قومی یا ماہرین کی حکومت؟؟؟

راحت ملک
کورونا وباء کا پھیلاؤ روکنے کے لیے حکومتی پالیسی سازی میں بچاؤ و تحفظ کیلئے درکار یکسو دانائی و بصیرت کے فقدان سے متعلق سیاسی، صحافتی، اہل دانش کی سنجیدہ بحث میں مزید گہرائی اور نئے خدشات و سوالات داخل کر دیئے ہیں چنانچہ درپیش افتاد سے کیسے نبردآزما ہوا جائے؟؟ اب یہ سوال پہلے سے زیادہ ذہانت و متانت کے ساتھ غوروفکر کا متقاضی ہے جس کیلئے ذاتی،جماعتی اور گروہی خواہشات سے بالاتر ہو کر سوچ بچار کے بعد نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے علاوہ ازیں اس امر کو قبول کر لینے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے جو گزشتہ 20سال کی حکمرانی کے عملی اثرات کے طور پر نوشتہ دیوار ہے نیز گزشتہ حکومت کے خلاف کی گئیں معاندانہ سیاست کے کردار اور اس میں غیر سیاسی عنصر کی فعال موجودگی کے اثرات کو تسلیم کرنا بھی اب اشد ضروری ہو گیا ہے۔جبکہ خوش قسمتی سے یہ کہانی بھی پس منظر و پیش منظر کی سبھی جزیات کے ساتھ دیوار پر لکھی سچائی کا روپ اختیار کر چکی ہے۔
سردست یہ مفروضہ مسلمہ حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ موجودہ حکومت کورونا وباء سے نمٹنے کی صلاحیت اور استعداد کار اور بصیرت افروز حکمت تشکیل دے کر اس پر وسیع البنیاد اتفاق رائے (سیاسی) معنوں میں قائم کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی جبکہ بحران جس کی کئی ایک جہتیں ہیں جو منہ کھولے انسانی المیوں کو جنم دینے کیلئے دھاڑ رہی ہیں سو ایک رویہ توتوکل پسندانہ ہو سکتا ہے کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا دوسرا عاقلانہ اور شرعی تقاضے سے ہم آہنگ کہ مرض سے شفا کیلئے پہلے دوا کا بندوبست کیا جائے اور پھر وباء کے موثر اثرات و شفایابی کیلئے دعا کا سہارا لیا جائے۔
ثانی الذکر رجحان طبع کا تقاضہ ہے کہ اس سوال پر غور ہو کہ پیش یا افتادگی سے نبردآزمائی کیسے ممکن الحصول بنائی جا سکتی ہے؟
بلاشبہ وسیع البنیاد اتفاق رائے اور متحد و مشترکہ جدوجہد۔ و کاوشیں ہی معنی خیز ہو سکتی ہیں اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا تو عملیت پسندی کہتی ہے کہ ایسا کن کن ذرائع پر عمل کر کے ممکن ہو سکتا ہے؟ بحث کے اس مرحلہ پر دو مکتب سامنے آ رہے ہیں۔
ایک فوری طور پر قومی حکومت کی تشکیل کا حامی ہے تو دوسرا قومی حکومت ناقابل قبول کا نعرہ مستانہ پہ گامزن ہے۔
دوسرے نقطہ نظر پر پہلے بات کرتے ہیں اس مکتب خیال کے پاس مثالیت پسند تصورات پر مبنی امید بہار رکھنے کے علاوہ کہنے کو کچھ نہیں اور وہ مسائل کے حل کی بجائے موجودہ مخمصے۔۔یعنی حکومت کی ناقص کارکردگی جس پر آج سپریم کورٹ نے مہر ثبت کر دی ہے کو ہر حال بچانے میں مصروف ہے اور دلائل کا ایسا طومار باندھ رہے ہیں جو آج سے بیس ماہ قبل اپنائے گئے انکے خیالات عالیہ کی سراسر نفی کرتے ہیں تاہم اس سے انکی ذہنی کیفیت پر فرق نہیں پڑتا کیونکہ یوٹرن تو عظیم ذہین افراد کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ والی بات ان کے اعمال کے دفاع میں دیوار چین بن جاتی ہے۔
بنیادی طور پر قومی حکومت کی مخالفت کرنے والے ایک فکری مغالطے کے ساتھ شریک گفتگو ہیں وہ قومی حکومت کو ماہرین یعنی ٹیکنوکریٹ کی حکومت کے ہم معنی قرار دے کر اسے غیر آئینی مارشل لاء قرار دیتے اور اب فرماتے ہیں کی مارشل لاء نے ہی ملک کو سب سے زیادہ کمزور کیا ہے۔ بقول ان کے ماہرین کی حکومت درپیش صورتحال میں مزید تباہ کن ہوگی اس استدلال سے اگر قومی حکومت کے تصور کو الگ کر لیا جائے تو باقی نکات یقینا تاریخی سچائی کے حامل ہیں اس لئے یہ سمجھنا اشد ضروری ہے کہ درپیش صورتحال میں جہاں مسائل گھمبیر ہوتے جا رہے ہین اور شعوری کوشش کے ذریعے جمہوری فیصلہ سازی کے عمل کو منجمد کر دیا گیا ہے دراصل قومی حکومت اسی منجمد شدہ آئینی پلیٹ فارم کی از سر نو موثر بلامداخلت فعالیت کا نام ہے اور اسے ماہرین کی حکومت کے فرسودہ مگر دیرینہ خواب و آرزو کے ساتھ نتھی کرنے کا لازمی اور منطقی نتیجہ پارلیمان کی بے توقیری برقرار رکھنے بلکہ اسے مزید بڑھاوا دینے کی صورت نکلتا ہے۔
اس بحث میں تباہ حال معاشی صورتحال انحطاط پذیر معاشی شرح نمو کورونا وباء کے اقتصادی منفی اثرات کی روشنی میں یہ خدشہ ظاہر کی کہ بعد از کورونا (ہم کتنے انسانی المیوں کے بعد اس منزل تک پہنچیں گے؟) پاکستان کی معیشت بیرونی قرضے ادا کرنے کی سکت کھو چکی ہوگی!!! مسائل بہت پیچیدہ ھوتے دکھائی دیتے ہیں. یہ ایک بھیانک خدشہ ہے اور فوری توجہ کا طلب ہی نہیں سریع الحرکت تدارک کا بھی تقاضہ کرتا ہے اس حوالے سے عالمی مالیاتی اداروں کو وزیراعظم کی جانب سے لکھے گئے خطوط جن میں عالمی مالیاتی اداروں سے غریب و مقروض ممالک کی مالی مدد کی اپیلیں کی گئیں ہیں قابل غور ہیں بالخصوص اتوار 12اپریل کو جس انداز کے ویڈیو پیغام کے ذریعے وزیراعظم نے دنیا سے اپیل کی ہے وہ جتنی عجلت آمیز ہے اسی نسبت سے مضحکہ خیز بھی ہے. خدشات کی تائید کرتی ہوئی۔ خیر۔۔۔
سوال یہ ہے کہ کیا عالمی مالیاتی مہاجنوں کی انجمن کے متعلق یہ خوش گمانی عقلمدانہ ہے کہ وہ بہت رحمدل افراد کا کارٹل ہے؟؟؟؟؟ جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی گئی اپیل پر غور کرے گا اور سود ہی نہیں اصل زر بھی معاف کر دے گا!!!! اگر ہم ان خطوط پر سوچ کر پالیسی سازی کر رہے ہیں تو پھر حماقت کسی دوسری چیز کا نام کیسے ہو سکتا ہے؟
مجھے یہ خدشہ کہ ہم بیرونی قرضے ادا کرنے سے عاجز ہوں گے اس سوال پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ایسی صورتحال کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
کیا عالمی مالیاتی شکنجہ یا مہاجن و ساہوکار کی عالم گیر انجمن محض ہماری اپیل پر قرضے معاف کر دے گی یا وہ نادہندگی کی صورت میں ہمارے اثاثے ضبط کرنے کی کوشش کرے گی؟
رحم اور انسانیت عالمی مالیاتی سرمائے کی گھٹی میں تو موجود نہیں تو لازماً وہ ہم سے ہمارے ان اثاثوں کو ہتھیانے کی کوشش کرے گی؟ جو ہمارے پاس ہیں مگر ان کی. موجودگی. پر وہ شدید تحفظات بھی رکھتے ہیں۔ ایسے کونسے اثاثہ جات ہیں۔۔جنہیں مہاجن قبول کر لیں گے؟ اسی سوال کو زیادہ عمیق نگاہی سے سمجھنے کیلئے عالمی ساہوکاروں کی انجمن کے کارپردازوں کے ان شکوک و خدشات کو یاد رکھنا ہوگا جن کی موجودگی پر وہ علی الاعلان خدشات تحفظات اور عالمی امن کیلئے ضرر رساں ہونے کے فتویٰ صادر فرما چکے ہیں کیا ہم قرضوں کی ادائیگی نہ کر سکنے کی وجہ سے اپنے مذکورہ صدر اثاثے مہاجنوں کے سپرد کرنے کیلئے آمادہ ہیں؟ اس پر غور کریں تو ہم لازمی طور پر درپیش صورتحال سے بہ احسن نبردآزمائی کیلئے قومی حکومت کی تشکیل کے تصور سے اتفاق کریں گے جس کے اجزائے ترکیبی
الف۔ پارلیمانی اراکین پر مشتمل ہوں کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ وسیع النظر اتفاق رائے سے نئی قومی عبوری حکومت قائم کی جائے۔
1) جو کورونا وباء کے مقابلے کیلئے مربوط موثر سریع الحرکت متفقہ پالیسی وضع کرے ایسی پالیسی جو وباء کو روکنے اور پسماندہ طبقات کی کفالت کا آبرو مندانہ رستہ اپنائے اور معیشت کی جلد بحالی کیلئے وباء کے پھیلاؤ پر جلد از جلد قابو پانے کی کامیاب سعی کرسکے۔
ب) مذکورہ قومی حکومت بعد ازاں ایسی انتخابی اصلاحات و آئینی ترامیم کرے جن کے نتیجے میں
1) عام انتخابات شفاف، قابل بھروسہ انداز مین پرامن ماحول میں منعقد ہوں۔
2) کوئی ریاستی محکمہ فرد یا حلقہ انتخابی عمل اور سیاست پر اثر انداز نہ ہو سکے انتخابی عمل کا سارا نظام غیر مبہم ہو جدید مواصلاتی ذرائع بروئے کار لائے جاسکیں تاکہ نتائج بدلنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنائے بلکہ کسی کو ایسا کرنے و سوچنے کیلئے گنجائش ھی نہ کرے۔
3) بعد از انتخابات قائم ہونے والی پارلیمان کو ملک کی سب سے سپریم مقتدر اتھارٹی تسلیم کیا جائے ہر قسم کی پالسیی/ فیصلہ سازی اس کا غیر متزلزل استحقاق ہو نیز تمام جمہوری پارلیمانی اداروں بشمول سینیٹ اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات ایک ساتھ از سر نو کرائے جا ئیں تاکہ اسٹیٹس کو موجود نہ رہے۔ اس بات کا اختیار نئی پارلیمان کا استحقاق ہو کہ ملک میں بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ و سانچہ اور اختیارات کی نوعیت متعین کرے تو شایدآنے والے دنوں تک گھمبیر بھیانک صورتحال سے بچ سکیں۔!!!!
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں