ریپوسیٹ ریڈین سے چیرش تک

تحریر: رشید بلوچ
ریپوسٹ ریڈین اب بوڑھا ہوچکا ہے، کسی کام کانہیں رہا،یہ نہ صرف عمر رسیدہ ہوگیا ہے بلکہ بھیانک حد تک چرند پرند،نباتات اور انسانوں کیلئے خطرہ بھی بن چکا ہے، فیصلہ یہ کیا گیا کہ اسے اب ماردینا چاہئے لیکن اسے ما ردیا جائے پر کیسے؟ یہ بہت بڑا سوال تھا ان لوگوں کیلئے جو اس خطرناک بوڑھے کو مارنے کی ترکیبیں سوچ رہے تھے، یہ بوڑھا اس خود کش حملہ آوار کی مانند ہے جسے خود تو پھٹنا ہی ہے لیکن ساتھ ہی اپنے ارد گرد بہت بڑی تباہی بھی مچانی ہے، سو۔ کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کیوں نہ اس ناکارہ اور خطرناک عمر رسیدہ بڈھے کو خود مارنے کے بجائے بیچ دیا جائے، عموما خود کش حملہ آوار جب اپنے کام کا نہیں ہوتا تو اسے کسی ضرورت مند کے ہاں بیچا جاتا ہے، ایسا کرنے سے دو فائدے ہوتے، خود کش سے جان بھی چوٹ جاتی ہے اور ایک موٹی رقم بھی میسرآتی ہے، دراصل ریپوسٹ ریڈین ایک دیو ہیکل مال بردار جہاز ہے اسکی لمبائی229میٹر ہے یہ انڈونیشیاء کے ایک نجی کمپنی کی ملکیت تھی، اسکی عمر 38سال ہے اس نے 1983سے 2018تک بھر پور زندگی گزاری،دنیا بھر کی سیر کی اور مالک کوا ربوں روپے کا منافع بھی کماکر دیا لیکن یہ اب کسی کام کانہ رہا اور ساتھ میں خطرہ بھی بن گیا تھا، اسے بنگلہ دیش کے ایک نجی شپ بریکر یارڈ کمپنی کو بیچ دیا گیا،جہاز کوگھسیٹ کر بنگلہ دیش کے ساحل سمندر لایا جاتا ہے تاکہ اس کو توڑ تاڑ کر اسکا کام تمام کیا جائے لیکن اسی دوران انٹر پول اور عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے بنگلہ دیش کی حکومت کو ایک ای میل موصول ہوتاہے، ای میل میں کہا جاتا ہے کہ ریپوسیٹ ریڈین ایک خطرناک خود کش حملہ آور ہے اسکے توڑنے سے ماحولیات میں تباہ مچ جائے گی جس میں آس پاس کے انسان، چرند پرند اور سمندری مخلوق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، بنگلہ دیش کی حکومت کو خطرے کا ادراک ہوتے ہی اس جہاز کو فوری طور پر ساحل چھوڑنے کا حکم دیتی ہے،جہاز کا اگلا منزل بھارت ہوتا ہے،مئی 2020کو ریپوسیٹ ریڈین بنگلہ دیش پر حسرت بھری نگاہ ڈال کر بھارت کی جانب رخ کرتا ہے،رینگتے رینگتے یہ جہاز 6ماہ بعد یعنی نومبر 2020کو بھارت کے صنعتی شہر ممبئی کے ساحل کے قریب پہنچتا ہے،اس سے پہلے کہ ممبئی کے ساحل پر لنگر انداز ہو، انٹر پول کا خط بھارتی حکومتی کو پہلے سے ہی موصول ہوچکا ہوتا ہے، بھارت بھی ریپوسیٹ ریڈین کو اپنے حدود میں پھٹنے کی اجازت نہیں دیتا، دوممالک میں لنگر انداز ہونے اور اسے توڑنے کی اجازت نہ ملنے کے بعد ریپوسیٹ کو خریدنے والا بنگلہ دیشی کمپنی کا مالک پریشان ہوجاتا ہے، بوڑھا جہاز بنگالی بزنس مین کیلئے دردر سر بن جاتا ہے، بوڑھے جہاز کا نیا مالک بغیر کسی منافع کمائے اسے بیچ دینے کا منصوبہ بنا تا ہے، نیلامی کیلئے بو لی لگائی جاتی ہے، بولی میں، سری لنکا، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے نجی کمپنیاں شامل ہوتی ہیں لیکن کوئی بھی کمپنی اس خطر ناک جہاز خریدنے کو تیار نہیں ہوتی لیکن پاکستان کا ایک ساہو کار تمام خطرات کو لات مار کر ریپوسیٹ ریڈین کو خرید لیتا ہے، سودا تو طے پاجاتا ہے لیکن اب مشکل یہ آں پڑتی ہے کہ اسے پاکستان لے جا کر توڑا کیسے جائے؟ چونکہ پاکستانی بڑے,, ٹیلنٹڈ،، شاٹ کٹ مارنے میں ماہر ہوتے ہیں تو یہاں بھی مشکل کاحل نکال لیاجاتا ہے، حل یہ پیدا کیا جاتاہے کہ ریپوسیٹ ریڈین کا نام تبدیل کرکے,, چیرش،، رکھا جاتا ہے،اب ریپوسیٹ ریڈین ایک نئے نام اور نئی پہچان کے ساتھ 4اپریل 2021کوممبئی سے سمندر کا سینہ چھیرتے ہوئے 21اپریل کو کراچی پہنچتا ہے، ادھر بھی انٹر پول اور عالمی ماحولیاتی ادارہ اپنی زمہ داری پوری کرتے ہوئے ایف ائی آے اور متعلقہ اداروں کو ای میل کرکے آگاہ کرتے ہیں لیکن پاکستانی بڑے لوگ ہیں وہ ایک فضول قسم کے ای میل کو کسی خاطر میں نہیں لاتے، یہاں تک کے چیرش کراچی کے ساحل سمندر پرلنگر انداز ہوجاتا ہے،چیرش کراچی میں چند دن سستانے کے بعد گڈانی شپ بریکنگ یارڈپہنچ جاتا ہے یہ اسکی آخری ہے۔
ریپوسیٹ ریڈین یا چیرش اتنا خظرناک کیوں ہے اسے ملائشیا ء، بھارت اور بنگلہ دیش میں توڑنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ انٹر پول اور عالمی ماحولیاتی ادارے کے مطابق اس جہاز میں ایک ہزار ٹن سلوپوائن ہے، اس میں پانچ سو ٹن آئل ہے، 60ٹن سلج ہے جبکہ سلج کے اندر 400کلو گرام مرکری بھی ہے،ماہرین کے مطابق جہاز کے اندر تمام مواد انسانوں اور سمندر کے اندر موجود نباتات کے لیئے انتہائی خطرناک ہے، خاص طور پر سلج کے اندر موجودمرکری کسی بھی جاندار کیلئے موت کا باعث بنتا ہے بلکہ اسے اٹم بم کی چھوٹی بہن سے بھی تشبیح دی جاتی ہے،مرکری کے زرات ہوا میں محلول ہوکر سانس کے زریعہ انساں کے اندر داخل ہوتے ہیں جس سے پھیپڑوں کا کینسر، دماغی کینسر جیسے بیما ریوں کا سبب بنتا ہے اسکے علاوہ اس سے جلد کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور آنکھوں کی بینائی بھی چلی جاتی ہے،2013میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ مرکری کی تجارت کو محدود اور اسکی سخت نگرانی کی جا ئے گی، اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے،اس جہاز کو دو رکن ممالک نے اپنے حدود میں توڑنے کی اجازت نہیں دی لیکن کمال چالاکی سے اس خود کش جہاز کا نام بدلواکر گڈانی تک پہنچانے میں صرف جہاز کے ما لک کا نہیں بلکہ اس گھناؤنے عمل میں ایک پوری ٹیم کے عمل دخل ہونے کے آثانظر آرہے ہیں،عموما کسی بھی جہاز کو شپ بریکنگ یارڈ پہنچنے سے پہلے سمندر کے اندر کسٹم کی جانب سے کلیئرنس درکار ہوتی ہے، کسٹم سے کلین چٹ ملنے کے بعد جب جہاز گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں پہنچتاہے، اسکے بعد بلوچستان کے تین محکمے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی بلوچستان، محکمہ لیبر، محکمہ بی ڈی اے کسی بھی جہاز کو مکمل چھان بین کے بعد توڑنے کی کی اجازت دیتے ہیں لیکن یہاں کسی بھی محکمے نے رول آف لاء پر عمل درآمد نہیں کیا، میڈیا پر خبر آنے کے بعد بلوچستان کے ان تینوں محکموں نے اپنی انسپکشن ٹیمیں گڈانی روانہ کردیں،تینوں محکموں نے مشترکہ طور پر جہاز کے اندر موجود مواد میں سے نمونے حاصل کئے،ڈرامائی انداز میں ان نمونوں کو ایک چھوٹے گریڈ کے ملازم کو تھما دیا گیا، جہاز کے مالک نے بڑی فراخ دلی سے بلوچستان کے تما م آفیسران کو کراچی کے ایک انتہائی مہنگے,, سن سیٹ کلب،، کے ریزولٹ میں قیام کروایا بتا یا یہ جا تا ہے کہ اس کلب کی ایک کیمرے کا کرایہ 70ہزار روپے روزانہ ہے، اچھے خاصے قیام و طعام کے بعد محکمے کے زمہ داران واپس کوئٹہ چلے آئے، میڈیا کو بتا یا گیا کہ جہاز کی ٹینکی خشک ہے،خطرے والی کوئی بات نہیں،تین دن بعد حاصل شدہ نمونوں کو کراچی میں ایک نجی لیبارٹری بجھوا دیا گیا، نجی لیبارٹری نے بڑی پھرتی سے اسی شام کو,,سب اچھا،، ہے کی رپورٹ بلوچستان کے ایماندار اور قوم کے خدمت سے سرشار آفیسران کے حوالے کردی، یوں ایک نجی لیبارٹری اور بلوچستان کے تین محکموں کے افیسران اور جہاز مالک نے مل کر انٹر پول اور عالمی ماحولیاتی ادارے کی دروغ گوئی پر انہیں زور دار تھپڑرسید کردیا،اب اطلاعات یہ ہیں کہ جہاز کی گڈانی میں ہی توڑ پھوڑ کی جائے گی، جہاز کی نال کٹنگ ہوگئی ہے،کوئی بھی جہاز نال کٹنگ کے بعد کہیں پر آجا نہیں سکتا،گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے پلاٹ نمبر60میں ایک بہت بڑا کڈھا کھود کر جہاز کے اندر زہریلے مواد کو دفنا دیا گیا ہے، سمجھ لیں شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والے مزدوروں اور گڈانی کے ارد گرد 100کلو میٹرکے حدود میں انسان و دیگر جانداروں کیلئے موت اور بیماریوں کا سامان تیار کردیا گیاہے، ویسے بھی بلوچستان میں بسنے والے کیڑے مکھوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اگر کچھ لوگ مرتے ہیں تو مر جانے دو اس سے قبل 2017میں اسی شپ بریکنگ یارڈ میں 30اور 2016میں 6محنت کش زندہ جلا دیئے گئے تھے کسی کو کیا فرق پڑا؟جو موجودہ مرکری سے لوگ مریں گے کیا توقیامت بھرپا ہوگی۔ریپوسیٹ ریڈین سے چیرش تک کی کرپشن کی یہ داستان چلتی رہے گی

اپنا تبصرہ بھیجیں