شریف فیملی‘پرانا مقدمہ‘ نیا موڑ

شریف فیملی کووزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے وقت ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ہوا کا رخ تبدیل ہوگیا ہے لیکن انہیں بادِ مخالف کی تندی /شدت کا اندازہ نہیں تھا۔انہوں اس بار بھی یہی سمجھا کہ ماضی میں دباؤ کی جو حکمتِ عملی اپنائی تھی وہی آزمائی جائے۔چنانچہ اسلام آباد(پنجاب ہاؤس) سے لاہور(جاتی امراء) جانے کے لئے موٹر وے کا سنسان راستہ پسند نہیں کیا، جی ٹی روڈ سے واپسی کا فیصلہ کیا۔لیکن عوام(لیگی کارکن) ان کی توقعات سے کم آئے۔یہ اقتدار سے محرومی کے بعد پہلاعوامی ردِ عمل تھا۔اس کے بعد بھی وہ عوام کے سامنے یہی سوال دہراتے رہے:”مجھے کیوں نکالا؟“، ”مجھے کروڑوں عوام نے ووٹ دے کروزیر اعظم بنایا ہے ایک کمرے میں بیٹھے 5ججز مجھے کیسے نکال سکتے ہیں؟“،نجی محفلوں میں وہ یہ بھی کہتے رہے:”اگر میرارہن سہن میرے ذرائع آمدنی سے زیادہ ہے تو تمہیں کیا؟“اس رویئے سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ اس مرتبہ بھی وہ کسی حد تک مغالطے میں رہے، وہ آخری لمحے تک یہی سمجھتے رہے کہ اپنے سینے میں دفن رازوں کو افشاء کرنے کی دھمکی سے مخالفین کو رام کر لیں گے۔جبکہ حالات کہیں آگے پہنچ چکے تھے۔عالمی منظر بھی پرانا نہیں رہا، امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ جیسا سپر پاور ہونے کادعویدار شام میں اسدالبشار کو ہٹانے میں ناکام رہا۔ ان کے جانشین جوبائیڈن کو کابل میں جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی چشم کشا اور سبق آموز تھی۔امریکی انتخابات کو 10ماہ گزر گئے ہیں مگر معزول سابق وزیر اعظم اپنے کم علم اور کم فہم مشیروں کے جھرمٹ سے باہر نہیں نکلے۔شاید نئے عدالتی حکم کے بعد انہیں محسوس ہو کہ اب ناقابل واپسی مقام تک پہنچ گئے ہیں۔ سیانے بہت پہلے کہہ گئے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ مقصد یہ ہے کہ حالات پلٹ جائیں تو رحم دلی اور حسن سلوک کی امید نہ کی جائے، سختیاں برداشت نے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔شریف فیملی نازوں میں پلی ہے، ہلکی پھلکی سختی کے دوران ہی بیرون ملک جانا پسند کیا۔قسمت اچھی تھی، تیسری بار بھی وزارت عظمیٰ مل گئی۔لیکن اس موقعے کو بھی پرانی پالیسی پر چلتے ہوئے نہ صرف کھو دیا بلکہ سیاست کاوہ دروازہ بھی خود پر اور اپنے خاندان پر ہمیشہ کے لئے بند کر لیا، جو اتفاقاً قسمت کی پری نے مہربان ہو کرتین دہائیاں پہلے کھولا تھا۔مقتدر حلقوں کو زیر کرنے کی دھن میں تلخی اس قدر بڑھالی ہے کہ اسے دور کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔مبصرین کی محدود تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اگر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی دی ہوئی ڈیڈ لائن (فروری2022)سے پہلے پاکستان واپس آگئے تو ٹھیک، ورنہ آنا اور نہ آنا بیکار ہوگا۔سابق وزیر اعظم کے بہی خواہ انہیں سمجھاتے رہے کہ اس بار حالات کے تیور ماضی کے مقابلے میں خاصے بدلے نظر آتے ہیں، ہاتھ ہولا رکھیں بلکہ اپنے جانشین کو آگے کرکے خود پس منظر میں چلے جائیں۔ لیکن انہوں نے جسے جانشین بنانا چاہا اسے پذیرائی نہیں ملی۔ ان کی مزاحمت والی پالیسی کے ساتھ نامزد جانشین بھی بیٹھ گئی۔قائدکے لئے علامہ اقبال نے شاہین کو علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔اور واضح کردیاتھا:۔’نہیں تیرا نشیمن قصرِ شاہی کے گنبد پر// تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں‘۔سابق وزیر اعظم نے یہ ہدایت فراموش کر دی،اور قصرِ شاہی کے گنبد پر بسیرا کرنے کے عادی ہوگئے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تندیئ باد مخالف کا مقابلہ کرنے کی سکت کھو بیٹھے۔ اب تونوبت یہ ہوگئی ہے کہ ان کے دائیں بائیں کھڑے ہونے والے بھی چپکے سے ادھرادھر ہونے لگے ہیں۔شنیدہے کہ مسلم لیگ نون کاایک 20رکنی وفد لندن جانے کی تیاری کر رہا ہے تا کہ اپنے تاحیات قائد سے پاکستان واپسی بارے براہِ راست ہاں یا ناں میں جواب لے سکے۔ باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد وہ (20رکنی وفد اوران کے ہم خیال ساتھی)اپنا فیصلہ سنائیں گے کہ ان کااگلا پڑاؤ کہاں ہوگا۔ سیاست میں ساری زندگی انتظار نہیں کیا جاتا۔2023میں انتخابات متوقع ہیں۔وقت کم اور مقابلہ سخت ہے والی صورت حال درپیش ہے۔اب مشینی اور غیر مشینی ووٹنگ والی بحث پس منظر میں جاتی محسوس ہورہی ہے۔فی الحال ہر ایک کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔نہ جانے کب بادل برسنے لگیں اور قریب میں جائے پناہ بھی نہ ہو۔بادلوں کی گھن گرج سے تو یہی لگتا ہے دیر تک برسیں گے اور کھل کر برسیں گے۔لاہور کے نشیبی علاقے معمولی بارش میں بھی رہائش کے قابل نہیں رہتے۔زور دار بارش میں نہ جانے سیلاب کتنی بلندی تک جائے؟ایسی بے یقینی پہلے دیکھنے میں نہیں آئی۔ ”جاتی امراء“کی حیثیت صرف ایک رہائش گاہ کی نہیں تھی،یہ پر شکوہ عمارت شریف فیملی کے جاہ و جلال کی علامت و مرکز بھی سمجھی جاتی تھی۔جاتی امراء کی نیلامی کے بعد اس کے پرانے مکین اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے۔اپنے بزرگوں کی قبروں پر حاضری دے سکیں گے یا نہیں؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔تدفین کے وقت بھی پورا خاندان جمع نہیں ہوتا تھا۔اپنے پیاروں کی میتیں لندن سے روانہ کی جاتی تھیں۔شریف فیملی نے اس بار فیصلہ کرنے میں بہت دیر کردی اور یہی تاخیر انہیں مہنگی پڑی۔مقدمات کی سماعت کے دوران عدالت میں جمع کرائے گئے شواہد کو جھٹلانا آسان نہیں۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بلا وجہ یہ نہیں کہا تھا:”اگر نیب کے مقدمات ٹھوس شواہد پر مبنی نہیں تو یہ لوگ لندن میں کیوں مقیم ہیں؟“اب شریف فیملی کے بہی خواہ افسوس کے ساتھ یہی کہیں گے کہ پلی بارگین کا آپشن استعمال کرکے آئندہ زندگی بسرکرنے کے لئے جوکچھ بچایا جا سکتا تھا،تاخیر کے باعث شاید وہ بھی نہ بچے۔لندن کے شب و روز بھی ماضی جیسے نہیں رہے۔شریف فیملی کے بعض جذباتی نوجوانوں نے حالات اور لندن کی نفسیات کو سمجھے بغیر معاملات مزید بگاڑ دیئے۔حیرت اس
پر ہے کہ سابق وزیر اعظم انہیں سمجھانے کی بجائے شاباشی دیتے رہے۔کہاوت ہے؛برا وقت آجائے تو عقل بھی ساتھ نہیں دیتی۔عجیب افرا تفری کاعالم ہے، نئی صف بندیاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔بھائیوں میں رنجشیں گہری ہو گئی ہیں، کزنز اپنے گروپ تشکیل دینے لگے ہیں۔ جب اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت تھی،نفاق حاوی آ گیا۔ نون سے شین ہی الگ نہیں ہوئی دیگر پنچھی بھی اڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔اراکین اسمبلی کو وفا داریاں تبدیل کرنے کی فکر لاحق ہے۔نون لیگ کے ورکرز نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ وقت بھی آئے گا۔ دیکھیں مذکورہ وفد لندن سے کیا جواب لے کر لوٹے گا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں