قومی نہیں خونی شاہراہ

زبیر بلوچ
کبھی کبھی انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے لکھوں تو کیا لکھوں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انسان ان مسئلوں پر قلم اٹھاتا جن پر معاشرے میں خاموشی طاری ہے، جو لوگوں اور حکمرانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں، لوگوں کو علم و آگاہی دینے اور چھپی حقیقت کو آشکار کرنے کیلئے اخبار کے صفحات بھرتے لیکن مجبوری اور لاچاری کا سماں ہے کہ یہاں صاحبِ اقتدار اندھے بہرے اور گونگے ہیں، جو انسانی جذبات سے عاری ہیں، جن کے اندر انسانیت کا جذبہ مر چکا ہے، جن کیلئے انصاف و عدل کوئی معنی نہیں رکھتا، جن کیلئے ایمان و عقیدت نامی شے وجود نہیں رکھتی، جن کو عام انسان اور عام انسانی جذبے سے کوئی واسطہ نہیں، جن کیلئے کسی بچے کی تڑپ، کسی ماں کی سسکیاں، کسی والد کی آہ و فریاد، کسی بہن کی غمزدگی اور پریشانی کسی بیوہ کی زندگی بھر کیلئے سسک سسک کر جینا کسی کے لواحقین کے درد کوئی اہمیت اور معنی نہیں رکھتا، جن کیلئے لوگوں کی خون سے لیکر لوگوں کی تڑپ سب سیاست لگتی ہے، کہتے ہیں جب کسی انسان کے اندر احساسات مر جائیں تو وہ جانور بن جاتا ہے اور اگر ہم حقیقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راستی گوہی کا مظاہرہ کریں تو یہ حقیقت آشکار ہو جائے گا کہ یہاں جیتے جاگتے جانور انسانوں کے رہنماء اور رہبر بنے بیٹھے ہیں۔ ہم ایک ایسے قوم میں زندہ ہیں جہاں سیاسی قیادت کیلئے جہالت کا ہونا لازمی ہے جہاں شعور و علم قومی سالمیت کیلئے خطرہ سمجھا جاتا ہے، جہاں سچ و حق اور انصاف و عدل سب سے سنگین گناہ گردانا جاتا ہے، جہاں مفاد پرستی،لالچ خوری، بے ایمانی، بے ضمیری، چاپلوسی، جی حضوری، غنڈہ گردی، عام و غریب لوگوں پر مظالم ڈھانا، لوٹ و کھوسٹ میں ماہر ہونا، کرپشن،چوری اور ذخیرہ اندوزی کرنا ان کی پہچان اور نشانی ہو یہی لوگ یہاں اقتدار کیلئے سہی سمجھے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں اتنے المیہ ہیں کہ اب بلوچستان خود اور یہاں کے رہنے والے المیہ بن چکے ہیں۔ جب پنجاب میں پولیس کے ہاتھوں چار افراد بیدردی سے پولیس کی ظالمانہ کارروائی کا نشانہ بنتے ہوئے قتل ہوئے تو پاکستان کی پوری سرکاری میڈیا چینلز،اخبار، سوشل میڈیا صارفین، حکومتی و اپوزیشن اراکین، شوبز سے لیکر اسپورٹس مین تک کوئی ایک بھی خاموش نہیں رہا اور پولیس کی جانب سے ہونے والے غلط اور بربریت پر مبنی جابرانہ عمل کی مذمت کی، اس بربریت پر مبنی کارروائی کے خلاف اور ان مجرموں کو سزہ دلانے کیلئے ملکی میڈیا نے اول دستے کا کردار ادا کیا، مجرم اہلکاروں کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈالنے تک سب نے اپنا انفرادی کردار ادا کیا، وزیراعظم یکدم سے حرکت میں آیا اور کارروائی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی، سب کچھ صرف کچھ دنوں کے اندر ہی اندر ہوا، اس پر کون باضمیر انسان پریشان ہو سکتا ہے کہ کسی معصوم اور بیگناہ کے قاتلوں کے خلاف ایسی ہی ردعمل آنی چاہیے۔ لیکن سوالات ضرور انسان کے ذہن میں اٹھتے ہیں جب ان کے گھروں میں اٹھتے آئے روز کی لاشیں کبھی ان اداروں کو پریشان نہ کرتا ہو سوالات ضرور اٹھیں گے جب یہاں لوگوں کی لہو، لہو سمجھا نہ جاتا ہو، سوالات ضرور انسان کو سوچنے پر مجبور کریں گے جب ان کے لوگوں کے قاتل فخر یہ گھومتے پھرتے ہوں، جو سزا و جذا کے عمل سے مستثنیٰ ہوں سوالات ضرور انسان کو جھنجھوڑیں گے جب ان کے لوگوں کی آہ و فریاد کو درد کے بجائے ڈرامہ سمجھا جاتا ہو،انسان ضرور اپنے آپ سے سوال کرنا شروع کرے گا جب ایک طرف لوگوں کو مزید آسائش دینے کیلئے میٹرو بس اور آئی ویز بنائے جائیں اور دوسری طرف ایک پوری قوم برسوں سے ایک روڈ کو ڈبل کرنے کیلئے آہ وفریاد کریں لیکن اس پر سب خاموشی اختیار کریں۔
بلوچستان میں قومی شاہراہ کے نام پر ایک قومی خونی آشام روڈ موجود ہے، جس نے ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا دیا ہے، ہزاروں انسانی زندگیوں کو اب تک یہ خونی آشام روڈ نگل چکی ہے، لیکن مجال ہے کہ اقتدار میں بیٹھا کوئی شخص شرم کا دو گھونٹ پانی حلق سے نیچے اتاریں اور اس پر اپنی توجہ مبذول کریں لیکن توجہ وہی دینگے جن کیلئے انسانی خون انسانی جذبات اور احساسات معنی رکھتے ہوں، جن کیلئے ایک معصوم کی زندگی حقیقت میں بھی وہی اہمیت رکھتا ہو جو ان کے گھر والے رکھتے ہیں، لیکن جن کا ضمیر مر چکا ہو جو انسانی جذبات و احساسات سے عاری ہوں یہ کیسے کسی کی موت کی اہمیت کا ادراک کریں گے، اس کا احساس صرف ان کو ہوتا ہے جن کے پیارے اس خون آشام روڈ کی زد میں آتے ہوئے موت کے آغوش میں چلے گئے ہیں، ایک ایسی موت جس پر صرف انسان“آہ”کر سکتا ہے، ایسی موت جس پر انسان اپنی قسمت کو ہی دوش دیتا رہے گا۔ ایک ایسی موت جو خاموشی میں تڑپائیں اور انسان فریاد بھی نہ کر پائیں۔
یہ ایک روڈ نہیں اب خون کا پیاسا ایک وحشی درندہ بن چکا ہے جو آئے دن کسی معصوم راہ چلتے ہوئے کو نگل نہ لیں چھین سے نہیں بیٹھتا، جو آئے روز کچھ لوگوں کو تڑپا تڑپا کر مار نہ دیں اس کا گزارا نہیں ہوتا، اب اندازہ کیجئیے کچھ ماہ قبل کراچی سے ایک ہی خاندان کے 9 افراد اپنے کسی پیارے کے جنازے میں شرکت کیلئیبلوچستان کا سفر کر رہے تھے غمگین و غمزدہ خاندان اپنے گھر والے کے جانے پر نالاں تھے، دکھ و تکلیف میں تھے، گاڑی مستونگ کے قریب آتے ہی کسی دوسری گاڑی سے ٹکرا گئی جنازے کیلئے جانے والے تمام 9 افراد خود جنازہ بن گئے؟ اس درد اذیت اور کرب کا جواب کس سے مانگا جائے؟ روڈ سے، مرے ڈرائیور سے، جنازہ بنی لاشوں سے، یا ان کرپٹ اور انسانی جذبات سے عاری حکمران سے؟ اس کا فیصلہ آپ کریں، نجانے ایسے کتنے خاندان ایسی خاموش موت مرتے ہیں جبکہ وہ لوگ جو خود جنازہ بنتے ہیں اپنے پیچھے ایک پورے خاندان کو انتہائی دردناک اور خاموش اذیت میں ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ لیکن اس درد اور اذیت کا احساس بھی وہی کر سکتا ہے جس کے اندر انسانی احساسات موجود ہوں لیکن بے ضمیر اور انسانی جذبات سے عاری انسان اس اذیت و کرب کا کس طرح ادراک کر سکیں گے۔ اس خون آشام روڈ جو اخلاقی اور حقیقی طور پر ایک قتل ہے ایک ایسی خاموش اذیت چھوڑ جاتی ہے جس کا ادراک کرنا بھی انسان کیلئے مشکل ہو جاتا ہے اور لوگ اس صاف طور پر ہوئے قتل کو اپنی قسمت سمجھتے ہوئے اس اذیت اور کرب کو عمر بھر اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ یقین مانیں ہم میں انسانی جذبات نامی کوئی شے وجود نہیں رکھتا ورنہ اس ہزاروں خاندانوں کا کرب ہماری ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ضرور کامیاب ہوتا لیکن چونکہ ہم انسان کے شکل میں خونی درندے ہیں جو انسانیت کے جذبے سے محروم ہیں کیونکہ انسانی جذبہ ہونے کے صورت میں ہم ضرور جاگ جاتے۔
کورونا وائرس پر جھوٹی اور بناوٹی سنجیدگی دیکھانے والے آکر جواب دیں پچھلے دس سالوں کے اندر ان ہزاروں بلکہ لاکھ کے قریب لاشوں پر کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ ہزاروں افراد کی موت کا کیا جواب ہے ان کے پاس؟ دو دو تین تین سال اقتدار کے مزے کھانے والے اور کربوں کی کرپشن کرنے والے آکر آج جواب دیں کہ کیوں ان ہزاروں لاشوں پر خاموشی اختیار کی گئی ہے؟ کیوں ان عورتوں اور بچوں کی سسکتی آواز ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام ہے، کیوں جنازوں پر جنازے کا یہ قیامت خیر منظر ان کیلئے مسئلہ نہیں ہے، کیوں روڈ کے نام پر یہ خون آشام اور خون کا پیاسا درندہ ان کے آنکھوں سے اوجھل ہے۔ کیوں ہزاروں خاندانوں کا کرب ان کو خواب خرگوش سے جگانے میں ناکام ہے۔ مجھے لگتا ہے ہم کو ترقی سے پہلے زندہ ضمیر اور ایمان کی ضرورت ہے جو مر چکی ہے۔
صرف پچھلے سال ہی اس روڈ پر 8 ہزار سے زائد ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی تھیں، ان میں نوجوانوں سے لیکر بچے عورتوں سے لیکر بزرگ تک کوئی بھی محفوظ نہیں رہا ہے، اور موت کا یہ کھیل تسلسل کے ساتھ جاری ہے جبکہ اس کا مظاہرہ کرنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں بے ایمان اور بے ضمیر انسان بیٹھے ہیں جو صرف تماشائی کا کردار اچھی طرح نبھا رہے ہیں۔ بلوچستان میں قاتل صرف ایک روڈ نہیں ہے بلکہ دیگر ہزاروں طریقوں سے یہاں انسانوں کا قتل خاموشی سے جاری ہے جس پر نہ میڈیا بھولتا ہے نہ سیاستدان بات کرتا ہے نہ نام نہاد سماجی کارکنان بات کرتے ہیں بلکہ ملک کے اندر موجود کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص بلوچستان پر بات کرنا گوارا نہیں کرتا، بلوچستان میں ان ہزاروں قاتلوں میں ایک ظالم قاتل یہ خون آشام روڈ ہے جو آئے دن کسی نہ کسی خاندان کی خوشیاں نگل جاتی ہے اور عمر بھر کیلئے اْن کو درد و ازیت اور کرب میں مبتلا کرکے چھوڑ دیتی ہے۔
نجیب زہری کی قیادت میں کچھ نوجوانوں نے کچھ دن قبل روڈ کو ڈبل کرنے کیلئے کراچی سے کوئٹہ تک کا پیدل کرنے کا اعلان کیا تھا جووڈھ میں آکر کورونا کی وجہ سے روک لی گئی، لیکن مسئلہ پھر بھی وہی ہے یہ نوجوان کن کو اٹھاتے یہاں تو مردہ ضمیر کے انسان بیٹھے ہیں جنہیں کسی کے درد و کرب سے کوئی سروکار نہیں، جن کیلئے صرف ان کی عیش و عشرت ہی اہمیت کا حامل ہے، جن کا خیال سوچ سب اپنی ذات تک محدود ہے۔ جبکہ یہاں صرف ایک طبقے کو ہی دوش نہیں دیا جا سکتا بلکہ پورا معاشرہ مردہ ہے جہاں کسی کو کسی کے جذبات اور احساسات سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں