مضبوط،مقتدرہ،،مفلوج آئین اور مغلوب

راحت ملک
پانامہ نامی سازش سامنے آنے کے بعد میں تو تواتر کے ساتھ ایک موقف اپنایا تہا جو ریکارڈ پر موجود ہے۔
میرا بنیادی نقطہ خیال یہ تہا۔ کہ مسلسل و پے در پے اختیار کردہ واقعات کے بعد پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ منتشر ہو چکی ہے اس تقسیم کو اختیار و اقتدا رکی روئی کا نام دیا تھا
یعنی. آئین کے مطابق حکمرانی کا حق جس ادارے کو. اود جن ذرائع سے اس کے ارکان کو معینہ مدت تک تفویض کیا جاتا ہے اسے سیاسی اصطلاح میں پارلیمانی جمہوریت کہا جاتا ہے لیکن شومئی قسمت۔ اب یہ ادارہ. رسمی اقتدار کی علامت بن کر رہ گیا ہے کیوں کہ اس ادارے کو جو اقتدار ملتا ہے وہ اختیارات سے عاری ہوتا ہے ریاست کی طاقت جو قانونی نفاذ کی اتہارٹی ہوتی ہے وہاس طاقت سے محروم ہو چکی ہے جو مملکت کے تمام امور و محکموں کو آئین و قانون کے دائرے میں پارلیمنٹ کی حاکیمت کو تسلیم کرنے اسے نافذ کرنے اور بلا چون و چرا منوانے کے لازمی کردار ادا کرتی ہے بدقسمتی سے میرے ملک میں مذکورہ طاقت حکومت سے ماورائت کا درجہ پا چکی ہے۔ چنانچہ اب صورتحال یوں ہے کہ وہ جو اقتدار میں ہوتے ھیں وہ اختیارات سے معذور۔ بلکہ مغلوب ہوتے ہیں جبکہ. وہ جو. اختیارات کے حامل ہیں اقتدار کی راہ داریوں میں نظر نہیں آتے۔اس صورت حال. پوشیدہ طاقت بھی کہا جاتا ہے اب پاکستان میں فیصلہ سازی کا مرکزٍ ثقل پارلیمنٹ کی بجایے کسی اور مگر. قریبی مقام منتقل ہو چکا ہے۔
اقتدار و اختیار کی اس تقسیم یادوئی کا عمیق پہلو. جو اقتدار کو مزید منقسم کرتا ہے وہ پارلیمنٹ کا نظم ہے پیلے سطح پر قومی اسمبلی میں کسے ایک جماعت کو اکثریت نہیں ملتی. تو مخلوط حکومت سازی اسے اندر سے کمزور و مغلوب بنا دیتی ہے ثانوی طور پر پارلیمانی نظم کے تسلسل کے قائم ایوان بالا ایک ایسے ٹول کی صورت اختیار کر چکا ہے جو مختلف اوقات میں ہونے والے انتخابی عمل کے تناظر میں پارلیمانی قوت کی تقسیم کا آلہ بن گیا ہے۔ 2018 میں بلوچستان اسمبلی میں تبدیلی اور بعد ازاں سینٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا. اسے دھرانے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ وہ سب ہمارے سیاسی حافظے پر انمٹ نقش کا درجہ رکھتا ہے۔اس حوالے سے گو کہ آئینی پاسداری ملخوظ رھتی ہے ہماری آئین ساز مدبروں (دستور ساز اسمبلی کے ارکان) کسی کے گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ انکی تدبیر پارلیمانی نظام کو مستحکم و مسلسل رکھنے کے برعکس اسے تقسیمِ کرنے کا آلہ بن جایے گا۔
اس بیان کا مناسب ادراک اس سیاسی عدم استحکام سے بخوبی لگایا جا سکتا جو مابعد ضیائی آمریت کے. اب تک جاری ہے۔ پرویز مشرف کا دور. اس کی کمزور ہوتی گرفت کو مضبوط کرنے کا عمل تہا۔
بظاہر. پاکستان پارلیمانی جمہوری ملک ہے مگر درحقیقت بلکہ اصل ایسا جمہوریت کو کچل کر کیا جارہا ہے۔ عوام کو. ووٹ دینے کا موقع دیا تو جاتا ہے لیکن ان کی رایے کو شماریات کے ذریعے من پسند نتائج میں بدل دیا جاتا ہے۔ انتخابات کے ڈہونگ سے پہلے اگلی حکومت کے خدوخال طے کیے جاتے ہیں یاان خطوط پر معاملاتِ طے پانے کا نادیدہ کردارروبہ عمل ہوتا ہے اس حوالے سے اگر. عوام کے کسی خوش گمان حلقوں کا اعتماد و بھروسہ تہا. بھی تو وہ جناب شہباز شریف کے اس انٹرویو کے بعد اپنی موت مرگیا یے جو جناب سہیل وڑائچ صاحب کو دیا گیا تہا جو 19 اپریل جنگ کی اشاعت میں ایک کالم کی شکل. شائع ہوا ہے جبکہ اسے نمایاں سرخیوں کے ساتھ بطور خبر چھپنا چاہیے تھا کالم نے اس کی عوامی آگہی کی کمیت (مقدار). کم کر دی ہے۔ مگر سیاسی صحافتی حلقوں میں اس پر کھلی بحث شروع ہوگئی ہے۔اس انٹرویو کے مندرجات پر تبصرہ کرنے پہلے دو ضمنی سوال زیر بحث لانا چاہتا ہوں مسلم لیگ یا دوسرے الفاظ م شریف فیملی اقتدار و اختیار دونوں کے نشانے پر ہے توجنگ و جیو بھی اسی کیفیت کا شکار ہے دریں حالات اس طرح کے انٹرویو کے مابعد و فوری اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟ کیا دونوں فریق۔ مسلم لیگ اور جنگ گروپ نے متحدہ انداز میں اندر کی کہانی (کہانیوں) کو بیچ چوراہے طشت از بام کرنے کا آغاز کیا ہے؟
ایسا ہے تو اس کے سلیس معنی ہونگے کہ فریقین کو ریلیف کا امکان باقی نہیں رہا تھا سو وہ ڈرامے کا کلائمکس سامنے لے آئے ہیں!!
اس انٹرویو کے بعد اب موجودہ حکومت کے پاس. خود کو ” منتخب شدہ عوامی ” حکومت کہلوانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا تو کیا اس نقطے کو مقتددہ کی منشا ھی سمجھنا چاہیے۔
انٹرویو کے مطابق 2018 میں عام انتخابات سے قبل جناب شہبازشریف کے ساتھ پس پردہ رابطوں میں انہیں وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہوگیا تہا بلکہ وفاقی کابینہ کا ارکان پر بھی. فریق متفق ہوگئے تہے۔
پہلا. سوال. جو سوال بھی نہیں نوشتہ دیوار حقیقت ہے مگر ازراہ مباحثہ یہ پوچھنا یا جاننا بہت ضروری ہے کہ جناب شہباز شریف کے معاملات طے کرنے والا دوسرا فریق کون تھا؟ کیونکہ یہ امور تو انتخابی تماشہ لگنے سے پیلے طے ہورہے تہے تو اس عمل میں دوسرا فریق ” عوام ” تو ہو نہیں سکتے!
ثانوی طور یہ بھی سوال. ہر وطن دوست پاکستانی کے ذھن میں کلبلا. رہا ہوگا اور انہیں اس سوال کا حق بھی ہے کہ بتایا جایے کہ مذکورہ معماملہ بندی میں شریک دوسرا فریق کس آئینی اختیار قانونی جواز اور اصول پسندی کی بنیاد پرشریک عملتھا۔؟
ہم جانتے ہیں کہ جولائی 2018 میں جناب میاں نواز شریف ووٹ کو عزت دو کی سیاسی عوا۔ مہم چلا رہے تہے۔ تو. ان کے بہائی کس کی رضا و منشا سے. پچھلے دروازے سے. ووٹ کی عزت کو ملیامیٹ کرنے میں مصروف تھے؟ میں کسی بھی دلیل کے ساتھ مزکورہ عمل کوسیاسی عملیت پسندی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوں۔مزکورہ حالات میں میاں نوازشریف لندن سے گرفتاری دینے لاہور پہنچے تہے تو عوامی توقع کے برعکس مسلم لیگ کی قیادت ان کا لاہور ائیرپورٹ پر استقبال کرنے سے بری طرح قاصر رہی تھی ایسا ریاستی طاقت و جبر کے زریعے ممکن ہوا تھا طے پاتے معاملاتِ کی پیشرفت یقینی بنانے کے لیے جناب شہبازشریف نے بلااہتمام ممکن بنایا تھا؟ اگر اس دن لاہور عوامی جمہوری طاقت کا مدکز ٍ ثقل بن جاتا تو کیا وی سب کچھ وقوع پذیر ہونا ممکن ہوتا جو 25 جولائی 2018 اور اس کے بعدمسلم لیگ ملک عوام اور ملکی معیشت کے ساتھ ہوا ہے؟؟ سوالات کی گھڑی میں مزید امور بھی بحث طلب ہیں سردست یہ جاننا اشد ضروری ہو گیا ہے کہ کیا آئندہ بھی جمہوریت کے نام پر عام انتخابات سے قبل حکومت سازی کے معاملات طے پاتے رہیں گے یا کبھی۔ اہل پاکستان کو بلا جبر و کراہ شفاف و آزادانہ طور پر اپنے لیے اپنے نمائندیمنتخب کرنے اپ لیے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کا موقع ملے گا؟ اگر اس کاخاموش جواب بھی نفی میں ہو تو پھر انتخابات کا ڈرامہ رچا کر اربوں روپے برباد کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں