رمضان اہتمام،سادگی عیداور کورونا

راحت ملک
کوروناکی وبا جس کا درست نام کووڈ 19 پوری دنیا کے لیے خطرناک بنتی چلی جارہی ہے۔ نہ صرف وباء کے ہاتھوں انسان کی ہلاکتوں کے سبب بلکہ اس مرض کے ذیلی اثرات کی وجہ سے جسے مرض کاحق ہو جائے اسے اور اس کے اہل خانہ کو کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے؟ علاج کے ساتھ قرنطینہ کے مالی، نفسیاتی عوامل،مریض سے فاصلہ اور رشتے کا احترام و تقاضہ باہمی کشمکش میں بدل جاتے ہیں۔ اگر مریض ہسپتال میں داخل ہو تو. اس کے متعلق۔ مختلف سوالات۔ دوا کہانا. اور دیگر ضروریات کے بہم ہونے نہ ہونے کے وسوسے اس وباء کے انفرادی اثرات ہیں۔ سماجی فاصلے کی مجبوری جو وبائسے بچاو کی واحد تدبیر ہے۔اس نے معاشرتی عمل یا زندگی معطل کردی ہے۔ہر چیزتھم گئی ہے رابطے ٹوٹ گئے مواصلات کا نظام منجمد، نقل و حمل ناممکن یا مشکل تر ہو گئے ہیں۔
معیشت تجارت اور روزگار سب کچھ داو پر لگ گیا ہے عالمی سطح پر دوران ٍ وباء کچھ منفی اثرات پڑ رہے ہیں بہت بھیانک ہیں۔مگر بعد از کورونا ایک مدت تک اسکے اثرات کے خدشات مزید خوفناک منظر پیش کررہے ہیں۔کورونا. سے پیدا صورتحال اپنی جگہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمومی طور پر دنیا بھر میں غربت کے ہاتھوں علاج معالجے کی عدم دستیابی سے روزانہ دس ہزار انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن اس طرف ذرائع ابلاغ متوجہ نہیں ہوتے کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب ہوگا کہ عوام کو رائج معاشی نظام معیشت کے اصلی چہرے سے آگاہی ملے۔ ظاہر ہے سرمائے کی منڈی کی آزادی ان حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔پاکستان میں جہا ں غربت استحصال کی گہری کھائیاں موجود ہیں اور ریاستی نظم و ضبظ عوامی فلاحی مقاصد کو ترجیح دینے سے شعوری طور پر گیزاں ہے وہاں یہ بحران ہمہ پہلو لیے سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت اب بھی حالات کا درست ادراک نہیں کررہی وہ غیر متعلقہ اقدامات کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کے نام پر بالادست طبقات کو نقصانات سے محفوظ رکھنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے مثال کے طور پر لوگوں کو آفت زدہ ماحول میں روزگار کی فراہمی کے نام پر تعمیراتی شعبے کو دی جانے والی ٹیکس ایمینسٹی یا این آر اودپیش حالات عوام جو روزگار کی بجائے ریاستی کفالت کے متقاضی ہیں مگر حکومت محنت کش کمزرو مالی طبقے کو ان حالات میں بھی گھر کا چولہا چلائے رکھنے کے لیے اپنی قوت ٍ محنت بیچنے پر مجبور کررہی ہے غریب پروری کے نام پر حالانکہ کورونا وباء سے تدارک محض احتیاط ہے۔یعنی سماجی فاصلہ یہی بچاو کی تدبیر ہے۔اور ہم الٹی گنگا بہا کر کر تاریخ میں اپنا نام لکھوا رہیہیں دوسری طرف. معاشرتی سطح پر خیر بھلائی اور امداد باہمی کے رویے بھی موجود و فعال ہیں توبھی اہل ثروت افرادبھی سماجی فاصلے ختم کر کے تجارت کا پہیہ چلانے میں فکر مند ہیں کیونکہ رمضاں نیکیاں کمانے کاہی نہیں مال کمانے کا سیزن یا مہینہ ہوتا ہے
رمضان میں نماز و تراویح کے سوال پر. ہونے والا اتفاق رائے مثالی نہیں لیکن غنیمت ہے اگر اس کے فیصلوں پر عمل ہوا تو کم نقصان ہو گا۔ لیکن ہمارا سماجی رویہ روایت پسند حکام تساہل و روداری کے ذریعے غفلت شعاری کے رسیا ہیں خدشہ ہے صدر پاکستان کے ساتھ طے پانے والے اتفاق رائے پر متفقہ طور پر نامکمل عمل کے مظاہر دیکھنے کو ملیں گے۔ خدا کرے یہ خدشہ غلط ثابت ہورمضان میں خشوع خضوع کے اپنے شرعی تقاضے ہیں تو کورونا کے پیدا کردہ مسائل اپنی جگہ پر خطر ہ ہیں۔ اتفاق رائے میں ایک بات بہر طور سامنے آئی کہ چیف ایگزیکٹو کے برعکس سربراہ مملکت نے اہم کردار ادا کیا ہے یہ پہلو اپنی جگہ پی ایم آفس کی افادیت یا نااہلیت ثابت کرتا ہے علاوہ ازیں یہ بھی کی سیاست. علماء کرام کو حالات کی سنگینی کو سمجھنے اورطبی ہدایت اپنانے پر قائل نہیں کر سکی۔ خیرملک جے اقتصادی مسائل ہیں جنکو حل کرنے میں حکومت موثر کردار ادا نہیں کر سکی۔دریں حالات سماجی انسانی اور شرعی ذمہ داری ہے جسے سب ادا کریں محسوس کریں تو بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے اب ہم سب کو رمضان میں افطار و سحر میں اصراف سے بچنا چاہیے انواع واقسام کے طعام دستر خوان پر سجا کر افطاری کرنے سے اس سال گریز کریں اور قربانی اخلاص و سادگی اپنائیں توکم وسائل رکھنے والوں کی مدد کرکے زیادہ خیر کی دولت کمائی جا سکتی ہے۔ افطاری میں اسراف سے بچنے اور کورونا سے بھی بچنے کے لیے تیل یا گھی میں تلی ہوئی اشیاء استعمال کرنے سے مکمل گریز کرنا چاہیے۔اس سال افطار پارٹیوں کا تو امکان ہی نہیں۔ عید پر بھی دعوتوں سے گریز سماجی فاصلے کے تحت بہترین عمل ہوگا۔ اس طرح حاصل ہونے والی بچت کواپنے آس پاس کے پسماندہ افراد کی کفالت کے لیے استعمال کریں۔اور عید سادگی سے منانے کا عزم کریں آفت کے دنوں میں عید پر نئے کپڑے جوتے اور دیگر آرائشی اشیاء کی خرید ترک کردیں جو رقم بچے اسے احباب و کم آمدن والے افراد کو عطا کردیں۔ذرائع ابلاغ سے ابھی پیل ہے کہ وہ اشیاء طعام و مشروبات جیسی اشیاء کی تشہیر کے لیے چلنے والے اشتہارات میں بھی سادگی کو اپنائیں اور فروغ دیں۔ انواع و اقسام کے سامان سے بھرے سجے دستر خوانوں کی نمائش سے پرہیز کی جائے تاکہ کم آمدن والے روزہ دار کو احساس محرومی نہ ہو۔بہتر ہو گا کہ کمپنیاں بھی اس طرح کے اشتہارات بنانے سے اجتناب کریں اور اخبارات چینلز ایسے اشتہارات شائع کرنے یا چلانے بند کر دیے جائیں تو یہ بہت مثبت عمل ہو گا۔ کورونا امسال رمضان و عید کو خیر وبھلائی و برکت کمانے کے بہترین مواقع مہیا کر رہا ہے۔ اگر ہم اس آفت سے نجات کے لیے رجوع الہی پر یقین رکھتے ہیں تو۔
راحت ملک

اپنا تبصرہ بھیجیں