غیبی امداد کب تک؟

انور ساجدی
جولوگ زیادہ بولتے ہیں اکثروبیشتر ”بونگیاں“ مارتے ہیں لیکن کبھی کبھار ایسے لوگوں کے منہ سے بھی سچ نکلتا ہے انہی لوگوں میں وزیراعظم عمران خان کے ”دست چپ“ ریلوے کے وزیرشیخ رشید شامل ہیں دوروز قبل موصوف فرمارہے تھے کہ معیشت ڈوب گئی تھی ڈیفالٹ ہونے والا تھا کہ خدا نے بچالیا یعنی کرونا کی وبا آگئی یہ وبا اور ممالک کیلئے لازمی طور پر زحمت بن کر آئی ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں کے نزدیک یہ باعث رحمت ہے کیونکہ جی20ممالک اور آئی ایم ایف نے12ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی میں ایک سال کی مہلت دی ہے نہ صرف یہ بلکہ آئی ایم ایف نے1.38ارب ڈالر کے نئے قرضہ کی منظوری بھی دی مجموعی طور پر دیگرعالمی اداروں اور مختلف ممالک نے تقریباً ایک ارب ڈالر بطور امداد کرونا کے تدراک کیلئے دیا اس کے ساتھ ہی چین نے اپنے3.40ڈالرسعودی عرب نے 3اور یو اے ای نے2ارب ڈالر جوزرمبادلہ کے ذخائر میں رکھا تھا اس میں مزید ایک سال کی رعایت دی ہے لہٰذا کرونا سے معیشت کو جونقصان ہوگا خدا نے اس کا ازالہ کردیا ہے اور اگرکرونا نے جلد جان چھوڑدی تو کیاعمران خان کو مزید سانس لینے اور معیشت کوٹھیک کرنے کاغیبی موقع ملا ہے اسکے باوجود معیشت نہ سنبھلی تو اسے حکومت کی نااہلی کے سوا اور کیانام دیاجاسکتاہے۔کرونا کو لیکر حکومت کو ایک اور بہانہ بھی مل گیا ہے جس کے تحت اس نے صوبوں کو دیئے جانے والے فنڈز میں کم از کم چالیس فیصد کٹوتی کااعلان کیا ہے حالانکہ پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں پہلے ہی دیوالیہ ہوچکی ہیں پنجاب نے تو وفاق سے امداد بھی طلب کرلی ہے لیکن وفاق امداد دینے کی بجائے صوبوں کی طے شدہ رقومات بھی کاٹ رہی ہے یہ تو معلوم نہیں کہ مئی میں جو بجٹ آئیگا اس میں نام نہاد ترقیاتی پروگرام بھی شامل ہوگا کہ منجمد ہوگا لیکن صوبوں کو اپنے پروگرام ضرور منجمد کرنے پڑیں گے۔غالباً مرکزی حکومت اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ وہ این ایف سی کااجلاس بلائے حالانکہ اس نے نمائندوں کے نام بھی طلب کرلئے ہیں بلوچستان حکومت نے جناب جاوید جبار کانام تجویز کیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جاوید جبار ایک لائق انسان ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں مصنف فلم ساز ہیں لیکن ماہر معیشت نہیں اگر ان میں پوشیدہ معاشی صلاحتیں ہیں تو یہ الگ بات یاوہ ایک معاشی ٹیم لیکر بلوچستان کا مقدمہ تیار کریں تو ہوسکتا ہے کہ وہ اچھی نمائندگی کرسکیں لیکن ان سے تو بلوچستان کے زیادہ حالات اپنے غریب محفوظ علی خان زیادہ جانتے ہیں وفاق بلوچستان کے جو فنڈز چوری چھپے ہڑپ کرتا رہا ہے محفوظ علی خان نے بطور سیکریٹری خزانہ کئی چوریاں پکڑیں اور وہ رقم لیکر ہی کوئٹہ آئے۔غالباً گھر کی مرغی دال برابر کے مصداق محفوظ علی خان کونظرانداز کردیاگیا جاوید جبار سے چونکہ ہمارے پرانے ذاتی تعلقات ہیں لہٰذا انکے بارے میں مزید کچھ کہنا مفید نہیں ہوگا لیکن ایک بات ضرور ذہن میں آتی ہے کہ انکی نامزدگی کسی بڑے ہاتھ کا کرشمہ ہے۔جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے قیصر بنگالی کواین ایف سی میں بھیجا تھا وہ ایک سکہ بند ماہر معیشت ہیں لیکن الٹے دماغ کے آدمی ہیں وہ کبھی بھی اپنا کیس متحمل سے نہیں لڑتے بلکہ جذباتی بن کر لڑتے ہیں وہ فخر الدین جی ابراہیم کے بعد بوہری کمیونٹی کے دوسرے شخص ہیں جو بے حد جذباتی واقع ہوئے ہیں انہوں نے بلند آہنگ سے بلوچستان کاکیس پیش کیا لیکن اپنے حقوق نہیں لے سکے کیونکہ وفاق نہ تو گیس کے واجبات دینے پر آمادہ تھا اور نہ ہی محاصل میں صحیح حصہ دینے پر راضی تھا البتہ قیصر بنگالی نے بلوچستان کے مقدمہ کی جوتیاری کی اسکی وجہ سے انکی معلومات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا اور انہوں نے ایک مفید کتاب لکھ ڈالی قیصر سے چند ماہ قبل نال میں ملاقات ہوئی تھی اس وقت انکی پیشنگوئی تھی کہ ڈالر ڈیڑھ سے بڑھ کر دوسوروپے تک جاسکتا ہے اگرآئندہ سال ادائیگیوں کا توازن درست نہ ہوا تو انکی پیشنگوئی پوری ہوجائے گی۔
کرونا کی وجہ سے اس وقت پوری دنیا کی معیشت ڈانواں ڈول ہے جس کی وجہ سے عمران خان کو موقع ملا ہے کہ وہ اس کو جواز بناکر اپنی ناکامیوں کو چھپائیں لیکن وہ ماہرین کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے انہیں حقیقت حال کا اچھی طرح پتہ ہے ایک دفعہ کساد بازاری میں کمی آجائے تو حکومت 50لاکھ گھرون والے منصوبہ پر عملدرآمد شروع کرکے معیشت کو سہارا دے سکتی ہے البتہ ایک کروڑ نوکریوں والا معاملہ سیاسی بڑھک تھی جو کبھی پورا نہیں ہوگی اگرحکومت نے تعمیراتی سرگرمیاں شروع نہ کیں تو ایک کروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہوجائیں گے حکومت کو ایک دھچکہ ان محنت کش پاکستانیوں کی واپسی سے لگا ہے جو محنت مزدوری کرکے قیمتی زرمبادلہ بیجتے تھے اس سلسلے میں ازسرنو کوششوں کا آغاز کرنا ہوگا سعودی عرب،یو اے ای،قطر،کویت اور دیگر ممالک سے دست بستہ عرض کرنا ہوگا کہ وہ نکالے گئے پاکستانیوں کو دوبارہ موقع دے اسی طرح یورپ،امریکہ اور دیگرممالک کے حالات بگڑنے کی وجہ سے وہاں کے پاکستانی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پہلے کی طرح زرمبادلہ بھیج سکیں تمام مسائل اگلے مالی سال میں پہاڑبن کر کھڑے ہونگے۔بے شک تحریک انصاف کی حکومت اپنی مدت پوری کرے لیکن اسے اپنے بلند بانگ دعوؤں کے مطابق کامیابی نہیں ملے گی آئندہ تین سال تک وہ کرونا کولیکر روئے گی اور ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی بدعنوانیوں کومعاشی صورتحال کی خرابی کی وجہ بتائے گی یہ کام تحریک انصاف کے ”آل یوتھ“ نے سوشل میڈیا پر ابھی سے شروع کررکھا ہے وہ شور مچایاجارہا ہے کہ الامان والحفیظ ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے مخالفین بھی کچھ کم نہیں ہیں ایسی دشنام طرازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی غیرسنجیدہ کوششیں اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں لگتا ہے کہ حکومت اپنی باقی کی مدت سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے گزاردے گی کیونکہ زمین پر دکھانے کیلئے اسکے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔جس دن فیصل ایدھی نے اسلام آباد میں وزیراعظم سے ملاقات کی اور انہیں ایک کروڑ عطیہ کا چیک پیش کیا ایدھی پرزبردست تنقید ہورہی ہے کیونکہ پروازوں کی بندش کی وجہ سے ایدھی اپنی ایئرایمبولینس کے ذریعے اسلام آباد گئے تھے یہ ایئرایمبولینس کا انتہائی غلط استعمال تھا وہ امدادی چیک کراچی میں وفاقی کے نمائندہ گورنر سندھ کو بھی پیش کرسکتے تھے لیکن انہیں بھی مولانا طارق جمیل کی طرح وزیراعظم کی خوشنودی درکار تھی لیکن ان کی یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی بقول فیصل ایدھی وزیراعظم نے انہیں پہنچانا نہیں صرف ان سے چیک وصول کیا کئی لوگ اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ عمران خان فیصل ایدھی کو نہیں جانتے تھے کیونکہ دونوں کی فیلڈایک ہے دونوں چندہ امداد،زکوٰۃ اور خیرات وصول کرنے والی ہستیاں ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نہ پہنچانتے ہوں البتہ بعض مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ جس طرح عمران خان مولانا عبدالستار ایدھی کو پسند نہیں کرتے تھے اسی حوالے سے وہ انکے فرزند کو بھی پسند نہیں کرتے اسکی وجہ مولانا ایدھی کا وہ انٹرویو ہے جو انہوں نے بینظیرکے دور میں دیا تھا جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ جنرل حمید گل اور عمران خان کاایک گروپ میرے پاس آتا تھا ان کا کہنا تھا کہ بینظیر کو ہٹانے میں ہماری مدد کریں جب میں نے انکار کیا تو انہوں نے جان سے مارنے کی دھمکی دی جس پر وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے اور اس صورتحال سے عالمی میڈیا کو آگاہ کردیا گوکہ بعدازاں بینظیر کو خود انکے لائے ہوئے صدر فاروق لغاری نے برطرف کردیا بہرحال پلان کے مطابق عمران خان کواقتدار نہیں ملا کیونکہ انکی سیاسی پوزیشن بہت کمزور تھی البتہ 1997ء کو نوازشریف کوضرور اقتدار میں لایا گیا جو پلان حمید گل اور ساتھیوں نے بنایا تھا اس پر عملدرآمد کاآغاز 2014ء میں ہوا جب عمران خان نے دھاندلی کو لیکر طویل دھرنا دیا لیکن فوری طور پر اس کا نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوا البتہ2018ء کو اس گروپ کی امیدیں برآئیں عمران خان اتنی نشستیں جیت گئے کہ وزیراعظم بن سکتے تھے بلکہ آسانی کے ساتھ بن گئے ان کاانتخاب اس لئے ہوا کہ ایک مخصوص گروپ کوعمران خان کے اندر بہ یک وقت ایوب خان،یحییٰ خان،جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کا ”پرتو“ ملتا تھا وہ ایوب خان کی طرح ایک بارعب ایڈمنسٹریٹر بن سکتے تھے انہوں نے جوانی میں یحییٰ خان کی طرح زندگی گزاری تھی اور وہ ضیاء الحق کی طرح ریاست مدینہ قائم کرنے کے خواہش مند تھے حالانکہ ضیاؤ الحق کے نظام مصطفیؐ کا نفاذ بھی زبانی کلامی تھا اور عمران خان کے ریاست مدینہ کی خواہش بھی عوام کو مطمئن کرنے کیلئے ایک خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا مخصوص گروپ عمران خان کواقتدار میں تولے آئے لیکن امیدیں بھرنہ آنے پر یہ خودمایوسی کا شکارہے کیونکہ انکی شخصیت کے اتنے کمزور پہلو نکل آئے جو پہلے پوشیدہ تھے ان کاواحد مقصد ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو روکنا تھا اسکے سوا انہوں نے سابقہ اسٹیس کو برقراررکھا۔
حتیٰ کہ حفیظ شیخ سے لیکر اٹارنی جنرل اور آپاں فردوس تک پوری کابینہ سابقہ حکومتوں سے مستعار لینے پر مجبورہوئے اگر ان لوگوں نے تبدیلی لانا تھا تو پہلے لاتے اگریہ برگزیدہ اورراسخ العقیدہ ہوتے تو انکی پارسائی کی طرف کوئی انگلی نہ اٹھاتا رہی سہی کسربابراعوان کو لاکر پوری کردی گئی ہے البتہ یہ ماننے کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف مخالفین سے زور ہے حکومت اپنے نوجوانوں کوچار کروڑ روپے دے کر اتنا کام لے رہی ہے جو چار ارب میں بھی نہیں ہوسکتا اس مہم جوئی کے باوجود چونکہ مجموعی حالات سازگار نہیں اس لئے زمین پر حکومت کی کوئی کارکردگی نہیں صرف مخالفین کو برا بھلا کہنے سے حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مزید حقائق عوام کے سامنے آئیں گے تو سوشل میڈیا کا بھرپور پروپیگنڈہ اپنے آپ دم توڑجائیگا اورآئندہ انتخابات میں کہنے کو کیارہ جائیگا سوائے اسکے کہ سامنا ایک کمزور اپوزیشن سے ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں