ہم بلوچ ہیں ہمیں بلوچ رہنے دو

زوراخ بزدار
ہم اکیسویں صدی میں جیتے ہیں جہاں دنیا اپنی ترقی کے منازل طے کرکے علمی اور مادی ترقی کے عروج پر ہے۔اور یہی حقیقت بھی ہے۔ کہ دنیا میں جہاں سائنس نے ترقی کی وہاں سوشل سائنس نے بھی ترقی کی عمرانیات کے میدان میں رنگ و نسل، زبان و ادب پہ وہ تحقیقات ہورہی ہیں کہ اس سے پہلے کبھی انکے متعلق سوچا بھی نہیں گیا۔
اور اس کے برعکس جس ملک میں ہم رہتے ہیں اور خصوصا جس خطے میں رہتے ہیں وہاں ایک الگ المیہ ہے دنیا کی عمرانیات کا اس جیسے معمہ سے کبھی پالا نہیں پڑا۔
آج تک کوئی ایک انسان بھی ایسا پیدا نہ ہوا جس کو اپنے انسان ہونے پہ فخر نہ تھا۔ایک بھی مذہبی پیروکار ایسا نہیں دیکھا جس کو اپنے مذہب سے محبت نہ تھی اور پھر بھی اس پہ قائم تھا۔ ایک بھی قوم ایسا نہیں گزری اور نہ آج تک دیکھا جس کو اپنی قومی تشخص اور زبان سے نفرت تھی اور وہ اپنے آپ کو اس قوم میں پھر بھی شمار کرتا رہا۔مگر اس پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی خطے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کے بہکاوے میں آکراپنی قومی تشخص اپنی آبائی تاریخی ورثے اور خونی رشتوں سے متنفر ہیں حتی کہ اپنوں سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے بھی انکو اندر سے نہ صرف تکلیف ہوتی ہے بلکہ ایک خفیف سی شرمندگی بھی ساتھ ہوتی۔اور اس مرض کو احساس کم تری کہا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ اپنی اصل سے اس بغض کا نتیجہ ہے جو دشمن نے بڑی مکاری سے ان سادہ لوح لوگوں کے لاشعور میں دم کردیا ہے. آپ یریشان ہونگے کہ یہ کون ہیں یہ کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہی بھائی ہمارے نسبتی رشتہ دار ہیں یہ وہ فریب خوردہ شاہین ہیں جو کرگسوں کے ساتھ پلے بڑھے ہیں جی ہاں یہ بلوچ ہیں جو دیوان ساون مل اور رنجیت سنگھ کے زمانے سے اپنی تشخص کھونے کے بعد اسکے حصول کی بجائے قاتل کے گن گاتے آرہے ہیں اور پھر انگریزی سامراج نے اپنی چالاکی اور انکی سادگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکے ایسے حصے بخرے کئے کہ انکو اپنا نسب تک یاد نہ رہا اور اب بھی یہ لوگ لکھنے کو تو اپنے آپ کو بلوچ ہی لکھتے ہیں مگر انکو لفظ بلوچ سے اتنی نفرت ہے جتنی کسی اسرائیلی کو ایک فسلطینی سے ہے۔
اب جب جنوبی پنجاب کے علیحدہ حقوق کی بات ہوتی ہے تو ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ سرائیکی صوبہ بننے جارہا ہے۔حالانکہ انکو اچھی طرح علم ہے کہ ریاست بہاولپور کے نوابوں نے اپنی ریاست کو کبھی سرائیکستان نہیں کہا اور نہ ساون مل اور رنجیت سنگھ نے اس خطے کو سرائیکستان کہا۔ان دوستوں سے ایک سوال ہے کہ جب قومیت لکھنے کا وقت آجائے تو بلوچ لکھتے ہو جب صوبے کے نعرے کا وقت ہو تو سرائیکستان کے نعرے لگاتے ہو۔
اور دوسرا سوال یہ کہ اگر میرے یہی بلوچ بھائی تاریخ کے چند اوراق پلٹ کر دیکھیں تو انکو اپنے باپ دادا بلوچی بولتے ہوئے ملیں گے۔مگر یہ تکلف یہ لوگ کب کریں گے کہ انکو ان لوگوں کی صحبت میسر آگئے جن کی اپنی اصل نہیں ہے. اس خطے کے مقامی باشندوں کو آج بھی اس خود ساختہ لفظ سے نفرت ہے جس کو پہلی بار 1961 میں استعمال کیا گیا. اور یہی لوگ جو اپنے آپکو وسیبی کہتے ہوئے نیلی اجرک کے وارث سمجھنے والے سرائیکی قومیت کے دعویداران اور بانیان سب کے سب کو جمع کرکے اگر ان سے ایک سوال کیا جائے.
آپ کے باپ دادا کے نام شہروں کے نام انکے قبیلوں کے نام ان سب کے ترجمے دکھائیں یا شہروں کے نام جن نام جن کی نسبت سے ہیں وہ کون تھے. تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انہیں بلوچی لغت یا تاریخ کھولنی پڑے گی۔
میں چند ایک مثالیں دونگا۔
1۔گشکوری بلوچ
2۔کْشک بلوچ
3۔کورائی بلوچ
4۔ہوت بلوچ
5۔لاشاری بلوچ
6۔چانڈیہ بلوچ
7۔دستی بلوچ
8۔کھور بلوچ
9۔نوتک بلوچ
10۔میرانی بلوچ
جتوئی بلوچ
12.گوپانگ بلوچ
یہ وہ قبائلی شاخیں ہیں اس خطے میں انہی کی اکثریتی آبادی ہے. بہت سارے نام ہیں مگر سب گنوانا ممکن نہیں اگر یہ لوگ سرائیکی ہیں توکسی لغت یا تاریخ کی کتاب میں اپنے قبیلوں کے نام کا ترجمہ یا تاریخ ذرا نکال کے پڑھیں پھر دودھ کا دودھ پانی کا پانی صاف ہوگا۔
ان بھائیوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر سرائیکستان کی بات ہے تو پھر پورے پاکستان میں جہاں جہاں سرائیکی بولی اور سمجھی جاتی ہے ان سب کا یہی نعرہ ہو۔چاہے وہ بنوں ہو لکی مروت ہو ڈیرہ اسماعیل خان ہو بھکر میانوانی یا پھر شکار پور نواب شاہ سے نصیر آباد تک ان سب کا مطالبہ کرو غرض یہ کہ راجھستان میں بھی کچھ علاقوں میں سرائیکی بولی جاتی ہے انکو بھی اپنا ہمنوا بنا لو۔اگر یہ ممکن ہے تو کود پڑو میدان میں ورنہ سرائیکی نعرے سے ہٹ کر حقوق کی بات کرو اپنا قومی شناخت چھننے کے بعد اپنی شناخت کے دوبارہ حصول کی بات کرو اور ان لوگوں کے دست و بازو بنو جو آج بھی اپنے آپ کو فخر سے بلوچ کہتے ہیں. اور اپنے شناخت سے دستبردار نہیں ہیں بلکہ اس کو مزید مستحکم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔آپ کے اسی علاقے میں بلوچ اتحاد کے تمام لوگ سرائیکی بولتے ہیں مگر بلوچ اتحاد کے پلیٹ فارم پہ کام کررہے. اور تم ہو کہ فریب اغیار سے شناخت خود اور رشتہء اجداد سے کٹنے پہ تلے ہوئے ہو.
اب بھی وقت ہے آؤ اور اپنی اصل سے جڑ جاو ورنہ تماری نسلیں آکاش بیل کی طرح کب تک کسی اور کے سہارے زندہ رہیں گی.
ریاستی بھائی اگر مطالبہ کرتے ہیں تو انکا حق ہے کہ انکو دیا جائے چونکہ انسے انکا صوبہ چھینا گیا تھا.
اگر اپر پنجاب کے ظلم اور غلامی سے نکلنا ہے تو اس کا نعرہ زبان کی بنیاد پہ نہیں خطے کے حقوق کی بنیاد پہ ہونی چاہیے۔
اور اگر زبان کی بنیاد پہ کوئی تقیسم آپ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپکا حق ہے کہ آپ ان بلوچون کا ساتھ دیں جن کو جبراً بلوچستان سے علیحدہ کیا گیا۔ڈیرہ غازیخان راجن پور اور جیکب آباد جن کو بڑی چالاکی سے بلوچستان سے الگ کیا گیا. کراچی کو بلوچستان سے الگ کرکے بمبئی کے ماتحت کیا گیا پھر سندھ میں شامل کردیا گیا. اگر حقوق کی بات ہے تو تاریخی حقائق کی بنیاد حقوق منوانے اور لینے کی بات کرو.
علاوہ اسکے پشتونوں کا ساتھ دو جو پشتونستان کا نعرہ لگاتے ہیں۔کہ میانوالی سے چمن اور کنگری سے طورخم تک ہمارا پشتونستان ہے۔
مگر آپ کبھی انکا ساتھ نہیں دیں گے چونکہ آپ کو قومیت سے نفرت ہے آپ مفاد پرستوں کے فریب خوردہ ہیں۔
میرے بھائیوں دنیا میں تین بڑی عصبیتیں چلی آرہی ہیں۔
1۔مذہبی عصبیت۔
2۔قومی عصبیت
3۔وطنی عصبیت
مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس نعرے کا تعلق ان تینوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں۔
میرے بلوچ بھائیو آپ سے دست بستہ گذارش ہے کہ ایک دفعہ سوچیں کیا یہ ممکن ہے کہ آپ لکھوائیں لاشاری بلوچ گشکوری بلوچ دستی بلوچ گوپاگ بلوچ جتوئی بلوچ وغیرہ وغیرہ اور کہیں ہماری قومیت سرائیکی ہے۔اگر آپ کو مناسب لگے تو پھر آپ جو چاہیں کریں مگر یہ یاد رکھیں کہ عنداللہ اور عندالناس کوئی شخص یا طائفہ انتہائی ناپسندیدہ ہے جو اپنے نسب سے انکاری ہو.آپ اگر بضد ہیں تو یہ بچگانہ حرکت بھی کرکے دیکھ لیں مگر ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی اکثریت بلوچ ہے اور انکو اپنے بلوچ ہونے پہ فخر ہے اور وہ اپنے اصل کے ساتھ جڑنے کے مطالبے سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے.

اپنا تبصرہ بھیجیں