاسی جماعتیں بھی ساتھ دیں گی لیکن رفتہ رفتہ اس تحریک کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائیگا جو کوفہ کے لوگوں نے کیا تھا لیکن پھر اسٹیٹس کو برقرار نہیں رہ سکے گا میں حامد میر کو بہت گہرائی سے نہیں جانتا لیکن انہوں نے حالیہ دنوں میں خود اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ہر قربانی دینے اور ہر حد پار کرنے کیلئے تیار ہیں لہذا ان سے توقع نہیں ہے کہ وہ ڈٹے رہیں گے ماضی کی طرح معافی تلافی کی کوشش نہیں کریں گے اور عوام کی رہنمائی کیلئے آگے بڑھیں گے ہو سکتا ہے کہ عوامی تحریک کے دوران برابری پارٹی والے جواد احمد ان کا ساتھ دیں یا سیاسی پارٹیوں کے وہ کارکن جو اپنے منافق لیڈروں کے لئے زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگا لگا کر تھک چکے ہوں وہ بھی نئی تحریک میں شمولیت اختیار کریں۔
تبدیلی لانے کا یہی وقت ہے اگرچہ ایک نہتے اور تہی دست دانشور کے مقابلے میں اسٹیٹس کو کی قوتیں بہت طاقتور ہیں لیکن یہ تاریخ ہے کہ جب سیاستدان ناکام ہوں بک گئے ہوں سمجھوتہ کر لیاہو تو دانشوروں نے آگے بڑھ کر کایا پلٹ دی کہ جب سیاستدان ناکام ہوں،بک گئے ہوں تو دانشور آگے بڑھ کر کا یا پلیٹ دیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں