کوئے ملامت

انور ساجدی
کوئی شک نہیں کہ حکومت کرونا کونعمت غیرمترکبہ سمجھ رہی ہے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت17ڈالر فی بیرل سے نیچے گرگئی ہے جوحالیہ تاریخ کی سب سے بڑی گراوٹ ہے حکومت چند دنوں میں تیل چند روپے اور سستاکرکے عوام پراحسان جتائے گی باقی دنیا کاجوحال ہے وہ اپنی جگہ لیکن پاکستان میں کرونا کولیکر ایک طرفہ تماشہ لگاہوا ہے حکومتی اکابرین اور مخالف سیاسی رہنما روز اپنے لطائف کے ذریعے اتنی بڑی وبا کے باوجود سماج کو کشت زعفران بنائے ہوئے مرکزی سرکار اور سندھ حکومت کے درمیان سیاسی ملاکھڑا جاری ہے ہر طرف کٹھ پتلیوں کاتماشہ دیکھنے میں آرہا ہے اس تماشہ سے کچھ دوراصل حکمران خوب لطف اٹھارہے ہیں ایک طرف راشن کے بیگز پربلاول بھٹو کی تصویر منہ چڑارہی ہے تو دوسری جانب ہاتھ دھونے کے سینی ٹائزر پروزیراعظم عمران خان کی تصویر بہاردکھارہی ہے ٹائیگرفورس نے توابھی کام شروع نہیں کیا ہے یہ لوگ بھی نت نئے گل کھلائیں گے اور لوگوں کوتفریح کاسامان فراہم کریں گے ادھر پیپلزپارٹی کے سینئررہنماچوہدری منظور نے پیپلزفورس بنانے کااعلان کیا ہے یعنی ٹائیگرفورس بہ مقابلہ پیپلزفورس
جواصل مسئلہ ہے اسکی طرف توجہ بہت کم ہے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق کرونا کاپھیلاؤ تیز ہوگیا ہے چاروں صوبے گلگت،بلتستان اور آزاد کشمیر سارے لپیٹ میں ہیں ملک میں جزوی لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کی جارہی ہے اور وزیراعظم کے پرزور اصرار پربعض کاروبار کھولنے کی اجازت دی جارہی ہے۔گزشتہ ہفتہ سندھ حکومت اور مرکزی سرکار کے درمیان کشتی کا جو مقابلہ ہواتھا اسکے بعد دونوں فریقین کوشٹ اپ کال دیدی گئی تھی جس کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے زیادہ گرماگرمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے لیکن وفاق اور پنجاب حکومت فائربندی پرعملدرآمد کے قائل نہیں ہیں اگرشہبازگل پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو شیخ رشید محاذ سنبھالتے ہیں لیکن آج کل شیخ رشید کا پتہ نہیں چل رہا کہ وہ حکومت کی ترجمانی کررہے ہوتے ہیں یا حکومت کی بیخ کنی وہ ہمیشہ ذومعنی بات کرتے ہیں جہانگیرترین کومات ہونے کے بعد شیخ صاحب کاکلیجہ ٹھنڈا ہوگیا ہے کیونکہ ترین اکثرانکی بات نہیں مانتے تھے سنا ہے کہ آج کل سابق چہیتا مرادسعید بھی پسندیدہ فہرست سے آؤٹ ہوگئے ہیں اور آج کل ان کا بنی گالہ میں داخلہ بند ہے جبکہ مرحوم نعیم الحق کی جگہ شہبازگل نے لے لی ہے بنی گالہ کے امور سنبھالنے کا مطلب بڑے صاحب کاچیف آف اسٹاف یا گھر کی صفائی سے لیکر سیکورٹی تک دیکھنا انکی ذمہ داری ہوتی ہے اوپرسے وہ حکومت کی ترجمانی کا حق بھی ادا کررہے ہیں معاوضہ توایک کام کامل رہا ہے لیکن عہدہ بڑا ہے اور خالی ازمنافع نہیں پہلے شہبازگل عثمان بزدار کے ترجمان تھے لیکن کچھ زیادہ بولنے پر سردارصاحب نے انہیں برطرف کردیاتھا۔
سنا ہے کہ وہ بنی گالہ میں بیٹھ کر سوچ رہے ہیں کہ بدلہ کس طرح لیاجائے آثاربتارہے ہیں کہ انکی مرادجلدپوری ہوجائے گی کم بخت کرونا نے روز مرہ کی سیاست کودھندلا دیا ہے لیکن پھربھی سیاست ہنوز جاری ہے بندروں کی طرح اچھل کود ہر طرف ہورہی ہے اس اچھل کود کے باوجود عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں حقداروں کو راشن نہیں مل رہا ہے لیکن صدر اور وزیراعظم کی جانب سے ایک پیکٹ تقسیم کرنے کی تصاویر باربارجاری ہورہی ہیں حکمرانوں کی جاہلیت کااس سے زیادہ ثبوت اورکیا ہوسکتا ہے کہ احساس پروگرام کے تحت جن غریب خواتین کے ہاتھوں میں 12ہزار روپے کی رقم رکھی گئی انکی تصاویر اور ویڈیو بناکر انکی تضحیک کی گئی رقم تقسیم کرنے والے بار بار گن کرخواتین کو پیسے دے رہے تھے جیسے12لاکھ دے رہے ہوں وزیراعظم کا روز قوم سے خطاب بھی جاری ہے آخری خطاب میں انہوں نے بتایا کہ کرونا سے اموات کی شرح ڈیڑھ فیصد ہے لیکن سمجھ کر بولنا آتا نہیں فرمایا کہ شرح اموات ڈیڑھ آدمی ہے عام لوگ حیران ہیں کہ یا تو ایک آدمی مرتا ہے یا دو یہ ڈیڑھ آدمی کیسے مرتے ہیں یہ کہاوت ایک لطیفہ بن گیا جس طرح اپنے بڑے صاحب سندھ حکومت سے لڑرہے ہیں صدرٹرمپ بھی اسی طرح اپنی ریاستوں سے لڑرہے ہیں انکی کوشش ہے کہ کرونا کا پھیلاؤ چین پرثابت ہوجائے تاکہ وہ بھاری ہرجانہ وصول کرکے اپنے نقصانات کاازالہ کرسکیں انہی کی دیکھادیکھی جرمنی نے پیشگی ہرجانے کامطالبہ کردیا ہے لیکن چین جیسا جدیدسود خور اورکیپٹل ازم کو نیارخ دے کر عالمی دولت کو اپنی مٹھی میں سمونے والا ملک اور اس کا شاطرصدر کہاں ایسی باتوں میں آنے والا ہے جرمنی زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتاہے کہ چین کے سب سے جدید مواصلاتی نیٹ ورک ”ہواوے“ سے اپنے معاہدات ختم کردے اور فائیوجی ٹیکنالوجی کے استعمال سے دستبردار ہوجائے کیونکہ اس ٹیکنالوجی سے امریکہ لرزاں ہے اور اس کاخیال ہے کہ اگردنیا نے یہ ٹیکنالوجی اپنالی تو وہ چین کی مٹھی میں بندہوجائے گی اس ٹیکنالوجی کوروکنے کیلئے صدرٹرمپ زبردست مہم چلارہے ہیں اور اپنے مغربی اتحادیوں کواس سے باز رکھنے کی کوشش کررہے ہیں امریکہ کو پتہ ہے کہ اس کاکیپٹل ازم پہلے کی طرح نہیں چل سکتا اس نے چاند اور مریخ پرکمندتوڈال دی لیکن اپنے عوام کیلئے صحت کی مناسب سہولتیں پیدا نہیں کیں کیونکہ اس سے منافع میں کمی آنے کا امکان تھا۔کرونا کے بعد کئی لوگ سوچیں گے کہ سرمایہ کی مادرپدر آزادی درست نہیں ہے لہٰذا پبلک سیکٹر کارول زیادہ ہونا چاہئے چین میں معاملات اس لئے کنٹرول میں رہے کہ وہاں سب کچھ سرکاری کنٹرول میں تھا اور امریکہ کا چھوٹو جنوبی کوریا میں سہولتیں اس لئے زیادہ تھیں کہ وہ شمالی کوریا کا ہمسایہ تھا اور دیکھ رہا تھا کہ اس کا کنگال پڑوسی کیاکررہا ہے تمام ترکنگالی کے باوجود شمالی کوریا میں ہیلتھ سیکٹر بہت مضبوط ہے اس سلسلے میں کیوبا کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں لوگوں کیلئے روٹی کی سہولت کم لیکن صحت کی سہولتیں شاندار ہیں اس نے دنیا کامنفرد اور مثالی نظام قائم کیا ہے امریکہ ابھی سے چین کیخلاف صف بندی میں مصروف ہے تاکہ وہ ایک طویل معاشی وسیاسی جنگ کی بنیادرکھ سکے اسکے دنیا پر کیا اثرات ہونگے یہ تو کچھ عرصہ بعد ہی معلوم ہوگا لیکن امریکہ کو ایک ٹھوس بہانہ مل گیا ہے جس کے ذریعے وہ سعودی عرب‘ کویت‘ جنوبی کوریا‘ جاپان اور جرمنی جیسے ممالک کی دولت کا بڑاحصہ لوٹ کر لے جائیگا کیونکہ امریکہ کی پیداواری صلاحیت کمزور ہوگئی ہے وہ اسلحہ اور طیاروں کی فروخت کے علاوہ مارکیٹ اکانومی کا بڑاحصہ اپنے کنٹرول میں نہیں رکھ سکتا۔چین کی طرح امریکہ کے پاس نئے آئیڈیاز بھی نہیں ہیں وہ محض دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ہی اپنی موجودہ اجارہ داری برقراررکھنے کی کوشش کرے گا لیکن کب تک؟ چین تو ساری دنیا میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کررہا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مال کی منڈیوں میں اضافہ کرتا جارہا ہے حال ہی کی خبر ہے کہ چین نے انڈیا کے بینکوں کے حصص خریدنا شروع کردیئے ہیں حالانکہ انڈیااس کا سیاسی اورتذویراتی دشمن ہے وہ انڈیا کے بڑے بینک خرید کر اس کی بہت بڑی منڈی میں اپنے پیرجمائے گا اور دنیا کی چوتھی معیشت پر اپنے پنجے گاڑھے گا نہ صرف یہ بلکہ ایشیاء امریکہ اور لاطینی امریکہ کے متعدد ممالک میں چین اپنے سرمایہ کا بل بوتے پر وہاں کے پورٹ،ایئرپورٹ،بینک اور نجی شعبہ کے بڑے اثاثے خرید رہا ہے ساتھ ہی ان ممالک کو اپنے قرضوں کی جال میں بھی پھنسا رہا ہے عدم ادائیگی کی صورت میں وہ انکی قیمتی اثاثے اپنے نام لکھواتا ہے جیسے کہ اس نے لنکا کا شاندار پورٹ ہمبن ٹوٹااپنے نام کرالیا اور کینا کاایک پورٹ اور ایک اور ملک کاایئرپورٹ بھی ہڑپ کرگیا۔موجودہ حکومت کے آنے کے بعد چین نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کومستحکم کرنے کیلئے 3ارب ڈالر رکھوائے تھے جبکہ سی پیک کے منصوبوں کیلئے جاری کئے گئے قرضوں کی اقساط اسکے علاوہ ہیں جن کی ادائیگی اس سال شروع ہونی تھی جو کرونا کی وجہ سے آئندہ سال تک موخر ہوگئی ہے گویا آئندہ سال بہت ہی مشکل ثابت ہوگا اگرسعودی عرب اور یو اے ای نے مزید رعایت نہ دی تو ان کا پیسہ واپس کرنا پڑے گا اور چین کی اقساط بھی دینی پڑیں گی آئی ایم ایف کی اقساط ملاکر حکومت پاکستان کو 12ارب ڈالر کاانتظام کرنا پڑے گا جوبظاہر بہت مشکل ہے اگرآئندہ سال یہ حکومت ڈیفالٹ کرنے سے بچ گئی تو یہ ایک معجزہ ہوگا البتہ چین کا قرضہ دینا اس لئے آسان ہے کہ اگراس نے کسی اثاثے کا مطالبہ کیاتو یہ حکومت بخوشی دیدے گی بے شک وہ گوادر پورٹ اور ریکوڈک ہی کیوں نہ ہو۔
کرونا کی انتہائی پریشان کن صورتحال میں
مشہور زمانہ ڈسکومولوی مفتی قوی نے
کہا ہے کہ سوشل ڈسٹینس قائم کرنا
صرف مردوں کیلئے ہے
نوجوان مرد اور عورتوں کے درمیان کے فاصلے کی ضرورت نہیں ہے مفتی صاحب بڑے رنگیلے ثابت ہوئے ہیں انہوں نے ایک یوٹیوب چینل کوبتایا کہ انہوں نے حال ہی میں ایک اور شادی رچالی ہے جبکہ ٹک ٹک ماڈل حریم شاہ نے کہا ہے کہ مفتی جھوٹ بولتا ہے اس کا نکاح اسکے ساتھ نہیں ہوا ہے ادھر مولانا طارق جمیل نے حوروں کے حسن وجمال کے بیان اچانک بڑھادیئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی حور آسمان سے اترکر انکے پاس زمین پر آجائے تو وہ اسکے حسن وجمال کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوجائیں گے انکے مطابق حور کی تاب صرف جنت میں ہی برداشت ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں