کوشش ناتمام

انور ساجدی
پاکستان جغرافیائی طور پر امریکہ سے بہت دور ہے لیکن سیاسی اور معاشی اعتبار سے یہ ہمیشہ اس کے قریب رہا ہے اگر یہ کہا جائے کہ انگلینڈ کی نو آبادیات کی جگہ امریکہ نے جدید نوآبادیات کی جو تشکیل کی پاکستان اس کا لازمی حصہ رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن یہ تعلقات باہمی لین دین پر استوار ہے امریکہ کو اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کیلئے وقتاً فوقتاً پاکستان کی ضرورت رہی ہے جیسے کہ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کا خوب استعمال کیا حتیٰ کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے امریکہ کو پشاور کا ہوائی اڈہ سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی اور سوویت یونین نے یہاں سے اڑنے والے ایک امریکی جاسوسی طیارے یوٹو کو مار گرایا تھا ایوب خان کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں امریکہ نے پاکستان کو نام نہاد جہاد کا مرکز اور سی آئی اے کا سب سے بڑا اسٹیشن بنادیا تھا کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے نام پر اسرائیلی موساد کے سینکڑوں ایجنٹ بھی اسلام آباداور پشاور میں بیٹھ کر جنگ کی منصوبہ بندیوں میں حصہ لیتے تھے ضیاء الحق کو موقع ملا تھا کہ وہ پاکستان کے تمام قرضے معاف کرواسکتے تھے اور امریکہ سے جتنے ڈالر ملے تھے اس سے دوگنا وصول کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا جو اربوں ڈالر آئے تھے وہ ضیاء الحق کے قریبی ساتھیوں کی خوشحالی کیلئے کافی تھے انہوں نے اپنے ملک کو داؤ پر لگا کر بھی اس کا بھلا نہ سوچا اسی طرح کا موقع جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ آیا تھا جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرکے افغانستان پر حملہ کیا تھا لیکن مشرف نے گھبراہٹ میں کوئی سودے بازی نہیں کی بلکہ امریکہ نے جو احکامات دیئے اس پر من و عن عمل کیا 1990ء کی دہائی میں جب سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی تو امریکہ پاکستان کو یکہ و تنہا بے یارو مدد گار چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا اسی طرح افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد امریکہ نے پاکستان کی امدادمیں کمی کردی جو تاحال برقرار ہے اب جبکہ امریکہ کو کرونا کی وجہ سے تاریخ کی بدترین صورتحال کا سامنا ہے تو وہ پھر بھی پاکستان کو نہیں بھولا اور چالیس ملین ڈالر کی امداد بھجوادی کیونکہ جب تک امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا نہیں ہوتا اسے پاکستانی سروسز کی ضرورت پڑے گی لیکن امریکہ پر ٹوٹ پڑنے والی افتاد کے باوجود یا چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ شروع ہونے کے باوجود پاکستان مزے میں رہے گا ایک طرف چینی امداد حاضر خدمت رہے گی دوسری جانب امریکہ بھی اپنا ہاتھ مکمل طور پر نہیں کھینچے گا یہ الگ بات ہماری تبدیلی سرکار نے پونے دو سال کے عرصہ میں معیشت کا پورا جنازہ نکال دیا تھا صرف تدفین باقی تھی اس امرکی تصدیق کسی اور نے نہیں بلکہ عمران خان کی کابینہ کے سینئر وزیر شیخ رشید احمد نے دو چار دن پہلے اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کیا تھا انہوں نے مانا کہ ہم تقریباً ڈیفالٹ کرنے والے تھے کہ کرونا آگیا اور ہم بچ گئے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو ہولناک صورتحال کے باوجود اطمینان ہے وہ جانتے ہیں کہ وزیرستان اور سوات کی لڑائیوں میں 60 ہزار پاکستانی بلاوجہ مارے گئے تھے اگر خدانخواستہ کرونا کی وجہ سے اتنی تعداد کام آجائے اور معیشت دیوالیہ ہونے سے بچ جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے اسی لئے وزیراعظم شروع دن سے لاک ڈاؤن کے مخالف ہیں ان کی اس پالیسی کی وجہ سے ملک میں ہونے والا لاک ڈاؤن شٹر ڈاؤن میں تبدیل ہو ااور جو اس کے مقاصد تھے وہ پورے نہ ہوسکے حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ساؤتھ پنجاب کے نصف ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کو کرونا لگ چکا لیکن ان ڈاکٹروں کو بچانے کیلئے ابھی تک حکومت نے ٹھوس اقدامات نہیں کئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سخت ناراضی کے بعد پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے دو ماہ بعد ملتان کا دورہ کیا ہے جہاں تباہ کن صورتحال ہے جبکہ پورے سرائیکی بیلٹ کا وہی حال ہے جو بلوچستان کا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا سارا زور سینٹرل پنجاب پر رہا ہے یہ الگ بات کہ لاہور کے اسپتالوں کا بھی برا حال ہے کیونکہ حکومت کی توجہ اپنے شہریوں کو بچانے پر نہیں ہے بلکہ چندہ عطیات اور غیر ملکی امداد جمع کرنے پر ہے بے چارے فیصل ایدھی کو بیوروکریسی نے مجبور کرکے کراچی سے اسلام آباد بھیجا تاکہ وہ ایک کروڑ کا چیک وزیراعظم کو پیش کریں وزیراعظم نے ان کی بے عزتی بھی کردی پیسہ بھی وصول کرلئے اور واپسی پر انہیں کرونا بھی لگ گیا اس صورتحال سے خوفزدہ ہوکر وزیراعظم نے اپنا ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا ہے وہ اس خیال میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ کہیں ایدھی انہیں کرونا میں مبتلا کرکے تو نہیں گئے ہیں خدا کرے کہ وزیراعظم صحت مند ہوں کیونکہ عطیات جمع کرنے میں وقفہ آجائے گا اور قوم و ملک کا بڑا نقصان ہوجائے گا وزیراعظم کا صحت مندرہنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کی جان خلاصی ہوجائے کافی معافی تلافی کے بعد وزیراعظم نے اس کے ”ٹیلی تھون“ کانفرنس میں شرکت کیلئے آمادگی ظاہر کی تھی جس کے بعد یہ توقع تھی کہ انگریزی میڈیا گروپ کے بعد جنگ اور جیو گروپ کے تعلقات بھی وزیراعظم سے معمول پر آجائیں گے۔ جن کے نتیجے میں میر شکیل الرحمن کی رہائی متوقع ہے وزیراعظم عمران خان صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی نے ثابت کیا ہے کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون نہیں ہے جمہوریت اس کے بغیر بھی چل سکتی ہے انہوں نے یہ اوقات بھی بتادی ہے کہ میڈیا اس پوزیشن میں نہیں کہ حکومتوں کا تختہ الٹ سکے 1990ء کی دہائی میں جب جنگ گروپ اور میاں نواز شریف کی لڑائی ہوئی تھی تو اس وقت بھی نواز شریف نے ثابت کردیا تھا کہ میڈیا کتنا طاقتور کیوں نہ ہو وہ حکومتوں کو گرانے کی طاقت نہیں رکھتا البتہ وہ حکومتوں کا حاشیہ بردار اور بڑے اداروں کا طفیلی بن کر زندہ رہ سکتا ہے نواز شریف کا تو سارا زور ایک گروپ کے خلاف تھا لیکن عمران خان نے پورے میڈیا کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے اس صورتحال