افراتفری کا ماحول

دنیا بھر میں افراتفری کا ماحول بن چکا ہے امریکی صدر پریشان ہیں کہ معیشت کو گرنے سے بچائیں یاکہ کورونا کا مقابلہ کریں، کیونکہ کچھ وقت پہلے امریکی معیشت دنیا کی 50 فیصد تھی جو اب آکر 30 فیصد بن چکی ہے، جبکہ دوسری طرف چین میں کورونا ختم ہو رہا ہے اور امریکا میں مزید پھیلتا جا رہا ہے، جبکہ امریکا میں کورونا کو روکنے میں ناکامی کے بعد ٹرمپ اپنی مستقبل کیلئے انتہائی پریشانی کے شکار ہیں کیونکہ امریکی عوام اب اس بات کا مکمل ادراک کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کتنا غیر سنجیدہ شخص ہے۔ بھارت کی آبادی دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے بھارتی حکومت اس اضطراب میں پھنسی ہے کہ اگر لاک ڈاؤن نہ کیا گیا تو امریکا جیسے حالات قائم ہوں گے جبکہ اگر ایسا ماحول بھارت جیسی بڑی آبادی والے ملک میں جنم لیتا ہے تو یہ نہ صرف بھارت کی معیشت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیگا بلکہ وہاں سماجی و سیاسی زندگی کی بھی دھجیاں اڑا دے گا اور اتنی بڑی آبادی کا سامنا کرنے کیلیے بھارتی طبی نظام بھی کسی صورت تیار نہیں ہے جبکہ اگر اسی طرح مزید لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو بھوک اور افلاس سے بھارت میں ایک بڑا انقلاب ابھر سکتا ہے، بھارت کی آبادی کا 68 فیصد دن کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے بھارت کی آبادی کا 800ملین لوگ غریب تصور کیے جاتے ہیں، بھارت پچھلے کچھ سالوں سے معاشی طور پر بڑے پیمانے پر ترقی کر رہا تھا، ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ایک منٹ کے درمیان چالیس افراد غربت کی لکیر سے نکل رہے تھے جبکہ بھارت دنیا کی معیشت میں پانچویں نمبر پر آ گیا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے بھارت میں تمام کاروباری مراکز بند ہو گئے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی نوکریاں کھو رہے ہیں، بھارت کی ایک بڑی آبادی دنیا کے باہر ملکوں میں زندگی گزار رہے تھے اب وہاں پر ان کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئی ہیں دنیا کی معیشت تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ مڈل ایسٹ میں ابھی تک وائرس بڑے پیمانے تک نہیں پھیلا ہے لیکن غالب امکان ہے کہ اگر بہتر پالیسیاں مرتب نہیں دی گئی تو مڈل ایسٹ میں غریب اور جنگ کے شکار ممالک اس وائرس سے بڑی تباہی کا سامنا کر سکتے ہیں، ایران جو پہلے سے ہی امریکی پابندیوں کی وجہ سے سخت معاشی نقصانات کا سامنا کر رہاہے کورونا کے بعد وہاں پر زندگی مزید مشکلات میں گر چکی ہے۔ چین کے بعد ایران دوسرا ملک تھا جہاں پر وائرس بڑے پیمانے پر پھیلنا شروع ہوا تھا جبکہ پاکستان میں بھی کورونا کو لانے میں ایران گئے زائرین کا اہم کردار تھا لیکن پہلے فیز کے بعد ایران میں جس تباہی کی پیشنگوئیاں کی جا رہی تھیں اس طرح کے ماحول ابھی تک دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے جبکہ اس ضمن میں ایرانی حکام کی جانب سے کوششیں ہو رہی ہیں کہ ایران پر لگائی گئی پابندیوں کو اٹھایا جائے لیکن ابھی تک اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر جو ایران کے حوالے سے سخت موقف رکھتے ہیں نے کورونا کے وقت بھی ایران پر مزید معاشی پابندیاں لگائیں تھیں۔ ایران میں پچھلے کچھ دنوں سے حالات معمول پر ہیں جبکہ کورونا کیسز کی تعداد حد سے زیادہ تجاوز نہیں کر گئی ہے لیکن بلاشبہ امکان ہے کہ ایرانی حکام کی ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے وباء کسی بھی وقت زور پکڑ سکتی ہے۔ یہی حال ہمیں افریقا میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
فی الحال تو وہاں تک عالمی و سرکاری سطح پر ریکارڈ کئے گئے کیسز کی تعداد 15000 ہزار جبکہ اموات 800 ہو چکی ہیں جہاں پر ساؤتھ افریقا،مصر الجیریا زیادہ تر متاثر ممالک ہیں، لیکن وقتی لاک ڈاؤن اور حفاظت سے وائرس ابھی تک بڑے پیمانے پر نہیں پھیلا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقا میں وائرس پھیل سکتا ہے جبکہ وہاں پھیلنے کی صورت میں لاکھوں زندگیوں کو لقمہ اجل بنا سکتا ہے افریقا دنیا کی آبادی کا 70 فیصد غربت رکھتا ہے اس ماحول میں اگر وہاں پر ایسی وباء پھیل جاتی ہے جو معیشت کو نگلنے کی طاقت رکھتی ہے جس نے دنیا کی سب سے معاشی قوت امریکا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے تو ایسے ممالک میں حالت کیا ہو سکتی ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں جبکہ ایسے کسی ایمرجنسی حالت میں حکومتیں چائیں بھی تمام افراد کو امداد فراہم نہیں کر سکتی ہیں۔ کورونا کی تباہی کے بعد اٹلی کے صدر نے کہا تھا کہ شاید کورونا یورپی یونین کے خاتمہ کا سبب بن سکتا ہے، یورپی یونین دنیا کی سب سے مضبوط طاقتوں میں شمار ہوتی ہے جبکہ معاشی لحاظ انتہائی طاقتور گردانا جاتا ہے لیکن باوجود اس کی حالیہ تباہی کے بعد وہاں پر ایک افراتفری کا ماحول جنم لے چکا ہے۔ کئی دنوں کی کشمکش و چپقلش کے بعد یورپی یقین اس مقام پر پہنچا اور کورونا کامقابلہ کرنے کیلئے 3.8بلین یوریو کا اعلان کیا۔
دیگر جگہوں کی طرح عالمی ادارے کی طرف سے کورونا کو جنوبی ایشیا کیلئے بھرپور طوفان قرار دیا گیا ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا کا اگلا مرکز جنوبی ایشیا ہو سکتا ہے، یہ رائے کتنی حقیقت ہو سکتی ہے اس کا پتا مستقبل میں چلے گا لیکن جو بے سر و سامانی اور غیر سنجیدگی و بے علمی کی حالت قائم ہے اس وقت اگر کورونا کا وباء بڑے پیمانے پر پھیل جاتی ہے تو اس پر بھارت پاکستان اور بنگلادیش جیسے ممالک کسی بھی طرح مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔
جب یہ وائرس دنیا میں پھیلنا شروع ہوا تو تمام ممالک کی طرف سے بھرپور کوشش کی گئی کی ان کے طبی عملے کے لیے ساز و سامان اور دیگر حفاظتی لوازمات کو یقینی بنایا جائے تاکہ طبی عملہ اس مہلک وباء کا سامنا کر سکے کیونکہ ایسی حالت میں کوئی راکٹ و بم ملکوں کو نہیں بچاتے بلکہ طبی عملہ ایسی جنگوں میں اوّل دستے کا سپاہی کا کردار ادا کرتا ہے لیکن بدبختی سے جب کورونا پاکستان میں داخل ہوا تو سب سے زیادہ خطرہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو لاحق ہو گیا۔ بجائے اس کے وزیر اعظم ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحہ پر کھڑا کرکے اس وباء کا مقابلہ کرنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کرتے اور دنیا کی سب سے بڑی تباہی کا ملک میں داخل ہونے سے پہلے ہی مضبوط و مربوط منصوبہ بندیوں سے مقابلہ کیلئے تیاری کرلیتے وہ ہمیشہ کی طرح سیدھا چندہ مانگنے، قرض معاف کرنے، خیرات دینے، باہر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو ڈالر بھیجے اور اپنے ایک الگ خیراتی پروگرام کی تیاریوں میں لگ گئے، اس سے کیا ہونا تھا وہی ہوا جس کا کسی بھی باشعور انسان کو ادراک تھا۔ بڑی غیر سنجیدگی سے ایران میں موجود زائرین کو بلوچستان میں لایا گیا، پہلے کوئٹہ میں وائرس کو پھیلایاگیا شاید زائرین کو پاکستان داخل کرانے والے سوچ رہے تھے کہ اگر کورونا کا کوئی کیس آئے گا بھی تو بلوچستان میں آئے گا باقی ملک تو محفوظ ہوگا، خیر ان کی اپنی سوچ تھی لیکن بلوچستان حکومت کو سب سے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیے تھا لیکن اس کے بجائے وزیر اعلی لوگوں سے اپیلیں کرنے لگے کہ اپنے گھروں کی بالکنیوں سے نکل کر طبی عملے کو سلیوٹ کیا جائے جبکہ بلوچستان کی آبادی کا 98 فیصد کچے مکانوں میں آباد ہے۔ ہو سکتا ہے ایسے ٹوئٹ کرنے سے پہلے وزیر اعلی صاحب ہالی وڈ فلم دیکھ رہے تھے۔ خیر سلیوٹ کے دوسریدن جب یہی ڈاکٹرز حفاظتی ساز و سامان کیلئے احتجاج کو نکلے تو انہیں بندوقوں کے بٹ سے سلام پیش اور جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ پاکستان میں ایک ایسا مضبوط طبقہ ہمیشہ موجود ہے جو آفت و تباہ کاریوں کے وقت سب سے زیادہ منافع کماتا ہے۔ ابھی ہی کچھ دن پہلے پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار چینی بحران کے دوران زیادہ منافع کمانے والے افراد نکل آئے۔ یہ بس ایک کیس ہے نجانے ایسے بحرانیں قائم کرکے یہ لوگ کتنا پیشہ جمع کرتے ہیں۔
اس وقت کورونا کو مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو جاپان، چین، یو ای اے، امریکا، یورپی یونین اور دیگر کئی ملکوں و اداروں کی طرف سے ساز و سامان اور امداد و مدد ملی ہے لیکن یہ سب کہاں جا رہے ہیں اس کا کسی کو معلومات نہیں ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پورے پاکستان میں اب تک کورونا کے آغاز سے ہی 100 سے زائد ڈاکٹرز کورونا کے شکار ہو چکے ہیں جبکہ طبی عملہ تمام صوبوں میں کٹس و دیگر حفاظتی سامان کیلئے سراپا احتجاج ہے تو یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آیا یہ سارا سامان جا کہاں رہے ہیں؟اس کے علاوہ ملک بھر میں ایک افراتفری کا ماحول قائم کیا گیا ہے حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن عوام کو ریلیف دینے اور امداد دینے میں مکمل طور پر ناکام ہے، اب لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کورونا انہیں لقمہ اجل بنائے گا نہیں لیکن بھوک ضرور ان کو موت کے منہ میں دھکیل دے گی انہی حالات کا تدارک کرتے ہوئے تاجر برادری نے حکومت کو صاف کہا ہے کہ وہ مزید اس لاک ڈاؤن کو برداشت نہیں کرسکتے جبکہ وہ دکانیں کھول دینگے ایک ایسا ماحول بنتا جا رہا ہے جیسے کوئی بڑا طوفان آنے والا ہے حکومت بار باد یہ دہراتی آئی ہے کہ لوگوں کا بھوک سے مرنے کا خدشہ ہے، حکومت سب کو سہولیات فراہم نہیں کر سکتی ہاں البتہ وہ الگ بات ہے کہ جام کمال نے صوبے بھر میں عوام کو موبائل ایپ کے ذریعے روٹی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ رونے دونے کے بجائے تمام پارٹیوں کو ساتھ ملا کر جامع پالیسی وضع کرے جو عوام کے حق میں ہو جس سے لوگ بھوک سے بھی نہ مریں اور احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنے گھروں میں بھی رہیں لیکن ابھی تک ایسی کسی بھی حکمت عملی کے آثار دکھائی نہیں دے رہی ہے جبکہ حکومت اس بات پر خوش ہے کہ اٹلی میں 20 ہزار افراد اس وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہماری کامیابی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں ابھی تک کیسز پانچ ہزار ہیں لیکن انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اٹلی میں بھی پہلے کیسز سینکڑوں میں تھے۔ جو بعد میں ہزاروں میں چلے گئے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں