ماہیگیر مزدوروں کا روزانہ استحصال

جاوید بلوچ
یکم مئی دنیا بھر میں یوم مزدور کے طورپر منایا جاتا ہے جس کا مقصد کہنے کو تو شکاگو سمیت دنیا بھر کے تمام مزدوروں کو خراج عقیدت اور سرخ سلام پیش کرنا ہوتا ہے مگر یہ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خیراتی اداروں یعنی این جی اوز کی پیدا کردہ فوٹو سیشن کلچر کی باقی ایام کی طرح یہ دن بھی نام نہاد موم بتی گروپ، پریس کلبی نعرے بازوں اور سوشل میڈیا پر ایکٹوسٹ ٹولے کی چند پوسٹوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے
یوں تو جاگیردار اور سرمایہ دار منتخب نمائندگان نے اسمبلیوں میں اچھے خاصے کاغذی بل بھی منظور کرائے ہیں قوانیں بھی بنے ہیں لیکن ان کا استعمال کہاں، کیسے اور کب ہورہا ہے؟ بقول بلوچی کے اس شعر کی کہ "ھچ مہ گْش گْنگ بہ بو زبان منی” شاید اس کا مطلب آسان اردو میں یہ ہو کہ خبردار بولنا منع ہے، اسی طرح کی ایک بل ماہیگیر مزدوروں سے متعلق بلوچستان اسمبلی میں پڑے پڑے اب شاید سڑھ بھی چکا ہوگامگر پاس نہ ہوسکا
مزدور، کسان یہ دو الفاظ تو ہم نے اکثر سنے ہیں مگر ان دو الفاظوں کے بیچ ماہیگیر کو کبھی نہیں سن پاتے، مزدوروں سے متعلق آئیے یہ ایک آسان سی مشق کر لیتے ہیں کہ اپنے علاقے کے کسانوں کا ایک خاکہ اپنے ذہن میں بناکر دیکھتے ہیں جو کسان فصل بوتا ہے، کھیتی باڑی کرتا ہے اس کی زمینیں کتنی ہیں؟ اور اس کے مقابلے میں اسی حلقے سے منتخب نمائندے کے کتنی زمینیں ہیں اور دونوں کے لائف اسٹائل کیسے ہیں؟
اگر مندرجہ بالا مشق سمجھ میں نہیں آیا تو آسان سی الفاظ میں یہ سمجھتے ہیں کہ مزدور کے لیئے بنائے گئے قوانین کا اس مزدور کو کتنا علم ہے؟ ہمارے نمائندگان، زمہ داران، میڈیا انھیں کتنا معلومات اور آگاہی فراہم کر رہا ہے اور ان بلز کے بننے سے مزدوروں کو کیا فرق پڑا ہے؟ شاید یہ سوالات بھی بہت ہی مشکل اور پیچیدہ ہوں۔۔۔
مزدور اور کسان سے متعلق کچھ کاغذ اور فائلوں میں قانون کے نام اور جملے تو موجود ہیں جہاں مزدور کا ذکر ملتا ہے لیکن ایک ایسی بدقسمت مخلوق بھی ہے جو دن رات مزدوری کرتی ہے، ملک کی معیشت اور ٹرانسپورٹ سمیت پورے ساحلی پٹی کے لیے ذریعہ روزگار بھی ہے مگر قانونی طورپر اپنی شناخت سے محروم ہے، ماہیگیر مزدور وہ لاچار اور کمزور طبقہ ہے جو مشقت تو بالکل ایک جاگیر دار کی فیکٹری میں کام کرنے والی مزدور یا کسی بنجر زمین پر ہل چلا کر اسے آباد کر دینے والے کسان کی طرح پسینہ بہا کر کرتا ہے مگر کاغذی فائلوں کی حد تک بھی آج تک مزدور کہلانے کا حق حاصل نہیں کرسکا ہے
اور سب سے بڑھ کر جبر و ظلم یہ کہ اس مزدور کا روز روز معاشی استحصال ہوتا ہے مگر سماجی و انسانی حقوق کے علم برداروں سے لیکر انہی ساحلی بستیوں سے ووٹ بٹورنے والے اشرافیہ تک لب کشائی کی زحمت نہیں کرتے، روزانہ یہ ماہیگیر مزدور جب کھلے سمندر اپنی رزق تلاش کرنے نکلتے ہیں تو وہاں پہلے سے موجود بڑے سرمایہ دار اور اثرو رسوق رکھنے والے با اثر عہدیدار و شخصیات کے ٹرالر ممنوعہ جدید جالوں سے مچھلیوں کی بیج تک کا صفایہ کرچکے ہوتے ہیں، اپنی نیلگوں سمندر ماں کی کھوک کو اجڑتے دیکھ کر جب یہ لاچار ماہیگیر مزدور احتجاج کرتے ہیں تو انھیں قانونی پیشیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار تو یہ ٹرالر مافیہ کے غنڈے تو حملہ آور بھی ہوتے ہیں جن سے صوبائی سرکار کے ماتحت محکمہ فشریز کے اہلکار محفوظ نہیں ہوتے تو ایک عام ماہیگیر مزدور کے پاس نہ تو اپنے دفاع کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ۔۔
البتہ مزدور یونینز کی طرح ان ماہیگیر مزدوروں کے بھی کچھ نام نہاد تنظیمیں بھی ہیں جن کے عہدے دار وہ چالاک طبقے میں سے ہوتے ہیں جو حلقے سے منتخب نمائندے کے مریدان خاص میں سے ہوتے ہیں، ان تنظیموں کے لیے ماہیگیر مزدوروں کے مسائل کی اہمیت اتنی نہیں جتنی منتخب نمائندے کی ووٹ بینک کو بچانا اور الیکشن کے لیے ورک کرنا، گوادر ہی کا ایک واقعہ ہے کہ سمندری طوفانوں سے ماہیگیروں کے نقصانات کے حوالے سے میں نے گوادر کے ایک نامی گرامی ماہیگیر تنظیم کے عہدیدار سے اپنے ایک آن لائن ویب سائٹ کی اسٹوری کے لئے بات کی تو جناب علاقے کی نمائندگان سے متعلقہ ماہیگیروں کے شکایات کو نہ صرف ٹالتا گیا بلکہ سوال کچھ اور، جواب کچھ اور دیتا گیا، جس سے ان کا ماہیگیروں کا نمائندہ ہونے سے زیادہ منتخب نمائندے کی جماعت کا کارکن ہونا زیادہ جھلک رہا تھا۔
ان محکوم، مظلوم اور مجبور ماہیگیر مزدورں پر ایک اور جبر کا پہاڑ ہر وقت کمپنیوں کی صورت میں ٹوٹتا رہتا ہے جس کا مہذب دنیا میں اب اس اکیسویں صدی میں کوئی وجود بھی نہیں، مزدوروں کے خلاف استحصال کو روکنے کے حق میں قوانیں موجود ہیں کہ کسی بھی انسان کو خرید کر اپنا غلام نہیں بنایا جاسکتا۔ جس طرح پرانے زمانے میں وڈیرے، چوہدری یا جاگیردار محکوم انسانوں کو خرید کر ان سے سال بھر کام کراوتے تھے اور چند پیسے یا اناج مزدوری کے طورپر دیئے جاتے تھے بالکل اسی طرح کالے اور انسانیت دشمن کلچر کا ایک نیا ورژن سیٹھ یا کمپنیوں کی شکل میں ماہیگیر مزدوروں پر مسلط ہے یہ کمپنیاں اور سیٹھ ماہیگیر مزدوروں کو کشتیوں کے لئے کوئی ایک انجن، جال یا قرضہ دے کر زندگی بھر اپنی طے کردہ قیمت پر مچھلیاں خرید کر آگے اس سے کئی گناہ زیادہ نفع کے ساتھ فروخت ہیں، اگر ماہیگیر سیٹھ کی بیان کردہ قیمت سے بغاوت کردے تو یہ چند گروپ کا سرمایہ دار طبقہ اس ماہیگیر کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور یوں اس کا روزگار تباہ ہوجاتا ہے۔
یہ استحصالی سیٹھ اور کمپنیاں نہ تو کسی قابض ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہیں اور نہ ہی حمل جیئند کی مزاحمتی تحریک کے دشمن پرتگیزی قابضین کی بلکہ اکثریت تو انھی منتخب نمائندوں کی ہیں جن سے امید یا احمقانہ مطالبہ کی سوچ رکھی جاتی ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر ماہیگیر مزدوروں سے متعلق قوانین پاس کرائینگے، ان کے استحصال کے خلاف تحریک چلائینگے اور آواز بلند کرینگے۔
گزشتہ دنوں لاک ڈاؤن کے حالات میں جیونی کے ماہیگیر مزدوروں کے خواتین نے احتجاج کیا کہ انھیں روزگار کرنے دیا جائے اور شکار کے اوقات سمندر جانے پر پابندی ہٹائی جائے مگر ایسے احتجاج اور مطالبات غیر ضروری سمجھ کر اگنور کردیئے جاتے ہیں، گوادر کے علاقے سْربندر کے ماہیگیروں نے علاقے کے ایک سیاسی شخصیت مولانا ہدایت الرحمن کی سربرائی میں ڈپٹی کمشنر گوادر سے ملاقات کی اور ماہیگیروں کے مسائل سے انھیں آگاہ کیا تو جواباً محترم ڈپٹی کمشنر صاحب نے یہ کہا کہ ماہیگیر زیادہ بچے پیدا کیوں کرتے ہیں، یعنی اس مظلوم اور محکوم طبقے کو مزدور تو دور بلکہ قابل مذاق بھی سمجھا جاتا ہے تاکہ حقوق کی مانگ غلطی سے بھی نہ کرے یہ نوبت اور کمتری کے حالات اب انکے ذرائع معاش کی تلاش تک نہیں بلکہ زندگیوں پر اعلیٰ دفاتر میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ہیں
اگر ماہیگیر کو قانونی طورپر مزدور مان لیا گیا تو وہ اپنے یونیئنز آزادی کی ساتھ اپنی مرضی سے منتخب کرسکتے ہیں نہ کہ مسلط کردہ اشرافیہ کے خاص بندے، ماہیگیر کے بچے بھی اعلی تعلیم کے حقدار ہونگے اور ماہیگیروں کے کوٹے پر اعلی تعلیمی اداروں تک جاسکتے ہیں، شعبہ صحت میں ماہیگیر کو بھی صحت کے آسان سہولیات مل سکتے ہیں وہ اپنے بچے کی پیدائش اور بیوی کی بیماری کے لئے کسی نمائندے کے گیٹ پر کھڑا بھیک نہیں مانگے گا بلکہ اپنے قانونی اور حکومتی کوٹے پر بغیر کسی منت سماجت کے اپنا اور اپنے بچوں کا علاج کراسکے گا یا کسی ایسے حکومتی اعلان پر کہ سمندر جانا ممنوعہ ہے پر ذہنی پریشانی میں الجھ کر خودکشی کرنے کی بجائے حکومتی امداد سے مستفید ہوگا اور کم از کم اتنا تو اپنی مرضی سے کریگا کہ اپنے مچھلیوں کو اپنے طے کردہ قیمتوں پر فروخت کرے نہ کہ غلام بن کر کسی کمپنی کے طے شدہ اصولوں پر۔
جس طرح باقی مزدورآج بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ایسے میں کچھ خاص امید رکھنا ٹھیک نہیں لیکن اگر ماہیگیر کو قانونی طورپر مزدور تسلیم کرلیا گیا تو شاید وہ روز روز کے معاشی استحصال سے بچ کر خود کو گمنام نہیں بلکہ محنت کش مزدور مان لیں اور اپنے روزگار، بقاء اور سب سے بڑھ کر آئندہ نسلوں کے بارے کچھ اطمنان سے سوچھ سکیں یا کم از کم انھیں اپنے روزانہ ہونیوالے معاشی استحصال کا علم تو ہو اور اسے اپنی قسمت کا حصہ سمجھ کر اس دور میں زمانہ قدیم کے انسان دشمن غلامی کو محسوس کرسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں