کرونا کی سوغاتیں اپریل 23, 2020اپریل 23, 2020 0 تبصرے انور ساجدی کرونا نے بنی نوع انسان کوفطرت کے قریب کردیا ہے ساری دنیا کے لوگ کافی عرصہ کے بعد ریستورانوں کی بجائے گھر کا کھانا کھارہے ہیں،بیکری کھلی ہوئی ہیں لیکن لوگ کیک اور مٹھائی کھانے سے پرہیز کررہے ہیں کسی زمانے میں برصغیر کی مٹھائی شاپ ٹائیفائڈ اور ملیریا پھیلانے کے مرکز تھے کیونکہ یہاں ہمیشہ مکھیوں کا ڈیرہ ہوتا تھا ایک یورپی سیاح نے سینکڑوں سال قبل ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔انہوں نے جو منظر کشی کی اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی مثال کے طور پر ہندوستان میں بازاروں کی کوئی ترتیب نہیں ہے ایک دکان کپڑے کی ہے تو ساتھ لوہار بیٹھا ہوا ہے اور اگلی دکان مٹھائی کی ہے۔صدیاں گزرنے کے باوجود بیشتر شہروں کے پرانے بازاروں کی وہی ترتیب ہے۔ ایک انگریز استاد نے لکھا ہے کہ ہندوستان کی تہذیب پانچ ہزار سال پرانی ہے اس عرصہ میں اس میں تین چیزیں نہیں آئیں،ڈسپلن صفائی اور ایمانداری موہنجودڑو دیکھیں ہڑپہ دیکھیں یا ہریانہ میں جوآثار ملے ہیں گلیاں اس وقت جتنی تنگ تھیں پاکستان کے پرانے شہروں میں آج بھی اسی طرح تنگ ہیں پاکستان دودھ پیدا کرنے والا بڑاملک ہے لیکن یہاں دودھ کی پیداوار کیلئے گائے بھینسوں کی ضرورت نہیں ہے بازار میں نقلی دودھ بڑی مقدار میں موجود ہے ایک واقعہ کا ذکر پہلے بھی کیا ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی کمپنی کے ایک ایگزیکٹو نے بتایا کہ جب اسدعمر اس کمپنی کے سربراہ تھے تو ایک دن انہوں نےمجھے بلاکر کہا کہ جاؤ ساہیوال میں ہمارا دودھ بنانے کا پلانٹ تیار ہے آپ اس کا چارج سنبھال لیں افسر کے مطابق میں نے کہا کہ مجھے ڈیری کا کوئی تجربہ نہیں ہے موصوف نے فرمایا کہ آپ کو کس نے کہا کہ گائے بھینسوں کادودھ بناؤ وہاں پر جو مال بنے گا آپ اسے سنبھالیں بدقسمتی سے یہی دودھ اس وقت سب سے زیادہ بک رہا ہے حالانکہ نوراالمین مینگل جب لاہور میں پوسٹ تھے تو انہوں نے ٹیسٹ کے بعد قرار دیا تھا کہ جتنے ڈبے والے دودھ ہیں وہ محض وائٹنر ہیں یعنی سفیدی ان میں دودھ کا کوئی عنصر نہیں ہے لیکن یہ مافیا اتنا طاقتور تھا کہ اس نے شہبازشریف پردباؤڈال کر نورالامین کا فیصل آباد تبادلہ کروادیا ایک مرتبہ آئس کریم بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کا کیس عدالت میں پیش ہوا تو کمپنی نے اعتراف کیا کہ اسکی آئس کریم میں کریم سرے سے شامل نہیں ہے کمپنی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ کریم صحت کیلئے مضر ہے جبکہ ہم وہ میٹریل شامل کررہے ہیں وہ بناتات سے حاصل کیاجاتا ہے جوصحت کیلئے مفیدہے نورالامین کی ایک اور تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان میں گھی اور تیل کے جتنے برانڈز استعمال میں ہیں وہ سب جعلی ہیں لیکن اس رپورٹ کے باوجود سب کچھ بک رہا ہے اور درجنوں نئے کارخانے بھی قائم ہوگئے ہیں۔ اگرکہا جائے کہ پاکستان دونمبر ملاوٹ والی یاناقص خوراک کے لحاظ سے انڈیا کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے تو بے جانہ ہوگا یہ تو سب جانتے ہیں کہ بڑے شہروں کے مذبحہ خانوں میں کسی طرح کے جانور ذبح ہوتے ہیں اور کس قسم کا گوشت غریب عوام کو فروخت کیاجاتا ہے سفید مرغیوں کا تو اس سے بھی برا حال ہے کیونکہ اس کی فیڈ نہایت مضر صحت ہے گزشتہ دوڑ میں پولٹری فیڈ پرشہبازشریف کے صاحبزادہ سلیمان نے اپنی اجارہ داری قائم کررکھی تھی انکے ملک سے فرار کے بعد معلوم نہیں کہ آج کل کس سیاسی رہنما نے اس منافع بخش کاروبار پراپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے ناقص خوراک کی طرح پاکستان کی سیاست بھی دونمبری ہے یہ انڈیا کی طرح واحد ملک ہے جہاں سیاست خدمت کا ذریعہ نہیں بلکہ کاروبار اور دھن اکٹھا کرنے کا پیشہ ہے سیاست کوکاروبار کاذریعہ بنانے کی طرح فیلڈ مارشل ایوب خان نے ڈالی تھی وہ زمانہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ساری دنیا میں صنعتوں کے احیاء کا دور تھا چنانچہ پاکستان نے بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بڑی ترقی کی لیکن کارخانوں کے لائسنس اور پرمٹ کااجراء سخت حکومتی کنٹرول میں تھا کئی بااثرلوگ حکومت سے پرمٹ لیتے تھے اور آگے منافع پربیچتے تھے ایوب خان نے اپنے وقت کے طارق جمیل یعنی درباری ملا مولانا احتشام الحق تھانوی کو تولیہ کی فیکٹری لگانے کا پرمٹ دیا تھا جو انہوں نے ایک مشہور کمپنی کوبیچ دیا تھا یہ بات چھپی نہ رہ سکی اور مخالفین نے احتشام الحق کانام مولوی تولیہ رکھ دیا تھا ایوب خان کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو بھی سیاستدانوں کوگاڑیوں کے پرمٹ بطور رشوت دیا کرتے تھے انہوں نے بلوچستان کی ایک مشہور سیاسی شخصیت کو ٹرکوں کے چالیس پرمٹ دیئے تھے اس زمانے میں چاول ایکسپورٹ کرنے کے لائسنس بھی ملتے تھے بھٹو صاحب سیاسی رہنماؤں کو پلاٹ بھی الاٹ کرتے تھے بلوچستان ہی کی ایک نامور سیاسی شخصیت کو انہوں نے کراچی میں دوپلاٹ دیئے تھے لیکن فروخت کیلئے جب اخبار میں اشتہار آیا تو لوگوں کو پتہ چلا 1985ء کو جب جنرل ضیاؤ الحق نے غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا تو اس وقت سندھ کے بلوچوں کے سفید ریش میرعبدالحمید خان جتوئی،میرغوث بخش بزنجو کی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی سندھ کے صدر تھے اور یہ جماعت ایم آر ڈی کاحصہ تھی میرصاحب کے مطابق ایک رات ڈپٹی کمشنر دادو کا فون آیا کہ جنرل ضیاؤ الحق آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں میرصاحب کے بقول انہوں نے جواب دیا میں اپوزیشن میں ہوں اور میں بات نہیں کرسکتا دودن بعد دوبارہ ڈپٹی کمشنر کافون آیا تو میں نے پھر منع کردیا ایک رات جب میں گہری نیند سورہاتھا تو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی لائن پرضیاؤ الحق خود تھے کہہ رہے تھے میرصاحب آپ راولپنڈی آئیں گے یا میں آپ کے گھر بیٹھو جتوئی آؤں میرصاحب نے کہا کہ میں گھبراگیا کہ یہ اپنے لاڈلشکر سمیت آئیں گے اور مجھے مشکل میں ڈال دیں گے چنانچہ میں نے راولپنڈی جانے کی حامی بھری ایک ہفتہ بعد جب میں راولپنڈی پہنچا تو ضیاؤ الحق کے ملٹری سیکریٹری لینے آئے تھے جب میں آرمی ہاؤس پہنچا تو ضیاؤ الحق پورچ پرموجود تھے انہوں نے آگے بڑھ کرگاڑی کادروازہ کھولا مجھے گلے لگایا اور اندرلے گئے بہت ہی پرتکلیف کھانا کھلایا اور کہنے لگے کہ میرصاحب میں نے انتخابات کا فیصلہ کیا ہے اگرآپ حصہ لیں گے تو یہ الیکشن ہونگے اور انہیں لیں گے تو میں یہ کراؤں گا ہی نہیں میرصاحب نے کہا کہ جناب میں ایک سیاسی جماعت کا صوبائی سربراہ ہوں میں کیسے اکیلے الیکشن میں حصہ لے سکتا ہوں ضیاؤ الحق نے مضبوطی سے میرے دونوں ہاتھ پکڑے انکو چوما اور کہا کہ اپنے فیصلے سے مجھے جلدآگاہ کیجئے گا میرصاحب نے بتایا کہ اگلے روز جب وہ کراچی جانے کیلئے ایئرپورٹ پہنچے تو ضیاؤ الحق کے سیکریٹری نے کہا کہ جس مرسڈیز میں آپ آئے ہیں صدر صاحب نے یہ آپ کو گفٹ کردیا ہے یہ آپ کو کراچی میں مل جائے گی۔ پھر جب1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو میرصاحب نے ان میں حصہ لیا حالانکہ ایم آرڈی نے ان کا بائیکاٹ کردیا تھا جنرل ضیاء پی آر کے بڑے ماہر تھے جی ایم سید سرکاری ریکارڈ میں غدار تھے لیکن ضیاؤ الحق نے انہیں پھول بھیجے اور کہا کہ یہ غدار نہیں ملامتی صوفی ہیں۔اراکین اسمبلی کو اسلام آباد میں پلاٹ اور فنڈز کا اجراء انہوں نے شروع کردیا جس کی وجہ سے سیاست خدمت کی بجائے دولت کمانے کاذریعہ بن گیا سینیٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خریداری بھی انہی کے دور میں شروع ہوئی جس کی وجہ سے معززاراکین بکاؤ مال بن گئے اور پہلی مرتبہ ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح مغرب سے پاکستان آئی جنرل ضیاؤ الحق کی روایات کوانکے جانشین نوازشریف نے بھی خوب رواج دیا 8نومبر1989ء کو جب بینظیر کیخلاف نوازشریف کی قیادت میں ضیاؤ الحق کے پیروکاروں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو قومی اسمبلی کے متعدد آزاد اوربرائے فروخت ارکان کو نوازشریف نے چھانگا مانگا کے جنگل میں رکھا اور ووٹنگ کے دن اسمبلی میں لے آیا لیکن اسکے باوجود عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی1990ء میں وزیراعظم بننے کے بعد نوازشریف نے اراکین اسمبلی کوقیمتی پلاٹ اورفنڈز دے کر ضیاؤ الحق کی روایت کو زندہ رکھابدقسمتی سے یہ روایت آج بھی زندہ ہے اس کلچر نے پارلیمانی نظام اور جمہوریت کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ ناقابل تلافی ہے اکثر لوگ کثیرسرمایہ خرچ کرکے اسلئے الیکشن لڑتے ہیں کہ کامیابی کے بعد وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں۔ اراکین اسمبلی کا قانون سازی کے بعد یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مشکل اوقات میں چاہے وہ سیلاب،زلزلہ یا وبا ہوں اپنے علاقہ جاکر عوام کی رہنمائی کریں لیکن ہمارے معزز اراکین کسی غیرمنافع بخش کاروبار میں حصہ نہیں لیتے جب سے کرونا آیا ہے سارے اراکین غیرفعال ہیں اگرکل اعلان ہوجائے کہ راشن اورامداد انکے ذریعے تقسیم ہوگی سارے گھروں سے باہر نکل آئیں گے منافع کے بغیر یہ سارے اپنے گھروں کے قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔ پاکستان تو غریب ملک ہے کرونا کی وجہ سے یہاں فاقے چل رہے ہیں اس لئے عام عوام تو فکر روزگار میں مبتلا ہیں اور طویل لاک ڈاؤن سے تنگ آچکے ہیں چند روز قبل ایک دلخراش ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک پولیس اہلکارکچرہ کنڈی سے کھانا تلاش کرکے کھارہا تھا فاقوں کی زد میں جانور بھی آگئے ہیں گلیوں کے آوارہ کتے جو پہلے ہوٹلوں کے باہر پھینکا ہوا کھانا کھاتے تھے وہ بھوکے ہیں پرندے دانہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے بے حال ہیں اور گھروں کے اندر آکر کھانے کیلئے شور مچاتے ہیں۔ یہ جو کرونا کی وجہ سے معاشرتی تبدیلیاں آرہی ہیں وہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں آرہی ہیں وہاں پر80فیصد لوگ فاسٹ فوڈ کھاتے تھے وہ بہت کم ہوگیا ہے کسی زمانے میں انگلش فوڈ ساری دنیا میں مشہور تھا لیکن گزشتہ صدی میں اسکی جگہ امریکی فاسٹ فوڈ نے لے لی کرونا کی وجہ سے کھربوں ڈالر کا یہ کاروبار فی الحال تباہ ہوگیا ہے انگلش فوڈ کے بعد چائنیز فوڈ نے تیزی کے ساتھ فروغ پایا لیکن کرونا کی وجہ سے دنیا کے بیشترچائنیز ریستوران بند ہوگئے ہیں البتہ دال چاول اور سبزیوں پر مشتمل ہندوستانی کھانے ضرور مقبولیت حاصل کریں گے کراچی میں تو شائد لوگ دوبارہ چائنیز ریستورانوں کارخ کریں۔ کراچی کی نئی نسل کو بہت عرصہ بعد پتہ چلا ہے کہ انکے ساحل پر جوریت ہے اس کا رنگ گولڈن ہے ورنہ آلودگی کی وجہ سے اس کا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا لگتا ہے کہ کافی عرصہ تک لوگ اپنے گھروں کاصاف ستھرا کھانا کھائیں گے اور دیگر بیماریوں سے بچیں گے اسی طرح وہ مٹھائی حلوہ اور بیکری کے سامان سے بھی دور رہیں گے البتہ اگر حلوہ کودوبارہ فروغ ملا تو وہ علماء کے ذریعے ملے گا کیونکہ حلوہ اور ملا کوزیادہ عرصہ دور نہیں رکھاجاسکتا ایک مرتبہ تو اسلام آباد میں برادر غفورحیدری کے فلیٹ پر سارے جیدعلماء حلوہ کھاکرپمز اسلام آباد پہنچ گئے تھے اور بال بال بچ گئے تھے۔ Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)