افراتفری کا ماحول


فی الحال تو وہاں تک عالمی و سرکاری سطح پر ریکارڈ کئے گئے کیسز کی تعداد 15000 ہزار جبکہ اموات 800 ہو چکی ہیں جہاں پر ساؤتھ افریقا،مصر الجیریا زیادہ تر متاثر ممالک ہیں، لیکن وقتی لاک ڈاؤن اور حفاظت سے وائرس ابھی تک بڑے پیمانے پر نہیں پھیلا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقا میں وائرس پھیل سکتا ہے جبکہ وہاں پھیلنے کی صورت میں لاکھوں زندگیوں کو لقمہ اجل بنا سکتا ہے افریقا دنیا کی آبادی کا 70 فیصد غربت رکھتا ہے اس ماحول میں اگر وہاں پر ایسی وباء پھیل جاتی ہے جو معیشت کو نگلنے کی طاقت رکھتی ہے جس نے دنیا کی سب سے معاشی قوت امریکا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے تو ایسے ممالک میں حالت کیا ہو سکتی ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں جبکہ ایسے کسی ایمرجنسی حالت میں حکومتیں چائیں بھی تمام افراد کو امداد فراہم نہیں کر سکتی ہیں۔ کورونا کی تباہی کے بعد اٹلی کے صدر نے کہا تھا کہ شاید کورونا یورپی یونین کے خاتمہ کا سبب بن سکتا ہے، یورپی یونین دنیا کی سب سے مضبوط طاقتوں میں شمار ہوتی ہے جبکہ معاشی لحاظ انتہائی طاقتور گردانا جاتا ہے لیکن باوجود اس کی حالیہ تباہی کے بعد وہاں پر ایک افراتفری کا ماحول جنم لے چکا ہے۔ کئی دنوں کی کشمکش و چپقلش کے بعد یورپی یقین اس مقام پر پہنچا اور کورونا کامقابلہ کرنے کیلئے 3.8بلین یوریو کا اعلان کیا۔
دیگر جگہوں کی طرح عالمی ادارے کی طرف سے کورونا کو جنوبی ایشیا کیلئے بھرپور طوفان قرار دیا گیا ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا کا اگلا مرکز جنوبی ایشیا ہو سکتا ہے، یہ رائے کتنی حقیقت ہو سکتی ہے اس کا پتا مستقبل میں چلے گا لیکن جو بے سر و سامانی اور غیر سنجیدگی و بے علمی کی حالت قائم ہے اس وقت اگر کورونا کا وباء بڑے پیمانے پر پھیل جاتی ہے تو اس پر بھارت پاکستان اور بنگلادیش جیسے ممالک کسی بھی طرح مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔
جب یہ وائرس دنیا میں پھیلنا شروع ہوا تو تمام ممالک کی طرف سے بھرپور کوشش کی گئی کی ان کے طبی عملے کے لیے ساز و سامان اور دیگر حفاظتی لوازمات کو یقینی بنایا جائے تاکہ طبی عملہ اس مہلک وباء کا سامنا کر سکے کیونکہ ایسی حالت میں کوئی راکٹ و بم ملکوں کو نہیں بچاتے بلکہ طبی عملہ ایسی جنگوں میں اوّل دستے کا سپاہی کا کردار ادا کرتا ہے لیکن بدبختی سے جب کورونا پاکستان میں داخل ہوا تو سب سے زیادہ خطرہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو لاحق ہو گیا۔ بجائے اس کے وزیر اعظم ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحہ پر کھڑا کرکے اس وباء کا مقابلہ کرنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کرتے اور دنیا کی سب سے بڑی تباہی کا ملک میں داخل ہونے سے پہلے ہی مضبوط و مربوط منصوبہ بندیوں سے مقابلہ کیلئے تیاری کرلیتے وہ ہمیشہ کی طرح سیدھا چندہ مانگنے، قرض معاف کرنے، خیرات دینے، باہر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو ڈالر بھیجے اور اپنے ایک الگ خیراتی پروگرام کی تیاریوں میں لگ گئے، اس سے کیا ہونا تھا وہی ہوا جس کا کسی بھی باشعور انسان کو ادراک تھا۔ بڑی غیر سنجیدگی سے ایران میں موجود زائرین کو بلوچستان میں لایا گیا، پہلے کوئٹہ میں وائرس کو پھیلایاگیا شاید زائرین کو پاکستان داخل کرانے والے سوچ رہے تھے کہ اگر کورونا کا کوئی کیس آئے گا بھی تو بلوچستان میں آئے گا باقی ملک تو محفوظ ہوگا، خیر ان کی اپنی سوچ تھی لیکن بلوچستان حکومت کو سب سے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیے تھا لیکن اس کے بجائے وزیر اعلی لوگوں سے اپیلیں کرنے لگے کہ اپنے گھروں کی بالکنیوں سے نکل کر طبی عملے کو سلیوٹ کیا جائے جبکہ بلوچستان کی آبادی کا 98 فیصد کچے مکانوں میں آباد ہے۔ ہو سکتا ہے ایسے ٹوئٹ کرنے سے پہلے وزیر اعلی صاحب ہالی وڈ فلم دیکھ رہے تھے۔ خیر سلیوٹ کے دوسریدن جب یہی ڈاکٹرز حفاظتی ساز و سامان کیلئے احتجاج کو نکلے تو انہیں بندوقوں کے بٹ سے سلام پیش اور جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ پاکستان میں ایک ایسا مضبوط طبقہ ہمیشہ موجود ہے جو آفت و تباہ کاریوں کے وقت سب سے زیادہ منافع کماتا ہے۔ ابھی ہی کچھ دن پہلے پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار چینی بحران کے دوران زیادہ منافع کمانے والے افراد نکل آئے۔ یہ بس ایک کیس ہے نجانے ایسے بحرانیں قائم کرکے یہ لوگ کتنا پیشہ جمع کرتے ہیں۔
اس وقت کورونا کو مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو جاپان، چین، یو ای اے، امریکا، یورپی یونین اور دیگر کئی ملکوں و اداروں کی طرف سے ساز و سامان اور امداد و مدد ملی ہے لیکن یہ سب کہاں جا رہے ہیں اس کا کسی کو معلومات نہیں ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پورے پاکستان میں اب تک کورونا کے آغاز سے ہی 100 سے زائد ڈاکٹرز کورونا کے شکار ہو چکے ہیں جبکہ طبی عملہ تمام صوبوں میں کٹس و دیگر حفاظتی سامان کیلئے سراپا احتجاج ہے تو یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آیا یہ سارا سامان جا کہاں رہے ہیں؟اس کے علاوہ ملک بھر میں ایک افراتفری کا ماحول قائم کیا گیا ہے حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن عوام کو ریلیف دینے اور امداد دینے میں مکمل طور پر ناکام ہے، اب لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کورونا انہیں لقمہ اجل بنائے گا نہیں لیکن بھوک ضرور ان کو موت کے منہ میں دھکیل دے گی انہی حالات کا تدارک کرتے ہوئے تاجر برادری نے حکومت کو صاف کہا ہے کہ وہ مزید اس لاک ڈاؤن کو برداشت نہیں کرسکتے جبکہ وہ دکانیں کھول دینگے ایک ایسا ماحول بنتا جا رہا ہے جیسے کوئی بڑا طوفان آنے والا ہے حکومت بار باد یہ دہراتی آئی ہے کہ لوگوں کا بھوک سے مرنے کا خدشہ ہے، حکومت سب کو سہولیات فراہم نہیں کر سکتی ہاں البتہ وہ الگ بات ہے کہ جام کمال نے صوبے بھر میں عوام کو موبائل ایپ کے ذریعے روٹی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ رونے دونے کے بجائے تمام پارٹیوں کو ساتھ ملا کر جامع پالیسی وضع کرے جو عوام کے حق میں ہو جس سے لوگ بھوک سے بھی نہ مریں اور احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنے گھروں میں بھی رہیں لیکن ابھی تک ایسی کسی بھی حکمت عملی کے آثار دکھائی نہیں دے رہی ہے جبکہ حکومت اس بات پر خوش ہے کہ اٹلی میں 20 ہزار افراد اس وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہماری کامیابی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں ابھی تک کیسز پانچ ہزار ہیں لیکن انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اٹلی میں بھی پہلے کیسز سینکڑوں میں تھے۔ جو بعد میں ہزاروں میں چلے گئے۔
٭٭٭
Load/Hide Comments