میں اگر وہ بڑے میڈیا گروپ کو معافی دیدیں تو ہوسکتا ہے کہ دیگر گروپوں کے زندہ رہنے کی سبیل پیدا ہوجائے ریلوے کے وزیر شیخ رشید کے بارے میں میڈیا کا جو بھی تاثر ہو لیکن انہوں نے نہایت جانفشانی سے وزیراعظم کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بڑے میڈیا گروپ کی جان بخشی کردیں اگر شیخ صاحب کی کاوشیں کامیاب ہوئیں تو یہ کریڈیٹ ضروران کو جائے گا اگر آپاں فردوس کی جگہ شیخ رشید کو وزیر اطلاعات بنادیا جائے تو یہ حکومت اور میڈیا کے تعلقات کیلئے بہت اچھا ہوگا آپاں کا کیا ہے وہ وفاقی حکومت کی ترجمانی پر لگ سکتی ہیں البتہ وہ اتنا منافع بخش کام نہیں ہے۔
ادھر صدر ٹرمپ نے میڈیا کے خلاف جنگ تیز کردی ہے کرونا کی ابتداء میں جب امریکی پریس حکومت کی ناقص کارکردگی کو لیکر شور مچا رہا تھا تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میڈیا بلاوجہ شور مچارہا ہے کرونا جھوٹ ہے اور میڈیا محض افواہیں پھیلا رہا ہے اب جبکہ کرونا قابو سے باہر ہوگیا ہے امریکی معیشت بیٹھ گئی ہے تو صدر ٹرمپ میڈیا پر افواہیں پھیلانے اور لوگوں کو خوفزدہ کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں صدر ٹرمپ کی گھبراہٹ بلاوجہ نہیں ہے کل رات امریکی خام تیل کی مارکیٹ کریش کر گئی اور تیل کی قیمت منفی ڈیڑھ ڈالر پر چلی گئی اس واقعہ کے بعد صدر ٹرمپ نے امیگریشن پر مکمل پابندی لگادی ہے اور اپنی سرحدیں مکمل طور پر بند کردیں ہیں وہ سخت حواس باختہ ہیں اور چین کو کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں ان دھمکیوں کے باوجود امریکی معیشت کی بحالی میں کافی وقت لگے گا اس کی سینکڑوں بڑی صنعتیں فوری طور پر دیوالیہ ہوجائیں گی جس میں طیارہ سازی اور موٹر سازی کی صنعتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ٹورازم کی صنعت توشاید ایک دہائی تک بحال نہ ہوسکے کرونا کی تباہ کاریاں جوں جوں آگے بڑھیں گی صدر ٹرمپ کی حواس باختگی اور پریشانیوں میں اضافہ ہوجائے گا ہوسکتا ہے کہ یہ صورتحال ان کے دوبارہ انتخاب کی راہ میں بھی رکاوٹ بن جائے اس وقت امریکہ میں شدید افراتفری ہے اور لوگوں نے لاک ڈاؤن کے باوجود مظاہرے شروع کردیئے ہیں کیونکہ کروڑوں لوگ بھوک اور فاقوں سے نڈھال ہیں اس کے برعکس یورپی ممالک نے اپنے عوام کو اچھا خاصا سنبھال رکھا ہے۔
ادھر ہمارے کپتان بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو احساس کا نام دے کر جو امداد تقسیم کررہے ہیں وہ ناکافی ہے اب تک جتنی امداد دی جاچکی ہے اس سے کئی گنا زیادہ فنڈز حکومت کو ملے ہیں لیکن یہ حکومت اتنی اہل نہیں کہ مستحقین کا ڈیٹا جمع کرسکے ثانیہ نشتر کے پاس پہلے سے جو ڈیٹا موجود تھا یہ کام آصف زرداری نے کیا تھا ن لیگ کے دور میں ثانیہ نشتر ماروی میمن کی معاون مقرر ہوئی تھیں اس لئے ان کے تجربہ میں اضافہ ہوگیا تھا یعنی ثانیہ نشتر جن کی تعریف ہورہی ہے وہ بھی ن لیگ کی تحفہ ہیں۔
اپنے تحریک انصاف کے پلے میں کچھ بھی نہیں ہے حکومت مزید کیا امداد جمع کرپائیگی اس کا اندازہ جیو کے ٹیلی تھون کانفرنس کے دوران ہوجائے گا اور پتہ چلے گا کہ اووسیز پاکستانی جو خود کرونا کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں وہ کس حد تک حکومت کی مدد کو آئیں گے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں